غزہ میں اس وقت کس طرح کی امداد کی ضرورت ہے اور کون سے اداروں کے امدادی ٹرک رفح کراسنگ پر موجود ہیں؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ہیریت اوریل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

غزہ میں غذا کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں خوراک، ایندھن اور پینے کا پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔ اس پٹی کی مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر ہزاروں ٹن کی امداد رُکی ہوئی ہے، جس کا غزہ کے شہریوں کو انتطار ہے۔

جیسے جیسے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں شدت آ رہی ہے ایسے میں عالمی رہنما اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے اداروں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ضروری اشیا کو سرحد کے اس پار یعنی غزہ جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

خوراک، پانی اور طبی امداد کی اشیا سے لدے تقریباً 20 ٹرک کو شاید آنے والے دنوں میں سرحد سے اس طرف جانے کی اجازت مل جائے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ریلیف کے ادارے کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بسنے والے 21 لاکھ شہریوں کے لیے روزانہ ایسی امداد کے 100 ٹرک درکار ہیں۔

غزہ میں امداد کیوں نہیں پہنچ پا رہی ہے اور وہاں لوگوں کو کس طرح کی امداد کی ضرورت ہے؟

A Palestinian man carries a bag of flour provided as aid to families at the United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees (UNRWA) distribution centre, in the Al-Shati refugee camp in Gaza city on 31 July 2023

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

غزہ کے پناہ گزینوں کے لیے قائم الشاتی کیمپ کی تصویر

سنہ 2007 سے جب حماس نے غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالا تو اسرائیل اور پڑوسی ملک مصر نے اس پٹی سے اشیا اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔

دونوں ممالک اس طرح سرحدوں کی بندش کے فیصلے سکیورٹی وجوہات سے جوڑتے ہیں۔

غزہ اس وقت ایک بیریئر (رکاوٹ) میں گھرا ہوا ہے، جہاں داخل ہونے یا باہر نکلنے پر متعدد پابندیاں عائد ہیں۔ یہاں تین بڑی سرحدیں ہیں جہاں سے نقل مکانی کی جا سکتی ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ان تینوں سرحدوں کو بند کر دیا گیا ہے، حماس کے اس حملے میں 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل کے وزیردفاع یاؤ گیلنٹ نے عزہ کے مکمل محاصرے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’اب غزہ پر بجلی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند رہے گی۔‘

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں اس وقت تک غزہ کی پٹی میں کم از کم 3785 لوگ مر چکے ہیں جبکہ 12500 شہری زخمی ہوئے ہیں۔

غزہ کے شمال میں اریز اور جنوب میں کریم شالوم ایسی دو سرحدیں ہیں جو اسرائیل سے ملتی ہیں اور یہ دونوں غیرمعینہ مدت تک بند کر دی گئی ہیں۔

مصر کے ساتھ رفح سرحد اب غزہ کے لیے انسانی امداد بھیجنے کا واحد رستہ بچ جاتا ہے۔ اسرائیلی بمباری سے اس روٹ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور یہاں تباہ شدہ رستوں کی ٹرکوں کے لیے محفوظ رستے کی تعیمر نو کی جا رہی ہے۔

اسرائیل کا غزہ امداد بھیجنے سے متعلق کیا مؤقف ہے؟

Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو

اسرائیل کا کہنا ہے کہ جب تک حماس اس کے یرغمال بنائے گئے شہریوں کو رہا نہیں کرتا تو وہ اس وقت تک اپنی سر زمین سے غزہ کے لیے کوئی امداد بھیجنے کی اجازت نہیں دے گا۔

اسرائیل کی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کم از کم 203 لوگ جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں کو حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے بعد یرغمال بنایا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن سے بات چیت کے بعد اسرائیل مصر کی سرحد رفح سے غزہ کو امداد بھیجنے پر راضی ہو گیا ہے۔

اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اگر انھیں یہ لگا کہ غزہ کو جانے والی امداد پرحماس کے سیاست کرنے کے اشارے ملے تو پھر وہ مداخلت کرے گا۔

رفح بارڈر کراسنگ کہاں واقع ہے؟

BBC Graphic

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

حماس، اسرائیل تنازع کے بعد غزہ میں امداد بھیجنے سے متعلق رفح کراسنگ توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ یہ تین سرحدوں میں سے وہ واحد سرحد ہے جو اسرائیل کے بجائے مصر کو جاتی ہے۔ یہ مصر کے جزیرہ نما سینا کا روٹ ہے۔

بظاہر مصر اس سرحد سے غیرملکی افراد کو باہر جانے اور امداد کو غزہ کے اندر جانے کی اجازت دینے کو تیار ہے۔

مصر کے وزیرخارجہ سامح شوکرے نے بی بی سی کے نیوز آور پروگرام میں بتایا کہ مصر کے نکتہ نظر میں ’ہماری طرف والی رفح کراسنگ کھلی ہے۔‘ انھوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ فضائی بمباری کی وجہ سے یہ سرحد ناقابل رسائی ہو کر رہ گئی ہے اور یہ بمباری غزہ کو انسانی امداد لے جانے والی گاڑیوں اور عملے کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہے۔

مصر کے صدر عبدل الفتح السیسی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت غزہ میں جو بھی ہو رہا ہے یہ عام شہریوں کو پناہ کی غرض سے مصر چلے جانے پر مجبور کیا جانا ہے، جس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ فلسطینی ’ڈٹے رہیں اور اپنی سرزمین نہ چھوڑیں‘۔ انھیں یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر اس طرح فلسطینی اپنا ملک چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کرتے رہے تو اس سے پھر فلسطین اپنا مقدمہ ہار جائے گا۔

مصر کو اس خطرے کے علاوہ شدت پسند عناصر کا مصر آنے کا خطرہ بھی ہے۔ مصر کو تقریباً ایک دہائی سے پہلے ہی سینا میں اس طرح کی شورش کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔

غزہ کو امداد کون بھیج رہا ہے؟

Workers load an airplane heading to Egypt with humanitarian aid and relief goods to the Gaza Strip, at Dubai International Airport, United Arab Emirates, 19 October 2023. The International Humanitarian City (IHC) based in Dubai is sending humanitarian aid and relief goods to Gaza. The Israeli government said on 18 October it will not prevent humanitarian aid entering Gaza from Egypt

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

انٹرنیشنل ہیومنٹیرین سٹی،دبئی، کی طرف سے غزہ کے لیے بھیجی جانے والی امداد

اقوام متحدہ نے تقریباً 3000 ٹن تک امداد رفح کی سرحد تک پہنچا دی ہے۔ یہ سرحد سے ایک کلومیٹر سے بھی کم کا فاصلہ ہے۔ خوراک، ایندھن، پانی اور دوائیوں کے ٹرک ابھی غزہ جانے کے منتظر ہیں۔

اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی، یو این آر ڈبلیو اے، کے کمشنر جنرل فلپ لیزینی نے خبردار کیا ہے کہ ’ایک بڑی تباہی آنے والی ہے‘ اور امداد کی فراہمی کے محفوظ رستے کے بغیر بنیادی اشیا کی قلت پیدا ہو جائے گی۔

ورلڈ فوڈ بینک کی جانب سے فوری امداد کی درخواست پر عالمی ادارہ صحت، یونیسف اور دبئی کی انٹرنیشنل ہیومینٹیرین سٹی نے شمالی مصر کے العریش انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک انسانی امداد کی ایک فضائی سروس شروع کی ہے۔

نتیجے کے طور پر اس ایئرپورٹ پر تیار کھانے سے لے کر دستانوں تک جیسی امداد کی آمد ہوئی ہے۔ پھر یہاں سے اس سامان کو لاریوں پر لادا گیا اور 45 کلومیٹر رفح کراسنگ تک لے جایا گیا، جہاں وہ غزہ میں محفوظ راستے کا انتظار کر رہے تھے۔

امریکہ کے ساتھ اس وقت اس امداد کو غزہ تک پہنچانے کے لیے سفارتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک دونوں نے اسرائیل کے دورے کیے ہیں اور وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔ آئندہ چند دن میں غزہ کے لیے 20 امدادی سامان کے ٹرکوں کو فتح سرحد سے اندر جانے کی اجازت ملنے کا امکان ہے۔

مصر کی انسانی امداد دینے والی تنظیم ریڈ کریسنٹ کی مدد سے اقوام متحدہ کا عملہ بھی غزہ جانے والے اس امدادی سامان کا معائنہ کرے گا۔

امداد تقسیم کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ مصر کی طرف سرحد پر اجازت کے منتظر ہیں تاکہ وہ غزہ میں داخل ہو کر ضروری اشیا بانٹ سکیں۔

مصر کے فوڈ بینک کے محسن سارا حان نے بی بی سی ریڈیو 4 ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ اس وقت سرحد پر 120 ٹرک امدادی سامان لیے کھڑے ہیں اور ’ترکی سے سات یا آٹھ‘ سامان بردار طیارے آ رہے ہیں۔

وہ کسی طرح سے مددگار نہ ہونے پر پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بہت ناراض ہیں کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ سرحد کے اس طرف غزہ میں لوگوں کے پاس پینے کا پانی تک ختم ہو چکا ہے۔

ایندھن اور پانی کی صورتحال کیا ہے؟

UN-flagged fuel trucks move towards the Rafah border crossing in the southern Gaza Strip, on 16 October 2023

،تصویر کا ذریعہReuters

عام طور پر اسرائیل کے ساتھ کریم شالوم کراسنگ سے پائپ لائنوں کے ذریعے غزہ میں ایندھن کی ترسیل یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس منصوبے کو قطر کی مالی مدد حاصل ہے۔

یہ ترسیل غزہ کے واحد پاور پلانٹ کے لیے کی جاتی ہے، جسے روزانہ چھ لاکھ لیٹر ایندھن درکار ہوتا ہے۔

تاہم ابھی تعطل کا شکار ہیں اور غزہ پیٹرولیم اتھارٹی کے خالد مہارب کے مطابق اس تعطل کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس سے غزہ میں بسنے والوں کا مکمل خاتمہ کرنا اور نظام زندگی کا مکمل طور پر مفلوج کرنا ہے۔

غزہ کے محاصرے سے قبل بجلی کی سپلائی کی قلت تھی، جس سے شہر اندھیروں میں ڈوب جاتا۔ غزہ میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنے جنریٹرز ہیں جن کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح بہت سارے ایسے ہسپتال ہیں جن کا انحصار ایمرجنسی جنریٹرز پر ہے مگر اب ایندھن کی سپلائی بہت کم رہ گئی ہے۔

خالد مہارب کا کہنا ہے کہ پاور پلانٹ غزہ کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ریلیف کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے سے تعلق رکھنے والی جولیٹ توما کہتی ہیں کہ پانی کی صفائی کرنے والے پلانٹس کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے جو ’غزہ کے لوگوں کے نلکوں میں پانی کی فراہمی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔‘ یہ ادارہ نلکے کے پانی کو پہلے ہی پینے کے لیے غیر موزوں سمجھا جاتا تھا اور اسرائیل نے اب صاف پانی کی سپلائی کا بڑا حصہ بند کر دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے پینے، دھونے، کھانا پکانے اور نہانے کے لیے روزانہ پانی کی کم از کم معین کردہ کھپت کی حد 100 لیٹر فی کس ہے۔ تنازع سے پہلے غزہ میں پانی کی اوسط کھپت 84 لیٹر کے لگ بھگ تھی، جس میں سے صرف 27 لیٹر انسانی استعمال کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔

اس وقت ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق فی کس تین لیٹر پانی خرچ ہو رہا ہے۔

غزہ میں کام کرنے والے شمالی لندن سے تعلق رکھنے والے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر غسان ابوستاح نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں وسائل زندگی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جبکہ پانی کا پریشر کچھ آلات کے کام کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

ایکس، سابقہ ٹوئٹر، پر انھوں نے لکھا کہ ’کارنر شاپ سے سرکہ‘ اس وقت بیکٹیریل انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادھانوم گیبریئسس نے غزہ تک خوراک، پانی اور طبی سامان پہنچانے کی تگ و دو میں امریکی قیادت اور ان کی سفارت کاری کی کوششوں کی تعریف کی۔ انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ’بہت سی قیمتی جانوں کا انحصار اب اس پر ہی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ