ہپی ٹریل: ’نشے کی تلاش میں‘ یورپ سے افغانستان، پاکستان اور انڈیا کا سفر کرنے والے آزاد منش باغی

ہپی ٹریل، انڈیا

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق

یہ ستر کی دہائی ہے۔ انڈیا میں گھومتی چلم کے بیچ جھومتی زینت امان ’دم مارو دم‘ گاتی ہیں تو پاکستان میں ایک غار میں سگریٹ بردار شبنم کی پکار ’دم دما دم، پی کے ذرا دیکھو‘ ہے۔

پہلا گانا گایا 1971 کی فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ کے لیے آشا بھوسلے نے اور دوسرا نیرہ نور نے 1974 کی فلم ’مس ہِپی‘ کے لیے۔ دھواں دھواں سیٹ پر فلمائے گئے دونوں نغموں میں زیادہ چہرے لباس اور برتاؤ میں آزاد منش نوجوانوں کے ہیں۔ یہ ہِپی ہیں۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ نام 1960 کی دہائی کے ایسے نوجوانوں کو دیا جنھیں مادیت مخالف ’بیٹنکس‘ کی ارتقائی شکل کہا جاسکتا ہے۔ بیٹنکس نے 1950 اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں امریکی ثقافت کو مسترد کیا اور ادب، شاعری، موسیقی اور مصوری کے ذریعے اپنا اظہار کیا۔

ویتنام کی جنگ اور اس کے لیے بھرتی کی مخالفت کرتے یہ نوجوان چرس، جنسی آزادی اور بال نہ کٹوانے کی توثیق کرتے۔

ہپی ٹریل

،تصویر کا ذریعہRichard Gregory in Kabul in 1974 (Private Collection)

آزاد منش باغیوں کا ’ہپی ٹریل‘

تمام قومیتوں کے ’ہِپیوں’ کا 1965 اور 1980 کے درمیان یورپ سے نشے کی تلاش میں افغانستان، پاکستان، انڈیا اور نیپال (یا سردیوں میں گوا) تک کا زمینی سفر برطانیہ میں ’ہپی ٹریل‘ کہلایا۔ اسی کو امریکی میڈیا ’حشیش ٹریل‘ کہتا تھا۔ تاہم سنہ 1967 تک ’بیٹنک‘ کا لفظ ’ہپی‘ سے نہیں بدلا تھا۔

سنہ 1968 میں جب راک بینڈ بیٹلز نے انڈیا کا دورہ کیا تو مغربی یورپ سے آنے والے نوجوانوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ کچھ صرف دنیا دیکھنا چاہتے تھے۔

ہپی ٹریل کے دنوں میں پابندی تھی کہ کوئی شخص کتنی رقم نقد لے کر جا سکتا ہے۔ سنہ 1974 میں برطانیہ میں یہ حد 25 پاؤنڈ تھی۔ اس کے بجائے ہر ایک کو کمیشن ادا کر کے بینک سے ٹریولرز چیک خریدنا پڑتے۔ مسافر امریکی ڈالر سمگل بھی کرتے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ہپی ٹریل کے مسافر خود کو ’ہپی‘ نہیں کہتے تھے بلکہ ’فریکس‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے تھے۔

یہ چرس گانجا تو ایک پہلو ہے ہپیوں کی زندگی کا۔ ہپی ایسے نوجوان تھے جو بالعموم لباس اور برتاؤ میں آزاد منش اور اپنے رجحانات اور سوچ میں صلح جو تھے۔

ملکوں ملکوں پھرنے والے سفر کار اور مصنف فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں کہ یہ ایسے باغی تھے جنھوں نے کبھی کسی کو اپنی بغاوت اور باغیانہ طرزِ زندگی میں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔

‘مال، دولت، سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی کے اِن باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے، اپنے اثرات چھوڑتے چلے گئے۔ ان کے نزدیک مصنوعی خوراک، یعنی کھاد اور کیمیکلز سے محفوظ خوراک کو ہاتھ لگانا گناہ تھا، حتیٰ کہ نہاتے بھی کم کم تھے۔ کپڑے بھی بس جس قدر ممکن ہو کم ہی پہنتے تھے۔ بال کٹوانا تو بہت ہی معیوب تھا ان باغیوں میں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی، جس کا کوئی رہبر نہیں تھا۔ کوئی دفتر، سیکریٹریٹ، چھپا منشور، عہدے دار، لیڈر، رکنیت سازی نہ تھی۔ مکمل آزاد اور خودمختار تحریک تھی۔ سرد جنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اور ثقافت پر وہ اثرات مرتب کیے کہ عالمی طاقتیں اپنے وسائل اور پراپیگنڈے سے بھی نہ کر پائیں۔‘

ہپی ٹریل

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK/U.S. Consulate General Karachi

ہپی ٹریل کے کچھ مسافر افغانستان کیوں رُک جاتے تھے؟

رچرڈ گریگری خود بھی نوجوانی میں ہپی ٹریل کا حصہ بنے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہپی ٹریل استنبول سے شروع ہوتی جہاں یورپ کی تمام سڑکیں ملتی ہیں۔

ہپی ٹریل کے ساتھ ساتھ مشہور ہونے والے ہوٹل استنبول میں گلہانے، تہران میں امیر کبیر، کابل میں مصطفیٰ، پشاور میں رینبو، لاہور میں ایشیا ہوٹل، دلی میں کراؤن اور بمبئی میں ریکس اینڈ سٹیفلز تھے۔ گریگوری کہتے ہیں ان کے متبادل اکثر بہتر (اور عام طور پر سستے) ہوتے تھے۔

’مجھے قندھار میں نیو ٹورسٹ، کابل میں پیس اور پوکھرا (نیپال) میں وائٹ ہاؤس کے نام یاد ہیں۔ سری نگر میں ہاؤس بوٹس کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا، جب کہ گوا میں لوگ مقامی مکانات کرائے پر لیتے تھے۔ پشاور اور لاہور میں جدید ہائی رائز ہوٹلوں کا استعمال کیا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’جب میں استنبول سے گزرا تو گلہانے پولیس کے چھاپوں کے لیے بدنام تھا اور اس کے آس پاس بہت سے دوسرے آپشنز موجود تھے (جن میں سے ایک میں نے استعمال کیا)۔‘

سلطان احمد، استنبول میں لیلے ریسٹورنٹ – جسے عالمی سطح پر پڈنگ شاپ کے نام سے جانا جاتا ہے – 1957 میں کھولا گیا۔

نیلی مسجد اور آیا صوفیہ کے قریب یہ مقام مثالی تھا کھٹمنڈو جاتے ہوئے تقریباً ہر کوئی استنبول سے گزرتا تھا، اور اوور لینڈ بسیں آس پاس، سستے ہوٹلوں کے قریب کھڑی ہوتیں۔

گریگوری کے مطابق استنبول میں بہت سے پُرکشش مقامات ہیں لیکن یہ یورپ میں ہے۔ ’ہپی ٹریل پر آپ کی مہم جوئی اس وقت تک شروع نہیں ہوتی جب تک آپ اسے پیچھے نہیں چھوڑ دیتے۔‘

کچھ لوگ جنوب میں مشرق وسطیٰ میں حشیش پیدا کرنے والے ایک اہم ملک لبنان کی طرف نکل جاتے۔ یا ترکی سے یہ راستہ، تب شاہ [رضا شاہ پہلوی ] کے زیر انتظام ایک سیکولر ملک ایران سے ہوتا ہوا افغانستان جا نکلتا۔

افغانستان کے بڑے شہروں میں ہوٹل، کیفے اور ریستوراں تھے جن کے گاہک خصوصی طور پر ‘ہپی ٹریلرز’ تھے۔

گریگوری کے مطابق دنیا کی بہترین چرس پیتے مسافر ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور مشورے دیتے کہ اگلے شہر میں کہاں جانا ہے۔ ہر ایسے مقام کی ایک خصوصیت لائبریری تھی، جو بہت سی زبانوں میں پیپر بیکس کا ایک بین الاقوامی مجموعہ ہوتا جو مسافر چھوڑ جاتے۔

گریگوری نے کہا کہ ’ہرات ہپی ٹریل پر پہلی حقیقی منزل تھی۔

‘یہاں زندگی کی رفتار سست تھی۔ موٹر ٹریفک بہت کم تھی۔ مرکزی سڑکوں پر زیادہ تر گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں سے چلنے والی گاڑیاں اور تانگے تھے۔‘

ہپی ٹریل پر ایک اور مشہور ریستوراں کابل میں ایک جرمن، سیگی کا ہوٹل تھا، جس میں ’اچھا کھانا اور چاول کی کھیر‘ کے ساتھ ساتھ سبز چائے اور شطرنج کے بورڈ بھی ملتے۔

رچرڈ نیویل نے اپنے 1966 کے مضمون میں کابل کے خیبر ریسٹورنٹ کی توثیق کی ہے۔ وہ اس وقت شہر کی واحد جگہ تھی جہاں مغربی طرز کا کھانا پیش کیا جاتا تھا۔

افغانستان میں ہوٹل کے آس پاس بہت سے تاجر ہاتھ سے بنا کپڑا، چمڑے کا سامان اور قالین فروخت کرتے اور زیادہ تر تاجروں کے پاس چرس بھی ہوتی ، اپنے لیے اور فروخت کے لیے۔

شاید اسی لیے کچھ لوگ افغانستان سے آگے نہ جاتے۔

ہپی ٹریل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں صوفیا کے مزار ’ہپیوں کا ٹھکانا بنے‘

افغانستان کے بعد بہت سے موڑ تھے۔ پاکستان میں داخل ہونے پر شمال کی طرف سوات اور چترال کی طرف بڑھا جاسکتا تھا۔

لکھاری ندیم فاروق پراچہ کے مطابق جب پاکستان ہپی آمد و رفت میں ایک درمیانی منزل بنا تو پشاور، سوات، لاہور اور کراچی ہپیوں کے لیے اہم مقامات بن گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہپی درہ خیبر کے راستے راولپنڈی آتے پھر وہاں سے لاہور اور پھر بس کے ذریعے انڈیا جاتے۔ بہت سے ہپی کراچی کے ساحلوں سے لطف اندوز ہونے چلے جاتے۔‘

’ان کے لیے پاکستان میں ایک اور مقبول ٹھکانا لاہور اور کراچی کے صوفیوں کے مزارات تھے۔ اسی زمانے میں، مڈل کلاس نوجوانوں نے بھی پہلے سے زیادہ مزاروں پر جانا شروع کر دیا- خصوصاً جمعرات کی رات کو جب بہت سے مزاروں پر روایتی صوفی موسیقی، قوالی، کا اہتمام کیا جاتا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ہپپی پہناوے نوجوان پاکستانیوں میں بھی مقبول ہونے لگے۔ وہ نوجوان لڑکے جن کے بال ساٹھ کی دہائی کے اختتام تک چھوٹے ہوا کرتے تھے، ستر کی دہائی کی ابتدا میں (گھنی قلموں کے ساتھ) لمبے ہونا شروع ہو گئے۔ خواتین کی قمیضیں چھوٹی ہونا شروع ہو گئیں۔‘

فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں: ’میں نے اپنے سفروں میں متعدد ہپیوں سے دوستی بھی گانٹھی۔ کئی مرتبہ تو (لاہورمیں) اپر مال پر قائم انٹرنیشنل ہوٹل جا کر اُن سے ملاقاتیں کرتا جہاں اُن کی مشہورِ زمانہ ڈبل ڈیکر بسیں آ کر رُکتی تھیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب غیر ملکی یہاں آنے سے ڈرتے نہیں تھے، بلکہ خود کو بڑا محفوظ سمجھتے تھے۔

‘ایک ہپی کو میں نے مسلسل چار روز لاہور چھاؤنی میں اپنے گھر کے قریب ایک پارک میں لیٹے دیکھا۔ پانچویں دن جب میں اس کے قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھوک سے آدھ موا ہوچکا تھا۔ اس جواںسال ہپی کا تعلق سابق یوگوسلاویہ سے تھا۔ وہ کئی روز میرے ہاں کھاتا، پیتا اور سوتا رہا بلکہ میں نے اسے نہانے پر بھی مجبور کیا اور اس کے تمام کپڑے بھی دھلوائے۔ پھر وہ میرا ایسا دوست بنا کہ دنیا بدل گئی مگر ہماری دوستی نہ بدلی۔‘

ان مسافروں کو ٹھہرانے کے لیے بہت سے سستے ہوٹل ابھرے اور سیاحتی صنعت پشاور، لاہور اور کراچی میں پروان چڑھی۔

گریگوری کے مطابق پشاور میں رینبو گیسٹ ہاؤس ایک مقبول ’فریک ہینگ آؤٹ‘ تھا۔ لاہور میں ریلوے سٹیشن کے قریب ایشیا ہوٹل مغربی باشندوں کے لیے ایک مقبول انتخاب رہا ہے ۔

بہت کم ہپی چترال جاتے کیونکہ وہاں بسیں نہیں تھیں لیکن 1968 سے ایک ہوٹل ماؤنٹین اِن تھا جسے حیدر علی شاہ چلاتے تھے۔

ہپی ٹریل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’انڈیا میں کبھی شراب نہیں پی، لسی پسندیدہ کولڈ ڈرنک تھی‘

اکثریت پاکستان کو عبور کر کے انڈیا میں داخل ہو جاتی، جہاں نشے کے پُرجوش متلاشی کشمیر کی جانب جا سکتے تھے۔ شمالی انڈیا میں کلو اور منالی بھی تھے، جو ہپیوں میں ایک اور مقبول مقام اور حشیش کی کاشت کا ایک اور مرکز تھا۔

ٹھنڈے مہینوں میں زیادہ تر ہپیز جنوب میں گوا کے ساحلوں کی طرف جاتے جہاں چرس ہمیشہ دستیاب رہتی (حالانکہ یہ وہاں پیدا نہیں ہوتی تھی)۔

رچرڈ گریگری کہتے ہیں کہ ’بیڑی سستی تھی جنہیں وہ اکثر پیتے۔ پیدل فاصلے سے دور کہیں بھی جانے کے لیے میں زیادہ تر سائیکل ٹیکسیوں کا استعمال کرتا تھا، تین پہیوں والی کھلی گاڑیاں جو مقامی لوگ چلاتے تھے۔‘

انڈیا میں کچھ ہپی ’مندروں میں مفت سونے‘ اور خیرات پر دیا گیا کھانا قبول کرنے کے موقع کا بھی فائدہ اٹھا لیتے۔

گریگوری دلی کے علاقے پہاڑ گنج میں ’وکاس‘ میں ٹھہرے۔ دلی کے ہوٹل کراؤن کے بارے میں بھی سنا تھا۔ ولکو جانسن 1970 میں وہاں رہے۔

ان کا کہنا تھا ‘پرانی دلی کے کراؤن ہوٹل میں ایک رات ہم نے سالگرہ کے موقع پر خریدا ہوا کریم کیک دیکھا جس کو ایک سور گھسیٹ کر لے جا رہا تھا۔‘

بمبئی خاص طور پر رہنے کے لیے ایک مہنگا شہر تھا۔ ولکو کہتے ہیں کہ بمبئی میں وہ وکٹوریہ ٹرمینس میں سوتے تھے۔

ایک اور مشہور ہپی ٹریل ہینگ آؤٹ بمبئی میں اور مسٹن روڈ پر دیپتی کا ہاؤس آف پیور ڈرنکس تھا۔

گریگوری کہتے ہیں: ’ایک سبزی خور کے طور پر میں نے ہندوستان کو ایک شاندار جگہ پایا۔ بمبئی کے چرچ گیٹ سٹیشن کا ریستوراں شاید میرا سب سے پسندیدہ تھا، جس میں مزیدار ڈوسے اور تھالی پیش کی جاتی تھی، حالانکہ کلانگوٹ میں بھیل پوری کا سٹال بھی میری یاد میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

’رات کا کھانا عام طور پر سبزی اور چپاتی یا پوری کے ساتھ ہوتا تھا۔ عام ناشتا پکوڑے، سموسے، کچوری اور چاٹ تھے۔ میں دال موٹھ اور چیوڑا چباتا۔ میں میٹھا پسند کرتا تھا، حلوہ، برفی، لڈو، گلاب جامن اور کالا جامن ملے۔ لسی میری پسندیدہ کولڈ ڈرنک تھی لیکن میں عام طور پر کھانے کے ساتھ صرف ایک گلاس پانی پیتا تھا۔ میں نے انڈیا میں کبھی شراب نہیں پی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’گوا کے اپنے بعد کے سفر میں میں نے بھیل پوری، ڈوسا اور تھالی کا لطف اٹھایا۔ قلفی، شریکھنڈ، فالودہ اور گلاب کے دودھ سے آشنا ہوا۔ اور بمبئی کی ایک گلی سے گنے کے تازہ رس کا لطف اٹھایا۔‘

‘اور، ظاہر ہے، میں نے کافی مقدار میں چائے پی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ‘کانپور میں ریلوے سٹیشن کے قریب چائے کا سٹال ہے۔ چائے دنیا بھر میں کئی طریقوں سے پیش کی جاتی ہے لیکن میری پسندیدہ – اور ہندوستانی ٹرک ڈرائیوروں کی – بغیر پانی کے بنتی ہے۔ چائے کی پتی، ہری الائچی اور لونگ کو دودھ میں اُبالا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بننے والے مرکب کو ایک گلاس میں گرم گرم پیش کیا جاتا ہے، ہمیشہ کافی مقدار میں چینی کے ساتھ۔

‘سٹیشن کے سامنے ایک پگڑی والے بوڑھے نے مجھے اشارہ کیا اور چلم نکالا۔ ہم نے اکڑوں بیٹھ کر وہیں تمباکو نوشی کی، ایک بڑا ہجوم تماشا دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ ہم وارانسی میں چند دن ٹھہرے، جسے انگریز بنارس کے نام سے جانتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اگلے دن ہم نے سرکاری گانجے کی دکان کا پتا لگایا – وارانسی میں کچھ خاص انتظام تھا اور یہ زمین پر باقی رہ جانے والی چند جگہوں میں سے ایک تھی جہاں اب بھی چرس قانونی طور پر خریدی جا سکتی تھی، حالانکہ دیگر جگہوں پر قوانین کو اکثر نظر انداز کیا جاتا تھا۔

’بھنگ ایک دکان سے خریدی گئی۔ ایک مقامی نوجوان نے اسے کچھ دہی میں شامل کر کے مائع بنانے کا انتظام کیا، اور ہمیں قریبی بیرونی کیفے میں ایک طاقتور بھنگ لسی پیش کی۔‘

’میں نے زبان کے بغیر بات چیت کرنا سیکھا‘

کلاسک ہپی ٹریل کھٹمنڈو پر ختم ہوتی تھی ۔یہ وہ مقام تھا جہاں تک آپ گاڑی چلا سکتے تھے – تبت اور یارکند تک رسائی ناممکن تھی، برما سے گزرنے والی سڑک بند تھی۔ یوں یا تو بنکاک کے لیے فلائٹ لی جاسکتی تھی یا مڑ کر گھر کو واپسی۔

کھٹمنڈو ایک خوبصورت شہر تھا جو زیادہ تر لکڑی کا بنا ہوا تھا، جس میں بہت سی عمارتوں کو آراستہ کیا گیا تھا۔

کھٹمنڈو میں موجودہ کیفے دی گلوب اور دی کیمپ ’بیٹنکس‘ کے زیر استعمال پہلے باقاعدہ گیسٹ ہاؤس بنے۔ لیکن 1969 میں سب کچھ بدل گیا۔

نیپال کے ماہر مارک لیچٹی نے اپنی کتاب فار آؤٹ میں بتایا ہے کہ اورینٹل لاج فریک سٹریٹ پر پہلا ہوٹل تھا، اور اس کے فوراً بعد دیگر عمارتوں کو تبدیل کر دیا گیا۔

فریک سٹریٹ کہلاتی گلی کا اصل نام ’جھوچھن ٹولے‘ تھا۔ اس پر متعدد ہوٹل اور ریستوراں تھے جہاں ہپی ٹریلر اکثر آتے تھے۔ ’یہاں 1973 تک چرس کی بہت سی دکانیں قانونی طور پر چل رہی تھیں، اور یوں دنیا کی بہترین چرس حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔‘

ہپی روایتی سیاحوں کے مقابلے میں مقامی آبادی کے ساتھ بات چیت کرنے میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ انھیں لگژری رہائش میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، چاہے وہ اس کے متحمل ہوں (جو کچھ ہی ہو سکتے تھے)۔

گریگوری کہتے ہیں: ’میں نے سیکھا کہ زبان کے بغیر بات چیت کیسے کی جائے۔ میرا کچھ بہترین وقت ایسے لوگوں کے ساتھ گزرا جو زیادہ تر اشاروں اور مسکراہٹوں کا استعمال کرتے تھے، اور ان میں نیپال کے تبتی مہاجرین بھی تھے، جو انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن ان کی اچھی صحبت تھی۔‘

جان بٹ
،تصویر کا کیپشن

جان بٹ نے کہا تھا کہ ’میں بوڑھا ضرور ہو رہا ہوں لیکن سابق ہپی نہیں ہوں بلکہ آج بھی ہپی ہوں‘

جان بٹ جیسے ہپی یہیں کے ہوگئے

1986 میں انڈیا کے شہر گوا میں فرانسیسی سیریل کلر چارلس سوبھراج کو گرفتار کیا گیا۔

سوبھراج نے 1975 میں کھٹمنڈو میں دو سیاحوں کے قتل کے جرم میں نیپال کی جیل میں 19 سال گزارے ہیں لیکن 1970 کی دہائی میں وہ سیاحوں کے قتل کے دیگر واقعات سے بھی منسلک تھے اور انھوں نے فرانسیسی سیاحوں کو زہر دینے کے الزام میں انڈیا میں 20 سال جیل میں بھی گزارے۔

ان کا تعلق 1972 اور 1982 کے درمیان 20 سے زیادہ ہلاکتوں سے جوڑا جاتا ہے جن میں زیادہ تر نوجوان مغربی بیک پیکرز تھے جو انڈیا اور تھائی لینڈ میں ہپی ٹریل پر تھے۔

کچھ جانیں اس کے علاوہ بھی گئیں۔

گریگوری لکھتے ہیں صحت مند رہنا مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر افغانستان میں، اور یہاں تک کہ ہپی بھی ثقافتی جھٹکے کا شکار ہوتے۔

‘کچھ شدید بیمار ہو جاتے یا ان کے پیسے ختم ہو جاتے اور انھیں گھر لے جانا پڑتا۔ کچھ جیل بھی جاتے۔ تاہم، زیادہ تر بچ جاتے۔‘

اکثر ہپی دوسروں کو اپنے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دیتے۔ چند ایک نے اپنی کفالت کے طریقے تلاش کر لیے اور انڈیا میں مستقل طور پر رہنے لگے۔

اور مذہبی عالم اور بی بی سی کے صحافی جان محمد بٹ کی کہانی تو آپ اسی جگہ پڑھ چکے ہیں۔

وہ ساٹھ کی دہائی میں جان مائیکل بٹ کے نام سے ہپی ٹریل کا حصہ بنے۔ پاکستان میں اسلام قبول کیا۔ بعد میں انڈیا سے باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کی۔ ان کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ’ایک طالب کی کہانی: ایک پشتون انگریز کی زندگی‘ کے نام سے چھپی ہے۔

تبصرہ کار اسے ایک ‘آؤٹ سائیڈر’ کے طور پر پشتون زندگی کا ایک قابل ذکر، آنکھ کھولنے والا تذکرہ قرار دیتے ہیں۔ ’جان محمد بٹ کی یادداشتیں قارئین کو انگلینڈ سے پاکستان کی وادی سوات اور کیتھولسزم سے اسلام تک کے سفر پر لے جاتی ہیں۔‘

ہپی ٹریل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہپی ٹریل کیسے ختم ہوئی؟

کلاسک ہپی ٹریل 1979 میں ختم ہوئی جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور سرحد کو مغربی مسافروں کے لیے بند کر دیا۔

ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب پر فوری طور پر زمینی راستے کو بند نہیں کیا گیا لیکن بہت سی بس کمپنیاں اس کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھیں۔

1980 میں عراق کے ایران پر حملے کے بعد یہ خدمات جلد ہی ختم کر دی گئیں- بلوچستان کے راستے جنوبی سڑک کا استعمال اب قابل عمل نہیں رہا تھا۔ لبنان پہلے ہی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آچکا تھا، کشمیر میں بھی کشیدگی بڑھتی گئی اور نیپال بھی بالآخر اپنا امن و سکون کھو بیٹھا۔

تو یہ اوورلینڈ ہپی ٹریل کا اختتام تھا۔ ہوائی سفر اب سستا ہو گیا تھا اور گوا ہپیوں کا مرکز بن گیا۔ لہٰذا ہپی ٹریل ہوائی راستے سے جاری رہی۔

گوئندی لکھتے ہیں کہ ایک ہپی جوڑا ابھی چند سال قبل دوست بنا۔ ’یہ اطالوی جوڑا، استنبول میں آیا صوفیہ کے پہلو میں صوفیانہ لباس میں ملا۔ اس اطالوی صوفی جوڑے نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے ہپی تھے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’خالی جیب پوری دنیا گھومتے۔ چلتے چلتے سفروں میں ہم دونوں ہمسفر بنے اور پھر ایک دن ہرے کرشنا ہرے رام کرتے کرتے ہم نے دما دم مست قلندر گیت سنا۔

’گیت کے قریب ہوتے ہوتے ہم ایک دن مسلمان ہو گئے۔ مگر ہم اب بھی ایک سے دوسرے ملک چلے جاتے ہیں۔ وقت ملے تو واپس اپنے وطن اٹلی چلے جاتے ہیں۔ سارا جہاں ہمارا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ