معاشی مفادات یا ثالثی کی خواہش: صدر اردوغان اسرائیل اور حماس تنازع میں ’نیوٹرل‘ کیوں ہوئے؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, لینا شوابکہ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، عمان

گذشتہ دنوں ایک جانب جہاں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری جاری تھی وہیں دوسری جانب ایک چھوٹی سی خبر سامنے آئی جس کے مطابق ترکی نے اسرائیل کو خوراک فراہم کی تاہم 17 اکتوبر کو ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اس خبر کی تردید کر دی۔

یہ تردید ایسے وقت میں سامنے آئی جب اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ ساڑھے چار ہزار ٹن سامان سے لدا ترکی کا ایک بحری جہاز، جس میں اجناس اور سبزیاں وغیرہ شامل ہیں، اسرائیل کی حائفہ بندرگاہ میں لنگر انداز ہوا ہے۔

اس جہاز پر اجناس اور سبزیاں موجود ہوں یا نہ ہوں مگر اصل میں یہ معاملہ غزہ کی پٹی سے جڑے موجودہ حالات پر ترکی کے مؤقف پر ایک سوالیہ نشان لگا چکا ہے جس میں اسرائیلی حکومت اور ترکی کے سربراہ کے درمیان تعلقات بھی زیر بحث ہیں۔

ان سوالوں کے جنم لینے کی ایک وجہ حال ہی میں ترکی کے صدر اردوغان کا لہجہ بھی ہے کیوں کہ ان کے الفاظ میں ماضی کے مقابلے میں وہ شدت نہیں جو پہلے اسرائیل کے خلاف اور حماس کے حق میں ہوا کرتی تھی۔

حماس کی جانب سے حالیہ حملے کے بعد ترکی نے ’نیوٹرل‘ بیانیہ اپنایا اور حماس یا اسرائیل دونوں میں سے کسی پر واضح تنقید نہیں کی۔ ترکی کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکتوں پر اظہار افسوس اور تنازع کو حل کرنے کے لیے تمام فریقین سے رابطوں پر زور دیا گیا۔ تاہم جب غزہ کی پٹی میں ایک ہسپتال پر بمباری میں 500 ہلاکتیں ہوئیں تو اردوغان نے کہا کہ اسرائیل بمباری سے قتلِ عام کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ایک جانب اردوغان نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ فلسطینی علاقوں پر بمباری روکی جائے تو وہیں دوسری جانب انھوں نے اسرائیل میں حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کے خلاف کارروائیوں کو روکنے پر بھی زور دیا۔ اردوغان نے کہا کہ تمام فریقین کو چاہیے کہ امن کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

اردوغان کا یہ بیان ماضی میں دیے جانے والے بیانات سے کس طرح مختلف ہے؟

لہجے کی تبدیلی

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے 2020 میں ترکی کا دورہ کیا تھا جس میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سنہ 2014 کی غزہ جنگ میں جب 2300 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے تو اردوغان نے مذمت پر اکتفا نہیں کیا تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ ’اسرائیلی ہولوکاسٹ کی وجہ سے دن رات ہٹلر کو کوستے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی دہشت گرد ریاست ظلم ڈھانے میں ہٹلر کو مات دے چکی ہے۔‘

اردوغان نے مصر کے صدر کو بھی اسرائیل کا مددگار قرار دیا جب اسرائیل اور مصر نے ترکی اور قطر پر الزام لگایا کہ انھوں نے حماس کو مصر کے جنگ بندی منصوبے کو رد کرنے پر اُکسایا۔ اسی سال اردوغان نے امریکی جیوش کانفرنس کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی کوشش پر ملنے والے ایک اعزاز کو واپس کر دیا جو 2004 میں انھیں دیا گیا تھا۔

سنہ 2018 میں اردوغان نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا اور اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلاتے ہوئے ترکی میں تعینات اسرائیلی سفیر کو بھی نکال دیا تھا۔

یوسف کتیبوگلو ترکی کے تجزیہ کار ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’اردوغان کے حالیہ بیانات نیوٹرل ہیں جو خطے میں موجود بیلنس کو جانچتے ہوئے دیے گئے لیکن یہ سیاسی بیان بھی ہے جو واضح کرتا ہے کہ وہ ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اردوغان کے بیانات عرب اور مسلم دنیا میں زیادہ پسند نہیں کیے جائیں گے جہاں ان کو مسلم دنیا کے ایک سربراہ کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ترکی جنگ کی آگ کے شعلے بجھانے کی کوشش کر رہا ہے کیوں کہ یہ پورے خطے میں پھیل کر بیرونی قوتوں کی مداخلت کی وجہ بن سکتے ہیں۔‘

پیرس یونیورسٹی کے ڈاکٹر ابو دیاب کہتے ہیں کہ ’اردوغان کا لہجہ ماضی کے مقابلے میں ملک کی معاشی صورت حال کے باعث اس بار مختلف ہے اور اسی لیے اردوغان نے نیوٹرل رہنے کا انتخاب کیا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر ہونے والی بمباری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران اگر جاری رہا تو ’ترکی کی گلیوں میں عوام اس پوزیشن کو بدلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔‘

مخالفت سے مفاہمت تک

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیلی وزیر اعظم اور اردوغان کے درمیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ملاقات ہوئی جس کے بعد سے ان کا لہجہ بدلا بدلا سا ہے۔

سنہ 2018 میں دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے تھے جب ترکی نے امریکہ کی جانب سے سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے اور درجنوں فلسطینیوں کے ہلاکت پر احتجاج کیا تھا۔

لیکن 2020 کے بعد سے ترکی نے خطے کے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جن میں اسرائیل بھی شامل تھا۔ اسی سال ترکی نے ایک اسرائیلی جوڑے کو رہا کیا جس کے بعد اسرائیلی صدر کا ترکی کے دورے کے دوران پرتپاک استقبال بھی ہوا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ وہ معاشی بحران ہےجس کا ترکی کو سامنا ہے اور ایسے میں اردوغان کی کوشش ہے کہ وہ خطے میں ممالک سے روابط کو بہتر بنائیں۔

ترک صدر اردوغان نے غزہ کی پٹی میں پیش آنے والے واقعات کے بعد کہا کہ ان کا ملک یرغمالیوں کی رہائی سمیت کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور ترکی غزہ کی پٹی کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ترکی حالیہ تنازع میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے؟

یوسف کاتب کا کہنا ہے کہ ترکی واحد ملک ہے جو دونوں فریقوں سے بات چیت کر سکتا ہے تاہم ان کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں ’اس وقت بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔‘

ترکی کے ایوان صدر میں موجود ذرائع نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے جن کے مطابق ترکی اس تنازع میں فوج کے ذریعے بھی مداخلت کر سکتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق صدر اردوغان سفارتی کوششوں سے جنگ بندی چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر ابو دیاب نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور ترکی میں قریبی تعلقات ہیں جبکہ حماس سے بھی روابط موجود ہیں اس لیے ترکی فلسطینیوں کے لیے ایک اچھا ثالث ہو سکتا ہے۔

حماس ترکی کو اپنا حلیف مانتی ہے اور اس کے متعدد سربراہ ترکی میں قیام پذیر رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ اور خالد مشعال اکثر استنبول کا دورہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ابو دیاب کے مطابق ’اسرائیل اور ترکی کے تعلقات بہتر ہیں لیکن اگر حالات قابو سے باہر ہوئے تو یہ پھر سے خراب بھی ہو سکتے ہیں لیکن مفادات اور حقائق نہیں بدلیں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ