سرنگوں کا خوف اور گنجان آباد علاقے کی جنگ: غزہ پر زمینی حملہ جس کی تیاری اسرائیل برسوں سے کر رہا ہے

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جوناتھن بیل
  • عہدہ, دفاعی نامہ نگار

اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر زمینی حملے شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمال میں رہنے والے 11 لاکھ شہریوں کو 24 گھنٹوں میں جنوبی حصے میں منتقل ہونے کا کہا تھا جبکہ ہزاروں فوجی، ٹینک اور توپ خانہ غزہ کی سرحد پر اکھٹے ہو رہے ہیں۔

تاہم گنجان آباد غزہ میں فوجی بھیجنا خطرات سے خالی نہیں ہو گا۔ ممکنہ زمینی حملے کے بارے میں تاحال کچھ واضح نہیں کہ یہ غزہ میں کس حد تک اور کتنی مدت تک جاری رہے گا۔

غزہ پر حملہ کب ہو سکتا ہے؟

غزہ پر زمینی حملے کی تیاری تو شروع ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کے میجر جنرل ایموس گلیاڈ نے کہا ہے کہ اسرائیل پہلے ایک اتحادی حکومت کی تشکیل طے کرے گا تاکہ مستقبل میں ہونے والے اقدامات کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔

حالیہ اعلیٰ سطحی امریکی اور یورپی سیاستدانوں کے دوروں سے اسرائیل بین الاقوامی سطح پر تو حمایت مضبوط کر رہا ہے تاہم اگر یہ جنگ طویل عرصہ جاری رہی اور عام شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوا تو اس یکجہتی میں کمی بھی آ سکتی ہے۔ عسکری آپریشن میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت بھی اسرائیل کے عزم کو کمزور کر سکتی ہیں۔

جہاں تک عسکری تیاریوں کا معاملہ ہے تو اسرائیل غزہ کی سرحد پر اپنی فوج اکھٹی کر چکا ہے۔ فوج کے ایک لاکھ 60 ہزار سپاہیوں کے علاوہ تقریبا تین لاکھ ریزرو فوجی بھی بلائے جا چکے ہیں۔ ہم نے ان میں سے چند سے بات چیت کی اور یہ فوجی لڑائی کے لیے تیار نظر آئے۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہEPA

نسم کو جب حماس کے حملے کی خبر ملی تو وہ سری لنکا میں تھے۔ انھوں نے پہلی پرواز پکڑی اور واپس اپنی یونٹ میں شامل ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم اسی کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘

شوکی نے بھی اپنی نوکری چھوڑی ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ امن ہو لیکن بدقسمتی سے یہ ممکن نہیں۔ ہمیں زندگی پسند ہے تو زندہ رہنے کے حق کے لیے لڑنا پڑے گا۔‘

بظاہر اسرائیل میں لوگ متحد نظر آتے ہیں لیکن عسکری احکامات کے انتظار میں وقت گزر رہا ہے۔ غزہ کی سرحد پر جمع فوج جتنا زیادہ انتظار کرے گی، ان کے حوصلے برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو جنوب کی جانب نقل مکانی کی تنبیہ ایک عندیہ ہے کہ عسکری آپریشن کا اگلا مرحلہ نزدیک ہے۔

حملے کی تیاری

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسرائیل کو پہلے مرحلے میں اپنی زمین سے ان حماس جنگجوؤں کو گرفتار کرنا یا مارنا تھا جنھوں نے غزہ سے نکل کر 1300 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا اور 150 کے قریب افراد کو یرغمال بنایا۔

اسرائیلی فضائیہ حماس کی عسکری قیادت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ گذشتہ چھ دن میں غزہ پر چھ ہزار سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں۔ موازنے کے طور پر دیکھا جائے تو نیٹو اتحاد نے 2011 میں لیبیا کی پوری جنگ میں 7700 بم گرائے تھے۔ اب تک غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کے زمینی حملے کا منصوبہ خفیہ رکھا جائے گا لیکن اسرائیل نے برسوں سے اس کی تیاری کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے اربوں ڈالر مالیت کا ’منی غزہ‘ نام کا ایک مرکز بنا رکھا ہے جہاں فوجیوں کو تربیت دی جاتی رہی ہے کہ کسی گنجان آباد علاقے میں کیسا لڑا جائے۔

اس مرکز میں اسرائیل نے غزہ جیسے گنجان آباد علاقے اور سرنگوں میں جنگ کی تیاری کی ہے۔ یاد رہے کہ حماس نے غزہ میں ایک ہزار سے زیادہ زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا رکھا ہے۔

یروشلم پوسٹ کے سابق مدیر یاکوو کاٹز اسرائیلی فوج پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں ایسے آپریشن کے لیے مخصوص بریگیڈ تیار کر رکھے ہیں جن میں بکتر بند بلڈوزر اور انجینیئر ٹینکوں اور پیادہ فوج کے ساتھ شامل ہیں۔

اسرائیل

شہری میدان جنگ اور سرنگیں

میجر جنرل یاکوو امیڈور سابق اسرائیلی کمانڈر ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ حماس سے جنگ مشکل ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ حماس نے غزہ کے داخلی دروازوں اور تنگ گلیوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کر رکھا ہو گا۔

اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں جو آٹومیٹک رائفلوں، راکٹ گرینیڈ اور ٹینک شکن میزائلوں سے لیس ہیں۔ حماس کے پاس بڑی تعداد میں ایسے راکٹ بھی موجود ہیں جو وہ اسرائیل پر داغتا رہا ہے۔

یاکوو کاٹز کہتے ہیں کہ حماس چھوٹے ڈرون بھی تیار کر رہا ہے جن میں خودکش ڈرون بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق حماس کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی بھی محدود تعداد ہے۔ تاہم حماس کے پاس بکتربند گاڑیاں، ٹینک اور توپ خانہ نہیں ہے۔

لیکن اسرائیل کے لیے اصل مسئلہ ایک گنجان آباد علاقے میں لڑنا ہو گا۔ اسرائیل نے سرنگوں میں لڑائی کے لیے خصوصی ٹیمیں بنا رکھی ہیں جن میں ایک انجینیئرنگ یونٹ ’یاہالون‘ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ’اوکٹز‘ نامی یونٹ کتوں سے لیس ہے۔

یاکوو کاٹز کے مطابق اسرائیلی فوج اس وقت تک سرنگوں میں نہیں جائے گی جب تک ایسا کرنا بہت ضروری نہ ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حماس ان سرنگوں کو اسرائیلی فوجیوں سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ اسرائیلی فوج کوشش کرے گی کہ ان سرنگوں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دے۔

حماس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

یرغمالیوں کی قسمت

زمینی حملے کو اسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت پیچیدہ بنا دیتی ہے۔

میجر جنرل گلیاڈ ان مزاکرات میں شامل رہے تھے جن کے ذریعے 2006 سے 2011 تک حماس کے قبضے میں رہنے والے ایک اسرائیلی فوجی کو آزاد کرایا گیا تھا۔ ان کے بدلے اسرائیل نے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے تھے۔

میجر جنرل گلیاڈ کہتے ہیں کہ ’فوج کو یرغمالیوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم زیادہ بڑے مسائل میں گھر سکتے ہیں۔‘

تاہم میجر جنرل امیڈور کا کہنا ہے کہ ’یرغمالیوں کی وجہ سے آپریشن نہیں رکے گا۔ ہم حماس کے خاتمے تک لڑیں گے اور اسی آپریشن کے دوران یرغمالیوں کو تلاش کرنا ہو گا۔‘

اسرائیل کا مقصد کیا ہے؟

اسرائیل کے مطابق اس کا مقصد حماس کو تباہ کرنا ہے۔

اسرائیلی فوج میں 30 برس تک خدمات سرانجام دینے والے میجر جنرل گلیاڈ کہتے ہیں کہ یہ مقصد غزہ میں گذشتہ اسرائیلی کارروائیوں سے کافی بڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس بار کچھ بہت زیادہ ڈرامائی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ فیصلہ کن عسکری کارروائی خطے میں اسرائیل کے دیگر حریفوں حزب اللہ اور ایران کو بھی روکنے میں مدد دے گی۔

یاکوو کاٹز کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے مقاصد میں اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ حماس آئندہ کبھی اسرائیل پر ایسا حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل غزہ پر دوبارہ قبضہ نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ ایسی صورت میں اسے 20 لاکھ لوگوں کا خیال رکھنا ہو گا جو اس کے مخالف ہیں۔‘

تاہم حالیہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ زمینی حملے منصوبے کے مطابق نہیں چلتے۔

دنیا کی سب سے جدید افواج بھی مسائل میں گھر سکتی ہیں جیسا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ اور یوکرین میں روس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

صرف 25 کلومیٹر طویل غزہ کی پٹی میں عسکری کارروائی اتنی بڑی تو نہیں لیکن انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے لیفٹینینٹ جنرل سر ٹام بیکیٹ کا کہنا ہے کہ اس کا انجام ابھی واضح نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ غزہ کے زمینی حملے کے لیے کوئی اچھی آپشن نہیں ہے۔ حماس کی عسکری تنظیم کو شکست دینے میں آپریشن جتنا بھی کامیاب ہو، حماس کی سیاسی اہمیت اور مزاحمت کے لیے عوامی حمایت جاری رہے گی۔‘

’اسرائیل یا تو دوبارہ غزہ پر قبضہ کرے تاکہ اسے کنٹرول کر سکے یا پھر حملے کے بعد واپس نکل جائے گا جس کے نتیجے میں عوام کو ہی فتح حاصل ہو گی جن کے لیے مزاحمت ہی زندگی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ