بچوں کے لیے دنیا کا ’بدترین‘ ملک: ’مجھے ریپ کرنے والا اب بھی آزاد گھوم رہا ہے‘

کانگو

،تصویر کا ذریعہUnicef

  • مصنف, سوامی نتاراجن
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

براعظم افریقہ میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو بچوں کے لیے ’بدترین‘ جگہ ہے اور وقت کے ساتھ یہاں صورتحال مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

شیما سین گپتا کہتی ہیں کہ ’جب آپ گذشتہ سال اور اس سال کے اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہیں تو صنفی بنیاد پر تشدد میں 47 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بہت بڑا اضافہ ہے۔‘

شیما سین گپتا اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف میں چائلڈ پروٹیکشن کی ڈائریکٹر ہیں اور ستمبر کے آخر میں ملک کے مشرقی علاقوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد انھوں نے بی بی سی سے بات کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ ملک کے مشرقی حصے کو دیکھیں، صرف شمالی کیو اور جنوبی کیو کے علاقوں میں پانچ میں سے چار لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔‘

یہ ملک رقبے کے لحاظ سے مغربی یورپ کے برابر ہے اور یہاں کی آبادی 100 ملین افراد پر مشتمل ہے اور یہاں معدنی ذخائر بھی وسیع ہیں۔

سنہ 2022 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے ڈی آر کانگو میں بچوں کے خلاف ’سنگین خلاف ورزیوں‘ کے 3,400 واقعات ریکارڈ کیے تھے جن میں 1,600 بچوں کو مسلح گروپوں میں بھرتی کیا جانا، 700 بچوں کا تنازعات میں ہلاک ہونا اور بچوں پر جنسی تشدد کے کم از کم 290 واقعات شامل ہیں۔

شیما سین گپتا کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی وجہ سے میں جانتی ہوں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب آپ وہاں جاتے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں سے ملتے ہیں تو یہ واقعی آپ کو متاثر کرتا ہے۔ مجھے ان بچوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور سنگین خلاف ورزیوں سے دکھ ہوا۔‘

سنہ 2023 کے آغاز سے ڈی آر کانگو میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جس سے بے گھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

کیمپ

،تصویر کا ذریعہUNICEF

،تصویر کا کیپشن

پناہ گزینوں کے کیمپوں میں خواتین کے ریپ کے واقعات عالمی مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں اسے رپورٹ کیا گیا

بدامنی اور عدم استحکام

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ڈی آر کانگو میں مسلح تنازع تین دہائیاں قبل شروع ہوا تھا اور اس میں 60 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ایک سال میں اقوام متحدہ کے ایک بڑے امن مشن کی موجودگی کے باوجود ملک کے مشرقی حصے میں 100 سے زائد مسلح گروپوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی لڑائی کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا۔

رواں برس فروری سے مسلح باغی گروہ علاقے پر قابض ہو رہا ہے۔ اس مسلح باغی گروہ کی تقریباً ایک دہائی قبل تشکیل ہوئی تھی اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہوتو ملیشیا کے خلاف ڈی آر کانگو میں رہنے والے توتسیوں کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ ڈی آر کانگو کے حکام روانڈا پر اس کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں۔

اپنے دیہات سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد اکثر روئے جیسے بڑے کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں جہاں حال ہی میں سین گپتا نے دورہ کیا۔

یہ صوبائی دارالحکومت بونیا سے 45 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور اس کی حفاظت اقوام متحدہ کے امن دستے کرتے ہیں۔ پھر بھی بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے یہ بہت کم تحفظ فراہم کرتا ہے۔

سلویا (فرضی نام) اس وقت صرف 16 سال کی ہیں لیکن وہ ریپ کا شکار ہونے کے بعد پیدا ہونے والے 10 ماہ کے بچے کی ماں ہیں۔ بی بی سی نے یونیسیف کے مترجم کے ذریعے ان کی ٹیچر کی موجودگی میں ان سے بات کی۔

انھوں نے بی بی سی کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں پانی بھر کر واپس آ رہی تھی تو کیمپ کے اندر مجھ پر حملہ کیا گیا۔ یہ غروب آفتاب کے فوراً بعد ہوا تھا اور میں حملہ آور کو نہیں جانتی۔ اس وقت کیمپ میں بہت اندھیرا تھا۔‘

اس واقعے کے بعد بہت سے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے لیکن کسی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انھیں ریپ کرنے والا اب بھی کیمپ میں آزاد گھوم رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں غصے میں اور خوفزدہ ہوں۔ تمام کم سن لڑکیاں اپنی حفاظت کو لے کر خوفزدہ ہیں۔‘

تین سال کے وقفے کے بعد اب وہ بحالی کے عمل کے ایک حصے کے طور پر سکول میں واپس آئی ہیں۔

سلویا کہتی ہیں کہ ’جب میں سکول میں ہوتی ہوں تو میری ماں میرے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ جب میں گھر جاتی ہوں تو میں اس کی دیکھ بھال کرتی ہوں۔‘

کیمپ میں ان کا خیمہ بانس اور مٹی سے بنا ہے جس پر ترپال چڑھی ہوئی ہے۔ ان کے خیمے میں بجلی نہیں اور کیمپ میں تقریباً 50 لوگوں کے لیے صرف ایک بیت الخلا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’کیمپ میں اندھیرے کے بعد یہ محفوظ نہیں۔ وہاں کافی خوراک بھی نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد نہیں ہیں۔ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہوں۔ میرے پاس اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے کوئی آدمی نہیں۔ شام کے بعد پانی بھرنے کے لیے اپنے خیمے چھوڑنا لڑکیوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

سلویا کو کیمپ میں کچھ کونسلنگ دی گئی تاکہ وہ اپنے بچے کو مسترد نہ کریں۔ جب میں ان کی والدہ جارجینا سے بات کر رہا تھا تو سلویا کے بچے نے بہت شور مچایا۔

40 سالہ نانی جارجینا کہتی ہیں کہ ’وائل صحت مند، چنچل اور متجسس بچہ ہے۔‘ جارجینا دوسروں کے گھروں میں کام کر کے پیسے کماتی ہیں۔

وہ ایک بیوہ ہیں اور خود کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ جارجینا کہتی ہیں کہ ’اس کی ماں کے لیے بچے کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہے۔ وہ (سلویا) خود ایک بچی ہے۔‘

congo

،تصویر کا ذریعہUnicef

زندگی مشکل ہے

سلویا اور ان کی والدہ جارجینا تین سال قبل ایک قریبی گاؤں سے بے گھر ہوئی تھیں جس پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ نہیں جانتی کہ وہ کب واپس اپنے گھر جائیں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی اکثر غصے میں رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے پر ہوئے حملے کے بارے میں سوچتی ہے۔ وہ بدمزاج اور لاتعلق بھی ہو جاتی ہے۔‘

سکول کے سربراہ لونو باؤجو انوسنٹ نے ذاتی طور پر سلویا کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں اس جیسے بہت سے بچے ہیں۔ وہ بہت ذہین ہے اور سکول جانے سے اسے معمول کی زندگی میں واپس آنے میں مدد ملے گی۔‘

چونکہ بہت سی لڑکیوں کو پانی لینے کے لیے جاتے ہوئے اندھیرے کے بعد ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لیے اس خطرے کو کم کرنے کے لیے کیمپ کے اندر پانی کے نئے ٹینک لگائے گئے ہیں۔ خواتین بھی اپنی حفاظت کو بڑھانے کے لیے ٹولیوں کی شکل میں جاتی ہیں۔

لیکن مجموعی صورتحال اور ماحول مشکل ہے۔ کیمپ کے اندر جنسی تشدد کی روک تھام یا تفتیش کے لیے کوئی پولیس نہیں۔

اور ڈی آر کانگو حکومت نے کیمپ کی حفاظت کرنے والے اقوام متحدہ کے امن دستوں سے کہا ہے کہ وہ سال کے آخر تک وہاں سے نکل جائیں۔ اقوام متحدہ کے مشن کو لوگوں کو تشدد سے بچانے میں ناکامی پر بڑھتے ہوئے غصے کا سامنا ہے۔

سین گپتا کو امید ہے کہ حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کی سکیورٹی برقرار رکھی جائے گی۔

پناہ گزینوں کے کیمپوں میں خواتین کے ریپ کے واقعات عالمی مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔

سین گپتا کا کہنا ہے کہ ’یہ کہنا مشکل ہے کہ ریپ کے واقعات بڑھ رہے ہیں یا نہیں لیکن بعض اوقات کچھ کیمپوں میں جنسی تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ڈی آر کانگو میں صورتحال سنگین ہے، یہ یقینی طور پر عروج پر ہے۔‘

سلویا کیمپ کے بالکل باہر واقع ایک نئے تعمیر شدہ سکول میں پڑھتی ہیں۔ اب اس میں تین کلاس رومز ہیں اور چار مزید زیر تعمیر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔ مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ سکول میں آ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ