کیا انڈیا اور چین سرحدی کیشدگی کم کر کے اپنے تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟

انڈیا چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگست 2023 میں انڈیا اور چین میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد ٹوٹنے لگا اور سرحدوں پر تنازع شدت اختیار کر گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو تحمل سے کام لینے کی نصیحت تو ضرور کی مگر اس کا نتیجہ کوئی حوصلہ افزا نہیں رہا۔

بلکہ دہلی اور بیجنگ کے تعلقات میں دراڑ مزید گہری ہوتی گئی۔ دنیا کے ان دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے درمیان سرحدی تنازع کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ لیکن یہ تناؤ واحد مسئلہ نہیں ہے۔

اب یہ سوال اہم ہے کہ کیا انڈیا اور چین اپنے باہمی تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟

سرحد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لائن آف ایکچوئل کنٹرول

دہلی میں کارنیگی انڈیا کے سکیورٹی سٹڈیز پروگرام کی سینیئر تجزیہ کار شیبانی مہتا کا کہنا ہے کہ ایل اے سی یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول دونوں ممالک کے زیر کنٹرول حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ مگر انڈیا اور چین کے درمیان ایل اے سی کے حوالے سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

ہزاروں کلومیٹر طویل اس لائن کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایل اے سی شمال مشرقی انڈیا کے پہاڑی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس علاقے میں گلیشیئرز ہیں، خشک ہموار زمین اور زرعی زمین بھی ہے۔

متنازع سرحدی علاقے میں دونوں اطراف کئی طرح کی تعمیرات کی جا رہی ہیں جو کہ مزید تنازع کی وجہ بن رہی ہے۔

شیبانی مہتا کے مطابق ان علاقوں میں بنائے جانے والے تمام منصوبے فوجی تعمیرات نہیں ہیں۔ انڈیا کی طرف بھی سڑکیں بن رہی ہیں۔ ایل اے سی کا لفظ ساٹھ سال سے انڈیا اور چین کی سرحد کے تناظر میں استعمال ہو رہا ہے۔

شیبانی کے مطابق ’چین کے اس وقت کے وزیر اعظم چو این لائی نے سنہ 1960 میں دہلی کے دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں یہ لفظ استعمال کیا تھا۔

اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ انھوں نے یہ لفظ سنہ 1959 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں استعمال کیا تھا۔

انڈیا نے سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کی اور چین سنہ 1949 میں ایک کمیونسٹ ملک بن گیا۔ پچاس کی دہائی میں دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے تھے۔ لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکے۔

سنہ 1962 میں چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازع کی وجہ سے جنگ چھڑ گئی۔ اور ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں مزید انڈین فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ یہ جنگ چین کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان پر ختم ہوئی تھی۔

ایل اے سی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین اور انڈیا کے تعلقات سنہ 1962 سے اچھے نہیں رہے ہیں۔ اس دوران براہ راست جنگ نہیں چھڑی لیکن محاذ آرائی جاری رہی۔

جون 2020 کے مہینے میں ہمالیہ کے علاقے لداخ میں دونوں ملکوں کے سینکڑوں فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جس میں کم از کم 20 انڈین فوجی مارے گئے۔

چین نے سرکاری طور پر اپنے صرف چار فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اس لڑائی میں دونوں طرف کے درجنوں فوجی زخمی بھی ہوئے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شیبانی مہتا نے کہا کہ ’سنہ 2020 کے تنازع نے انڈیا کو حیران کر دیا اور بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے نیو دہلی نے زیادہ جارحانہ موقف اپنایا اور تند و تیز بیانات بھی دیے۔ اس تنازعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایسے واقعات پر قابو پانے کے لیے بات چیت کے کئی دور ہوئے اور سرحد کی نگرانی کے لیے کچھ رہنما اصولوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔

اس سال اگست میں جوہانسبرگ میں برکس تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔

اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ سرحدی تنازعے پر تفصیل سے تعمیری بات چیت ہوئی ہے اور یہ مذاکرات فوجی اور سفارتی ذرائع سے جاری رہیں گے۔

شیبانی مہتا کہتی ہیں کہ ’سنہ 2020 سے لے کر اب تک دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت کے 19 دور ہو چکے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ مل بیٹھ کر باؤنڈری لائن کا تعین کرنے کو تیار ہیں۔ فی الحال ان کا مقصد صرف تناؤ کو کم کرنا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ایل اے سی کے دونوں جانب جس طرح سے فوجیوں کی تعیناتی بڑھ رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ کشیدگی میں کمی آئے گی۔ دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر فوجی تعیناتی اسی طرح بڑھتی رہی تو امکان ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی ایک بار پھر ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔‘

اس طرح کے تصادم کی صورتحال صرف ایل اے سی پر ہی نہیں ہے بلکہ دیگر علاقوں میں بھی دونوں ممالک کے درمیان گہرے اختلافات ہیں۔

سمندر

،تصویر کا ذریعہ@SPOKESPERSONMOD

چین کا خطے پر بڑھتا اثر رسوخ

ایون لداریف انڈیا-چین تعلقات کے ایک مشہور ماہر اور لندن سکول آف اکنامکس میں ’وزٹنگ فیلو‘ ہیں۔ ایوان کا ماننا ہے کہ انڈیا اور چین جنوبی ایشیا کے طاقتور ملک ہیں۔ دونوں ممالک اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ تنازعات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ایوان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں انڈیا روایتی طور پر جنوبی ایشیا پر غلبہ رکھتا ہے، جو اسے کسی حد تک اسے برطانوی راج کا حصہ ہونے کی وجہ سے وراثت میں ملا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ جنوبی ایشیا کے وسط میں واقع ہے۔

اس سے قبل چین کا اس خطے میں زیادہ اثر و رسوخ نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ 20 سالوں میں چین نے اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ ’خاص طور پر پچھلی دہائی کے دوران اس نے سری لنکا اور بنگلہ دیش میں اپنی موجودگی قائم کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔‘

چین کے لیے جنوبی ایشیا اتنا اہم کیوں ہے؟

اس سوال پر ایون لیداریف کہتے ہیں کہ چین ہمیشہ سے نام نہاد ملاکا کے مخمصے کے بارے میں فکر مند رہا ہے۔ ملاکا کے مخمصے کا مطلب ہے کہ چین کو خدشہ ہے کہ تنازع یا جنگ کی صورت میں امریکہ آبنائے ملاکا کے ذریعے چینی کشتیوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا کر اس کی معیشت پر شکنجہ کس سکتا ہے۔

چین پہنچنے والا بہت سا مواد اور توانائی کے وسائل آبنائے ملاکا سے کشتیوں کے ذریعے گزرتے ہیں۔ اس لیے چین بحر ہند کے ذریعے نئے راستے بنا کر آبنائے ملاکا کے راستے پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ایک سمندری راستہ پاکستان اور دوسرا سمندری راستہ میانمار ہے۔

یہ علاقے چین کے لیے بڑی منڈی بھی بن سکتے ہیں۔ اسی لیے صدر شی جن پنگ نے پچھلی دہائی کے دوران ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ کے پرجوش منصوبے کا آغاز کیا۔

اس اقدام کا مقصد افریقہ، یورپ اور ایشیا کو فضائی، سمندری اور زمینی راستوں سے جوڑنا ہے۔ چین نے اس منصوبے میں 150 ممالک کو جوڑنے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

چین اس معاملے میں انڈیا کے مقابلے میں بہت زیادہ سرگرم رہا ہے۔

پاکستان کے ساتھ مل کر اس نے ریل، سڑک اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک بنانا شروع کر دیا ہے، جس کے ذریعے چین کے صوبہ سنکیانگ کو بحر ہند سے ملایا جا سکتا ہے۔

وہ اپنے خود مختار تبت سے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو تک ریلوے روٹ بھی بنانا چاہتے ہیں۔ نیپال چین اور انڈیا کے درمیان گھرا ہوا ہے اور یہ انڈیا اور چین کے درمیان تنازعات کا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔

مودی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایون لداریف کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے نیپال کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں، اس لیے وہاں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ انڈیا کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

نیپال اپنی سپلائی کے لیے انڈیا پر انحصار کرتا رہا ہے۔

انڈیا جب بھی نیپال پر کسی بھی چیز کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، وہ اس سپلائی پر کنٹرول بڑھاتا ہے یا روک لگاتا ہے۔ اگر نیپال کو ریل اور سڑک کے ذریعے سپلائی شروع ہو جائے تو اس پر انڈیا کا اثر کم ہو جائے گا۔

خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایون لداریف کے مطابق چین کے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا نے جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی اقتصادی امداد دینا شروع کر دی ہے۔ گزشتہ سال جب سری لنکا معاشی بحران سے گزر رہا تھا تو انڈیا نے اسے چار ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد دی تھی۔

سری لنکا نے چین سے کئی ارب ڈالر کا قرضہ بھی لیا ہے۔ انڈیا مشرقی ایشیا میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایون لیداروف کا کہنا ہے کہ چین جو جنوبی ایشیا میں انڈیا کے ساتھ کر رہا ہے، انڈیا چین کو گھیرنے کے لیے جاپان اور ویتنام کے ساتھ قریبی تعلقات بنا کر وہی کچھ کر رہا ہے۔

ان دونوں کے درمیان رسہ کشی سے بچنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انڈیا اور چین نہ صرف ایشیا بلکہ افریقی اور لاطینی امریکی ممالک میں بھی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔

چین اور انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اقتصادی حریف

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار چائنیز اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر گیتا کوچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت انڈیا سرحد پر امن قائم کرکے تنازع کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ انڈیا کا ماننا ہے کہ سرحد پر امن کی بحالی کے بغیر تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان تجارت میں توازن کا فقدان ہے۔

ڈاکٹر گیتا مزید کہتی ہیں کہ ’چین سے انڈیا کو بہت ساری چیزیں برآمد کی جاتی ہیں لیکن انڈیا سے چین کو برآمدات بہت کم ہیں۔ انڈیا نے پیداواری شعبے پر زیادہ زور نہیں دیا ہے، جس کی وجہ سے انڈیا سے دیگر ممالک کو برآمدات کم ہوئی ہیں۔ لیکن سنہ 2020 کے بعد انڈیا نے سامان کے لیے چین پر انحصار کم کرنے اور اپنی پیداوری صنعت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔‘

اس کے علاوہ انڈین حکومت نے انڈیا میں چینی کمپنیوں کے کاروبار کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس میں ٹیکس وصولی اور چین کی ٹیکنالوجی تجارت کو روکنے کے لیے کیے گئے فیصلے بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر گیتا کوچر کہتی ہیں کہ ’چینی کمپنیاں انڈیا میں کاروبار کر رہی تھیں لیکن ان کی ادائیگیاں انڈیا کے سرکاری بینکنگ سسٹم کے تحت نہیں بلکہ چینی ’ایپس‘ کے ذریعے کی جا رہی تھیں۔ اس لیے اس مالیاتی لین دین کی کوئی نگرانی نہیں تھی اور نہ ہی اس سے متعلق فیس اور ٹیکس ادا کیے جا رہے تھے۔ اب اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔‘

سنہ 2020 سے انڈین حکومت نے رازداری اور قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک اور وی چیٹ سمیت تین سو چینی ایپس پر پابندی لگا دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں مسائل ضرور آئے ہیں لیکن وہ رکے نہیں۔

ڈاکٹر گیتا کوچر کا کہنا ہے کہ انڈیا اور چین دواسازی، ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں تجارت بڑھانے کے لیے ابھی بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی چینی کمپنیاں خاص طور پر موبائل فون بنانے والی کمپنیاں اب بھی انڈیا میں کاروبار کر رہی ہیں۔

اسی طرح انڈین کمپنیاں بھی چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ لیکن اس وقت کشیدگی کی وجہ سے انڈیا کی جانب سے تجارت کو مزید بڑھانے کے لیے مذاکرات سست روی کا شکار ہیں۔

گن

،تصویر کا ذریعہAFP

یہ بھی پڑھیے

تعلقات میں تناؤ کی بازگشت

لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیو سانگ کا خیال ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان مقابلہ اور تعلقات اہم ہیں کیونکہ اس کا اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑے گا۔

سٹیو کہتے ہیں کہ ’اگر چین اور انڈیا اپنے سرحدی تنازع کو پر امن طریقے سے حل نہیں کر پاتے اور جنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو پھر دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ انڈیا کو اپنی سلامتی کے لیے سنگین خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس وقت انڈیا اس کے لیے سرحد پر ایک مسئلہ ہے۔‘

عالمی برادری انڈیا اور چین کے تعلقات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سٹیو سانگ کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکہ انڈیا کو اپنی طرف راغب کرنا اور چین کو کسی حد تک تنہا کرنا چاہتا ہے۔

جون 2023 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کی۔ ان کے دورہ امریکہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دفاعی ٹیکنالوجی اور سٹریٹجک تعاون سے متعلق کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ فی الحال دونوں ممالک کے تعلقات تاریخی طور پر بہت اچھے ہیں۔

لیکن کیا وہ بحران اور آزمائش کے وقت بھی ایسے ہی رہیں گے؟

اس سوال پر سٹیو سانگ کہتے ہیں کہ ’یہ سوچنا صرف ایک خواب ہے کہ انڈیا چین کو پیچھے دھکیلنے میں امریکہ کی مدد کرے گا۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں انڈیا ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دے گا نہ کہ امریکہ کے مفادات اور اقدار کو۔

بائیڈن

،تصویر کا ذریعہReuters

انڈیا روس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور روس چین کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ روس انڈیا کی دفاعی اور توانائی کی بہت سی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کی اپیل کے باوجود انڈیا نے یوکرین جنگ پر روس کی مذمت نہیں کی۔ چین نے بھی کھلے عام روس کی مذمت نہیں کی۔

دہلی میں منعقدہ جی-20 سربراہی اجلاس کے مشترکہ بیان میں یوکرین میں ہونے والی کارروائیوں کے لیے روس کو براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس معاملے پر چین اور انڈیا بھی ساتھ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

سٹیو سانگ کی رائے ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان بنیادی مسائل اور کشیدگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔ لیکن ذاتی سطح پر شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان تعلقات اچھے ہیں۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے پاس چین اور انڈیا کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

تو کیا انڈیا اور چین اپنے طور پر تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟

برکس سربراہی اجلاس کے دوران شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات خوشگوار رہی لیکن سرحدی تنازع مستقبل قریب میں حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

ہماری پہلی ماہر شیبانی مہتا کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں اور تنازعات سے بچنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ یہ خود ایک امید افزا بات ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ