سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کو سانحۂ بلدیہ و دیگر کیسز کے 50 ہزار مفرور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
سانحۂ بلدیہ فیکٹری کیس میں حماد صدیقی اور دیگر مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری پر جسٹس کے کے آغا نے سماعت کی۔
آئی جی سندھ پولیس رفعت مختار نے صوبے کے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
سندھ ہائی کورٹ نے صوبے بھر کے مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ، بینک اکاؤئنٹس اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت نے چیئرمین نادرا، وزارتِ داخلہ، فارن آفس اور اسٹیٹ بینک سے 23 اکتوبر تک رپورٹ طلب کر لی۔
آئی جی سندھ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ بھر میں 50 ہزار 58 ملزمان مفرور ہیں، صرف لاڑکانہ ڈویژن میں مفرور ملزمان کی تعداد 23 ہزار سے زیادہ ہے۔
سندھ میں مفرور ملزمان کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر عدالت نے حیرت کا اظہار کیا۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مفرور ملزمان کو نہ پکڑنا بھی سنجیدہ جرم ہے، اس وقت سندھ میں کوئی سیاسی حکومت نہیں ہے، ملزمان کی گرفتاری پر کوئی ایم این اے اور ایم پی اے مداخلت نہیں کرے گا، اتنی بڑی تعداد میں مفرور ملزمان کے باعث صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں 23 ہزار مفرور ملزمان ہیں، ڈی آئی جی لاڑکانہ کیا کر رہے ہیں؟
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ میں نے 40 دن پہلے چارج لیا ہے، ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھی حال ہی میں تعینات کیا گیا ہے۔
عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئی ایس او پی، کوئی میکنزم تو ہو گا؟ مفرور ملزمان کو گرفتار کرنا آپ کی ذمے داری ہے ہم کسی اور آئی جی کا انتظار نہیں کریں گے، بیشتر کیسز میں مفرور ملزمان کے نام، پتے اور ولدیت درست درج نہیں ہوتی، منشیات کے کیسز میں تو صرف ملزم کا نام ہوتا ہے، انتظامی معاملات بہتر کر لیے جائیں تو جرائم میں کمی آ سکتی ہے، لاڑکانہ ڈویژن میں اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کا مفرور ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ قبائلی اور دور دراز علاقے ہیں جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان مفرور ہیں۔
جسٹس کےکے آغا نے کہا کہ ہمیں نگراں حکومت سے بھی توقع ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری میں معاونت کرے گی۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔
مفرور ملزمان حماد صدیقی، خرم نثار اور تقی حیدر شاہ سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرا دی گئیں۔
نادرا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تینوں مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے رپورٹ میں کہا ہے کہ تینوں مفرور ملزمان کے بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کے لیے بینکوں کو سرکلر جاری کر دیا ہے۔
ڈائریکٹر وزارتِ خارجہ کراچی کیمپ آفس نے کہا کہ تینوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ مجاز اتھارٹی ہیں۔
پاکستانی پاسپورٹ بلاک نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے کہا کہ تینوں مفرور ملزمان ہیں، آئندہ سماعت تک تینوں مفرور ملزمان کے پاسپورٹ بلاک کر کے رپورٹ پیش کریں ورنہ آئندہ سماعت پر سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوں۔
وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے کہا کہ ملزم تقی حیدر شاہ دبئی میں ہے، اس کے حوالے سے وزارتِ خارجہ یو اے ای سے رابطے میں ہے، 27 ستمبر کو یو اے ای کے اعتراضات ختم کر دیے، اب ان کے جواب کا انتظار ہے، تقی حیدر شاہ کی دہری شہریت سے متعلق معلومات نہیں، پولیس اہلکار کے قتل میں ملزم خرم نثار سوئیڈش شہری ہے، ہم نے خرم نثار سے متعلق سوئیڈش حکومت سے قانونی معاونت مانگی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.