پیر 15؍ربیع الاول 1445ھ2؍اکتوبر 2023ء

چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر ایف آئی اے کی اِن کیمرا کارروائی کی استدعا پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر ایف آئی اے کی اِن کیمرا کارروائی کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی جس کے دوران ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان کیمرا کارروائی کی درخواست ضمانت کی مرکزی درخواست کے ساتھ سنتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا۔

مختصر وقفے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے ایک ساتھ دونوں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایف آئی اے کی اِن کیمرا سماعت کی درخواست دیکھ لی ہے؟

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراسیکیوشن نے درخواست دی ہے، پہلے انہیں دلائل دینے دیں، ٹرائل کا معاملہ الگ ہے، کیا ضمانت کی سماعت بھی اِن کیمرا ہو سکتی ہے؟ مجھے اس حوالے سے تو نہیں معلوم، آپ بھی دیکھ لیجیے گا۔

پراسیکیوٹر، شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جاسکتا، آج ہم ایک درخواست ٹرائل کورٹ میں بھی دائر کر رہے ہیں، سائفر سیکریٹ دستاویز ہے، اسے ڈی کوڈ کون کرے گا؟

عدالت نے استفسار کیا کہ سائفر سے متعلق کوئی کوڈ آف کنڈکٹ یا ایس او پی ہے تو بتا دیں۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے سائفر کے کوڈ آف کنڈکٹ سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ بیرون ممالک پاکستان کے سفارت خانوں سے کوڈڈ سائفر بھیجے جاتے ہیں، دفترِ خارجہ میں سائفر کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ تمام کوڈ یونیورسل ہوتے ہیں؟ 

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے عدالت کو بتایا کہ کوڈڈ پیغام ہر ملک کا الگ ہوتا ہے۔

پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے دورانِ سماعت کہا کہ صدر، وزیرِ اعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو سائفر کاپی بھیجی جاتی ہے، سائفر تمام جگہوں سے ہو کر واپس دفترِ خارجہ آتا ہے، دفترِ خارجہ پہنچنے پر ڈی کوڈ کیے گئے سائفر کو ختم کر دیا جاتا ہے، صرف اصل سائفر دفترِ خارجہ میں موجود رہتا ہے، سائفر خفیہ دستاویز ہے جسے ہر صورت خفیہ رکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر کا اصل گھر وزارتِ خارجہ ہے؟ سائفر آتے کیسے ہیں؟

جس پر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ای میل یا فیکس کے ذریعے کوڈڈ فارم میں آتا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر کہا گیا تھا کہ ہم درخواست دینا چاہتے ہیں، ہم نےکہا تھا جسے کمرۂ عدالت سے باہر نکالنا ضروری ہے نکال دیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کو پبلک کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا، پراسیکیوشن کی سماعت اِن کیمرا کرنے کی درخواست ہی اُس سے متضاد ہے، ایف آئی اے کی درخواست ہے سماعت اِن کیمرا کریں کیونکہ کچھ پبلک نہ ہو، اگر سائفر پہلے پبلک ہو چکا تو پراسیکیوشن اب کس چیز کو پبلک نہیں ہونے دینا چاہتی؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں نے 9 برس میں کسی کیس کی اِن کیمرا سماعت نہیں کی ، ایک آدھ دفعہ مسنگ پرسنز کیس میں اِن کیمرا سماعت کی ہو گی۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں اپنے دلائل میں سائفر کے کوڈ میں جاؤں گا ہی نہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ میں دلائل دیے، ایف آئی اے نے درخواست نہیں دی، اب یہ اس مرحلے پر ان کیمرا کارروائی کی درخواست دے رہے ہیں، عوام کو علم ہے کہ یہ کیا کیس ہے،  ٹرائل کورٹ میں چالان جمع ہو چکا، کاپیاں فراہم ہو چکیں، اب ٹرائل کورٹ اس درخواست کے لیے بہترین فورم ہے، ہمارے تو سارے لوگ آج تیار ہو کر آئے تھےکہ آج عدالتی کارروائی براہِ راست دکھائی جائے گی، یہاں سرکاری وکلاء کہہ رہے ہیں کہ سماعت کو اِن کیمرا کر دیں تاکہ پبلک کو کچھ پتہ نہ چلے۔

چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتی کارروائی براہِ راست دکھانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ کی کارروائی براہِ راست بھی ہو گی، ابھی اس پر کمیٹی کام کر رہی ہے، لائیو اسٹریمنگ ضرور ہو گی، ہم نے یہ معاملہ فُل کورٹ کے سامنے رکھا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے کہا کہ کیس کی اوپن کورٹ میں سماعت سے حساس معلومات پبلک ہونے کا اندیشہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آج کل کے زمانے میں اوپن کورٹ کے تصور کے خلاف کوئی اقدام مناسب ہو گا؟ کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تاریخ دیں گے۔

وکیل سلمان صفدر  نے استدعا کی کہ آئندہ سماعت ایک دو دن میں ہی رکھ لی جائے۔ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آفس کیس سماعت کے لیے مقرر کر دے گا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.