سور کا گوشت کھانے سے پہلے ’بسم اللہ‘ پڑھنے والی ٹک ٹاکر کو دو سال قید کی سزا
- مصنف, ڈیرک کائی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، سنگاپور
انڈونیشیا میں ایک عدالت نے ایک خاتون کو ٹک ٹاک پر ایک ایسی ویڈیو پوسٹ کرنے پر دو سال قید کی سزا سُنائی ہے، جس میں انھوں نے سور کا گوشت کھانے سے پہلے ایک اسلامی جملہ کہا۔
اس خاتون کی یہ ویڈیو اسی وجہ سے وائرل بھی ہوئی تھی۔
33 سالہ لینا لطفیاوتی کو ’مذہبی جذبات اُبھارنے اور نفرت سے بھرے رویے کو ہوا دینے‘ کا مجرم پایا گیا۔
لینا لطفیاوتی پر 16,245 ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا گیا، جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی سزا میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی جائے گی۔
یہ مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں توہین مذہب کے متنازعہ قوانین سے متعلق مقدمات میں سامنے آنے والا تازہ ترین کیس ہے۔
بالی ووڈ فلموں سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے اپنا نام لینا مکھرجی رکھنے والی لینا لطفیاوتی اصل میں مسلمان ہیں۔
واضح رہے کہ مذہبِ اسلام میں سور کا گوشت کھانا سختی سے منع ہے۔
لینا لطفیاوتی کے ٹک ٹاک پر 20 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں اور وہ انڈیا میں کاروبار بھی چلاتی ہیں۔
مارچ میں، لینا نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں انھوں نے سور کے خستہ گوشت کا ایک ٹکڑا کھانے سے پہلے ’بسم اللہ‘ پڑھا، یہ عربی زبان کا جملہ ہے جس کے معنی ہیں ’شروع اللہ کے نام سے۔‘
اس وقت، لینا بالی میں گھوم رہیں تھیں۔ بالی انڈونیشیا کا ایک ایسا تفریحی مقام ہے، جہاں ملک کے باقی حصوں کے برعکس ہندو برادری کی اکثریت آباد ہے۔
لینا لطفیاوتی نے کہا کہ انھوں نے تجسس کی وجہ سے سور کا گوشت آزمایا۔
اس ویڈیو کو لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا اور اس پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈونیشیا سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور شخص نے ’مسلمان ہونے کے باوجود سور کا گوشت جان بوجھ کر کھانے‘ پر پولیس میں شکایت درج کروائی۔
پولیس نے مئی میں لینا لطفیاوتی پر نفرت انگیز معلومات پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نسلی اور مذہبی تعصب کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔‘
ملک بھر میں کئی قدامت پسند گروہوں نے بھی لینا کی اس ویڈیو کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے احکام جاری کیے ہیں۔ ان میں انڈونیشیا کی مسلم علما تنظیم ’علما کونسل‘ بھی شامل ہے۔
انڈونیشیا کے سوشل میڈیا پر لینا کے جیل جانے پر اب تک ردعمل منقسم ہے۔ بہت سے لوگوں نے جج کی تعریف کی اور لینا کے اقدامات کو توہین آمیز قرار دیا۔
دوسری جانب لینا لطفیاوتی کی جیل کی سزا پر تنقید بھی کی گئی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بدعنوانی کے مقدمات میں جیل کی سزائیں اکثر بہت کم ہوتی ہیں۔
انڈونیشیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکن طویل عرصے سے توہین مذہب کے قوانین پر تنقید کرتے چلے آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے اکثر ان قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔‘
یاد رہے کہ انڈونیشیا کی پولیس نے گزشتہ سال چھ افراد کو گرفتار کیا جب ایک شراب خانے نے ’محمد‘ نام والے صارفین کے لیے مفت شراب کی تشہیر کی۔
2017 میں جکارتہ کے سابق گورنر باسوکی تجاہجا پورناما کو تقریباً دو سال کے لیے ان تبصروں پر جیل بھیج دیا گیا جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ مذہبِ اسلام کی توہین تھے۔
Comments are closed.