’کھلکھلاتی بیوہ‘: امریکی سیرئل کلر جس نے چار شوہروں اور ایک ساس سمیت 12 افراد کو قتل کیا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وقارمصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
انھیں اگر ’ہنستی نانی‘ یا ’ہنستی نینی‘ کہا گیا تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ چلبلی دکھائی دینے والی نینی، ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتیں لیکن اس ہنسی کے پیچھے ڈھائی دہائیوں پر محیط موت کا ایک طویل سلسلہ تھا۔
یہ کہانی ہے ایک امریکی خاتون سیریل کلر نینی ڈوس کی جنھوں نے 1920 اور 1954 کے درمیان تقریباً 12 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
ان کے والدین نے ان کا نام تو نینسی ہیزل رکھا تھا اور وہ 1905 میں امریکی ریاست الاباما میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں لیکن کرائم لائبریری پروفائل کے مطابق، وہ پانچ سال کی عمر سے ہی ’نینی‘ کہلانے لگی تھیں۔
جیمز اور لوئیسا ہیزل کے ان سمیت پانچوں بچے زیادہ تر گھر ہی پر کام کاج اور کھیتی باڑی کرتے رہے۔ یوں وہ اور ان کے چھوٹے بہن بھائی کم ہی تعلیم حاصل کر سکے کیونکہ جیمز اکثر انھیں کھیتوں میں کام کرنے بھیج دیتے تھے۔
الاباما میں جرائم کا مطالعہ کرنے والے پام جونز کی تحقیق ہے کہ جیمز ہیزل، بد مزاج اور بدسلوک تھے اور غالباً وہ نینسی کے حیاتیاتی باپ نہیں تھے۔
جونز لکھتے ہیں کہ نوعمری میں جیمز نینی کے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ رابطوں کے خلاف تھے۔
’نہ میک اپ کرنے دیتے، نہ اچھے کپڑے پہننے دیتے اور نہ کسی سماجی تقریب میں جانے دیتے۔ یہاں تک کہ چرچ کی سرگرمیوں میں شرکت سے بھی منع کرتے۔ لیکن نینی کی خاندانی کہانیوں کے مطابق، وہ رات کو چھپ چھپ کر نوجوانوں سے ملنے نکل جاتیں۔‘
صحافی ولیم ڈے لانگ کے مطابق نوعمری میں، نینی اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ ایک خوبصورت زندگی کا خواب دیکھتیں۔
’ان کا فارغ وقت رومانوی رسالے، خاص طور پر ’تنہا دل‘ قسم کے کالم پڑھتے گزرتا۔ شاید وہ والد کی بدسلوکی کے تناظر میں رومانوی رسالوں میں پناہ حاصل کرتیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نینی کی شادیوں کا سلسلہ
جونز نے لکھا ہے کہ ایک مقامی ٹیکسٹائل کمپنی میں کام کرتے ہوئے، 16 سالہ نینی اور ساتھی کارکن چارلس بریگز کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ ملاقات کے چند ماہ بعد انھوں نے شادی کر لی اور 1927 تک ان کے ہاں چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
جونز نے چارلس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’نینی خوبصورت تھی اور اس کے ساتھ بڑا خوشگوار وقت گزر رہا تھا۔ ہماری شادی کا آغاز بہت اچھا ہوا لیکن چند سال بعد نینی مجھ سے دور ہونے لگی۔‘
ڈے لانگ کا کہنا ہے کہ یہ خوش و خرم جوڑا چارلس کی والدہ کے ساتھ رہتا تھا جن کا نینی کے ساتھ سلوک بھی نینی کے باپ جیسا ہی ناروا تھا۔ شاید یہی ان کے تعلقات میں تلخی کا باعث بنا اور پہلے قتل کا بھی۔
خواتین قاتلوں پر اپنی کتاب ’مرد سے زیادہ مہلک‘ میں ٹیری مینرز لکھتی ہیں کہ شادی کے ابتدائی برسوں میں کسی وقت، دونوں فریق شراب اور غیر ازدواجی تعلقات میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔
’جس سال ان کی سب سے چھوٹی بیٹی، فلورنس یا ’فلورائن‘ پیدا ہوئی، ان کی دو درمیانی بیٹیاں غیر متوقع طور پر ’مشتبہ فوڈ پوائزننگ‘ سے فوت ہو گئیں۔ اس وقت دونوں اموات کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا۔ لیکن خاندان کے افراد اور پولیس کا خیال ہے کہ یہ ہلاکتیں نینی کے بعد میں دہائیوں تک چلے قتل کے سلسلے کا آغاز تھیں۔
’ان بیٹیوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ چارلس اپنی بڑی بیٹی میلوینا کو لے کر کہیں چلے گئے۔ فلورین اپنی ماں کے ساتھ رہ گئیں۔ یوں نینی کی پہلی شادی 1928 میں طلاق پر ختم ہوئی۔‘
چارلس 1928 کے آخر میں میلوینا اور ایک نئی بیوی کے ساتھ واپس آئے۔ نینی اپنی بیٹیوں کو لے کر اپنے والدین کے ہاں چلی گئیں اور اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کے لیے مقامی کاٹن مل میں کام کرنے لگیں۔
یوں چارلس خوش قسمت رہے کہ ان کی جان بچی۔
جونز لکھتے ہیں کہ دوسرے شوہر کی تلاش میں نینی نے ایک نیا طریقہ آزمایا جسے مستقبل کے ساتھی ڈھونڈنے میں بھی اپنایا جانا تھا یعنی ’تنہا دل‘ کلب میں اشتہار ۔
فرینک ہیرلسن نے نینی کے اشتہار کا جواب شاعری اور ایک تصویر کے ساتھ دیا۔
نینی کے جوابی خطوط میں جنسی میلان کا اظہار ہوتا اور ایک تصویر۔ ان کی شادی 1929 میں ہوئی۔ یہ ایک اور مصیبت ثابت ہوئی۔
’فرینک ایک بدسلوک شرابی تھے جنھوں نے اپنی شادی شدہ زندگی کا ایک بڑا حصہ مقامی جیل میں نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے گزارا۔ نینی نے یہ تعین کرنے سے پہلے کہ ان کے دوسرے شوہر ان پر بوجھ ہیں، 16 سال تک جسمانی اور جذباتی تشدد برداشت کیا۔‘
تاہم فرینک سے نمٹنے سے پہلے نینی نے خاندان کے کم از کم دو دیگر افراد کو قتل کیا تھا اور وہ ان کے نواسے اور نواسی تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نواسی کا قتل
نینی کی بڑی بیٹی میلوِینا نے 1940 کی دہائی کے اوائل میں شادی کی اور پہلے ایک بیٹے اور دو سال بعد، ایک بیٹی کو جنم دیا۔
جونز کے مطابق جب میلوینا اور ان کے شوہر ہسپتال کے کمرے میں سو رہے تھے تو نینی اپنی نواسی کو جھولے دینے لگیں۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر نوزائیدہ کی موت ہو گئی۔
’زچگی کی دوا کے زیرِ اثر میلوینا کو لگا کہ انھوں نے اپنی ماں کو سٹک پین سے بچی پر وار کرتے دیکھا ہے۔ انھوں نے گھر والوں کو بتایا لیکن کسی اور کو نینی پر شک نہیں گزرا۔‘
کچھ چھ ماہ بعد، میلوِینا نے اپنے ننھے بچے، رابرٹ، کو اپنی ماں کے پاس چھوڑا مگر وہ بھی پراسرار طور پر دم گھٹنے سے مر گیا۔
جونز لکھتے ہیں کہ بچے کی نانی نے اس کا بیمہ کروا رکھا تھا سو موت پر 500 ڈالر سمیٹے مگر یہ آخری بار نہیں تھا کہ نینی کو قتل کرنے سے مالی فائدہ ہوا۔
ایک کے بعد ایک قتل
اب شوہر فرینک کی باری تھی۔ محقق گورڈن ہاروے کے مطابق ایک رات وہ دوسری عالمی جنگ سے لوٹنے والے اپنے دوستوں کے ساتھ جشن منا کر گھر آئے۔
’نینی کے عدالت میں دیے بیان کے مطابق فرینک نے زبردستی ان سے مباشرت کی اور اگلے روز انھوں نے اپنے شوہر کی شراب میں چوہے مارنے کا زہر ملا دیا۔‘
وہ ایک ہفتے کے اندر اندر 15 ستمبر 1945 کو وفات پا گئے۔
ڈے لانگ لکھتے ہیں کہ لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت فوڈ پوائزننگ سے ہوئی ہے۔ اسی دوران میں نینی نے فرینک کی موت پر بیمے کی کافی رقم لے لی تاکہ زمین کا ایک ٹکڑا اور ایک مکان خرید سکیں۔
اس کے بعد نینی شمالی کیرولینا میں نمودار ہوئیں جہاں وہ ایک بار پھر ’تنہا دل‘ کے اشتہار میں محبت اور ساتھ کی پیش کش کر رہی تھیں۔
ایک مزدور ارلی لیننگ نے بس دو ہی دن ملنے کے بعد ادھیڑ عمر نینی سے شادی کر لی۔
جونز لکھتے ہیں کہ شمالی کیرولینا میں رہتے ہوئے، نینی نے ایک باعزت شادی شدہ خاتون کی طرح عوامی زندگی گزاری اور مقامی میتھوڈسٹ چرچ کی ایک فعال رکن بن گئیں۔
’انھیں پڑوسیوں کی ہمدردی بھی حاصل ہو گئی کیونکہ ان کے شوہر کا شہر کی طوائفوں کے ہاں جانے کا سب کو علم تھا۔‘
چنانچہ جب کئی دنوں تک الٹی، چکر آنے اور دیگر علامات کے بعد ارلی کی موت ہو گئی، تو ان کی غمزدہ بیوہ پر شک کی بجائے سب نے ان سے اچھا سلوک کیا۔
حالانکہ نینی نے دوستوں اور ہمسایوں کو یہ تک بھی بتایا کہ ان کے شوہر کی طبیعت ان ہی کے دیے ناشتے اور کافی کے بعد بگڑی۔
ڈاکٹروں نے بھی ہارٹ اٹیک کی وجہ شراب کو قرار دیا۔
ہاروے لکھتے ہیں کہ اس وقت علاقے میں فلو کا وائرس بھی تھا۔ اس طرح، موت کو مشکوک نہ مانتے ہوئے کوئی پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔
’جب نینی کو معلوم ہوا کہ ان کے مرحوم شوہر نے اپنا گھر اپنی بہن کو دینے کی وصیت کی تھی تو انھوں نے اپنا ٹیلی ویژن باندھا اور شہر سے باہر نکل گئیں۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر گھر میں راکھ اور سلگتے کوئلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نینی ایک قریبی شہر میں ارلی کی ماں کے پاس رہنے چلی گئیں۔ چند ہفتوں بعد، آگ کے بیمے کا چیک پہنچا جو ارلی کے نام تھا اور وصیت کے مطابق ان کی بہن کی ملکیت ہونا تھا لیکن بہن کو چیک ملنے سے پہلے ہی ارلی کی ماں کا اچانک انتقال ہو گیا۔
نینی نے غیر قانونی طور پر چیک کیش کروایا، ایک بار پھر اپنا ٹیلی ویژن پیک کیا اور شہر چھوڑ دیا۔ وہ اپنی بہن ڈیوی کی دیکھ بھال کے لیے الاباما گئیں جس کے فوراً بعد ان کی بھی اچانک پراسرار موت ہو گئی۔
جونز کے مطابق ازدواج کی تین ناکام کوششوں کے باوجود، نینی شاید دل میں ابھی تک پیار کا ارمان سجائے ہوئے تھیں۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں نینی نے ڈائمنڈ سرکل کلب میں شامل ہونے کے لیے 15 ڈالر کی فیس ادا کی۔ انھیں چوتھے شوہر رچرڈ مورٹن، خطوط پر مبنی اسی سروس کے ذریعے ملے۔ کنساس کے یہ ریٹائرڈ سیلز مین نینی کے سابقہ تین شوہروں سے واضح طور پر مختلف تھے۔
’وہ خوش مزاج اور وجیہہ تھے اور اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔‘
لیکن ڈے لانگ نے لکھا ہے کہ رچرڈ مورٹن نینی سے شادی کے دوران میں بھی دوسری عورتوں کے ساتھ کافی دن گزارتے۔ جونز کے مطابق یوں شادی کے دو ماہ ہی کے اندر نینی اخبار کے اشتہارات میں اپنا اگلا شوہر تلاش کر رہی تھیں۔
لیکن گڑبڑ یہ ہوئی کہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد نینی کی ماں الاباما سے نوبیاہتا جوڑے کے ہاں منتقل ہو گئیں۔ ان کی آمد کے چند ہی دنوں کے اندر، لو ہیزل کو آنتوں میں شدید درد ہونا شروع ہو گیا اور پھر ان کی موت واقع ہو گئی۔
ڈے لانگ نے لکھا ہے کہ جوں ہی ماں کا قصہ تمام ہوا، نینی نے اپنی پوری توجہ اپنے ’دھوکے باز‘ شوہر کی طرف موڑ دی۔
جونز کا کہنا ہے کہ رچرڈ کی موت زہر ملی کافی پینے سے ہوئی۔ ہاروے نے لکھا ہے کہ زہر آلود کافی کا پورا تھرمس تھا جو رچرڈ نے پیا۔
یوں ان کے بدقسمت جانشین، اوکلاہوما کے سیموئل ڈوس کے لیے جگہ خالی ہو گئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جب نینی پر شوہر کو قتل کرنے کا شک ہوا
ڈوس ایک صاف گو اور انتہائی قدامت پسند آدمی تھے جنھیں وقت اور پیسے کا ضیاع ناپسند تھا۔ ڈے لانگ کے مطابق سیموئل نہ تو شرابی تھے اور نہ ہی بدسلوک۔
’انھوں نے محض اپنی بیوی کو یہ کہنے کی غلطی کی کہ وہ صرف ایسے میگزین ہی پڑھ سکتی ہیں یا ایسے ٹیلی ویژن شوز ہی دیکھ سکتی ہیں جن سے کچھ سمجھ بوجھ حاصل ہو اور جو تعلیمی مقاصد کے لیے ہوں۔‘
جونز لکھتے ہیں کہ ان پابندیوں کے باعث شوہر کو چھوڑ کر نینی الاباما چلی گئیں۔ سیموئل نے اپنی ناراض بیوی سے گھر واپس آنے کی التجا کی۔ یہاں تک کہ انھوں نے نینی کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں شراکت دار بنا دیا اور اپنی بیوی کے حق میں اپنی دو لائف انشورنس پالیسیاں بھی لے لیں۔
نینی نے ایک روز انھیں گھر کا بنا کیک کھانے کو دیا۔ 24 گھنٹوں کے اندر اندر انھیں جلن کے ساتھ پیٹ درد ہونے لگا۔ وہ کئی ہفتوں تک ہسپتال میں داخل رہے اور پھر صحت یاب ہو کر گھر واپس آ گئے۔
گھر واپسی کا جشن منانے کے لیے نینی نے ان کے لیے ایک خصوصی کھانا تیار کیا جس سے پہلے زہر آلود کافی ’بھوک بڑھانے کے لیے‘ دی۔
ڈے لانگ کے مطابق یہ زہر بھری کافی ان کا آخری مشروب تھی۔ یہیں نینی سے غلطی ہوئی۔
ان کے پانچویں اور آخری شوہر کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو گڑبڑ کا شبہ تو ہو گیا تھا لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔
چنانچہ ڈاکٹر نے نینی، جنھیں اپنے شوہر کی موت کے بعد زندگی کے بیمے کی دو رقوم ملنے والے تھیں، کو راضی کر لیا کہ شوہر کا پوسٹ مارٹم کرنے دیں۔
ڈاکٹر کو سیموئل ڈوس کے جسم میں آرسینک کی بھاری مقدار ملی اور انھوں نے پولیس کو خبر دے دی۔ نینی کو 1954 میں گرفتار کر لیا گیا۔
تفتیش کاروں کو نینی سے اعتراف جرم کروانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
نینی کا اعتراف جرم
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جونز لکھتے ہیں کہ ’وہ ایک میگزین ’رومانٹک ہیٹس‘ میں کھوئی رہتیں۔ جب بالآخر پولیس نے میگزین لے کر نینی کی توجہ حاصل کی تو وہ ہنسیں اور ایک نوجوان لڑکی کی طرح ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ آخرکار، تفتیشی کمرے میں کئی گھنٹوں بعد نینی نے اپنے آخری شوہر کو زہر دینے کا اعتراف کر لیا۔
پولیس نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟
نینی نے اس کا سادہ سا جواب دیا ’وہ مجھے گرمیوں کی گرم راتوں میں اپنا پسندیدہ ٹیلی ویژن شو دیکھنے یا پنکھا آن کرنے نہیں دیتے تھے۔‘
پھر نینی نے پولیس سے کہا کہ وہ اپنے دوسرے شوہروں کے بارے میں تب بات کریں گی جب وہ انھیں ان کا رسالہ واپس کریں گے۔ رسالہ واپس ملا تو انھوں نے ان تینوں کو بھی قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔
نینی سے اپنے شوہروں کے قتل کے اعتراف سے ملک بھر میں سنسنی پھیل گئی۔ تاہم ، وہ ہمیشہ ہنستی اور قہقہے لگاتی دکھائی دیں۔
اسی لیے کچھ صحافیوں نے انھیں ’ہنستی نانی‘ پکارا اور کچھ نے ’کھلکھلاتی بیوہ۔‘ ایک اخبار نے لکھا ’سیلف میڈ وِڈو‘ یعنی اپنی مرضی سے بیوہ ہونے والی۔‘
نینی نے اپنے پانچ سابقہ شوہروں میں سے چار کے قتل کا تو اعتراف کیا لیکن اپنے خاندان کے افراد کو مارنے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
تفتیش کے دوران ہی میں ان کے آٹھ مشتبہ شکاروں کی لاشیں نکال لی گئیں۔ پوسٹ مارٹم سے نینی کے دیگر تین مردہ شوہروں اور ان کی ماں کی باقیات میں زہر کا انکشاف ہوا۔
باقی افراد میں دم گھٹنے کے آثار ملے۔ مجموعی طور پر حکام کو شبہ تھا کہ انھوں نے 12 کے قریب افراد کو قتل کیا، جن میں سے زیادہ تر ان کے خونی رشتے دار تھے۔
مجموعی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ انھوں نے چار شوہروں، دو بچوں، دو بہنوں، دو پوتوں اور ایک ساس کو قتل کیا ہے۔
نینی نے بچپن میں لگی اپنی دماغی چوٹ کو اس کا ذمے دار قرار دیا جس کے باعث ان کا دعویٰ تھا کہ ساری زندگی ان کے سر میں درد رہا۔
جب بھی وہ یہ بتاتیں کہ انھوں نے اپنے شوہروں کو کیسے مارا وہ ہنس پڑتیں۔ نینی کا کہنا تھا کہ وہ یہ قتل انشورنس کی رقم کے لیے نہیں کرتی تھیں۔
ان کے اپنے الفاظ میں رومانوی رسالوں نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ ’میں ایک کامل ساتھی کی تلاش میں تھی، زندگی میں حقیقی رومانس کی تلاش۔‘
جب ایک شوہر ہتھے سے اکھڑ جاتا، تو نینی اسے مار ڈالتیں اور اگلی محبت۔۔۔ یا شکار کی جانب چل پڑتیں۔
ذہنی معذوری اور سزائے موت ختم ہونا
ہاروے کی تحقیق ہے کہ ریاست اوکلاہوما نے نینی کو قتل کا مجرم پایا۔ شمالی کیرولینا، کنساس اور الاباما کے ریاستی انصاف کے محکموں نے بھی ان پر قتل کا الزام لگایا لیکن اوکلاہوما سے باہر ان پر کبھی مقدمہ نہیں چلا۔
48 سال کی عمر میں نینی کو سزائے موت کے لیے الیکٹرک چیئر کا سامنا تھا اور شاید اوکلاہوما کی تاریخ میں یہ سزا پانے والی وہ پہلی خاتون ہوتیں۔
مگر دو سال بعد ایک جج نے انھیں پاگل قرار دے دیا اس طرح وہ اس سزا سے بچ گئیں۔ جج نے بعد میں وضاحت کی کہ وہ کسی عورت اور خاص طور پر ذہنی معذور عورت کو پھانسی دے کر ’خراب مثال‘ قائم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
نینی کی موت دو جون 1965 کو لیوکیمیا یا خون کے سرطان سے ہوئی مگر 1955 میں عمر قید ملنے کے دو سال بعد ان کی خواہش تھی کہ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تاہم انھوں نے اپنی خوش مزاجی کو برقرار رکھا۔
جیل میں اپنی زندگی کے بارے میں ایک بار انٹرویو دیتے ہوئے نینی نے شکایت کی کہ انھیں وہاں صرف لانڈری میں کام کرنے کی اجازت تھی اور باورچی خانے میں کام کرنے کی ان کی پیشکش کو شائستگی سے مسترد کر دیا جاتا۔
شاید کھانے میں زہر دینے کا ماضی جیل میں بھی ان کے ساتھ ہی چل رہا تھا!
Comments are closed.