سارہ شریف قتل کیس: ’پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے، میرے بیٹے عرفان نے بتایا یہ ایک حادثہ تھا‘

سارہ شریف

،تصویر کا ذریعہPolice handout

  • مصنف, کیری ڈیوس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ، اسلام آباد

برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والے 10 سالہ سارہ شریف کے دادا محمد شریف کا کہنا ہے کہ سارہ کے والد کے مطابق ان کی ’بیٹی کی موت محض ایک حادثہ تھی۔‘

عرفان شریف کے والد محمد شریف نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پاکستان آنے کے بعد دیکھا تھا۔

سارہ کے دادا کے مطابق ’یہ ایک حادثہ تھا تاہم میرے بیٹے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ اس کے بعد عرفان نے خوفزدہ ہو کر برطانیہ چھوڑ دیا تھا۔‘

سارہ کے دادا نے تصدیق کی کہ انھوں نے اپنے بیٹےعرفان کو پاکستان میں اس وقت دیکھا جب وہ جہلم آئے تھے جہاں نہ صرف ان کا بچپن گزرا تھا بلکہ وہاں اب بھی ان کے خاندان کے دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر سارہ کی موت ایک حادثہ تھی تو عرفان پاکستان کیوں چلے آئے تو محمد شریف نے جواب دیا کہ ’ڈر کی وجہ سے۔‘

’اس کی بیٹی مر گئی تھی اور ظاہر ہے جب آپ اتنے بڑے صدمے کا سامنا کرتے ہیں تو آپ ٹھیک طرح سے سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنے بیٹے کے پاکستان آنے کے فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو محمد شریف نے کہا ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انھیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے تھا اور پاکستان آنے کی بجائے وہیں رکنا چاہیے تھا۔‘

عرفان کے والد نے دعویٰ کیا کہ ’میرا بیٹا بالآخر برطانیہ واپس جائے گا اور اپنے کیس کا سامنا کرے گا۔‘

یاد رہے کہ برطانیہ میں 10 سالہ پاکستانی بچی سارہ کے قتل کے معاملے پر تین افراد کی بین الاقوامی سطح پر تلاش کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں پولیس کئی ہفتوں سے عرفان شریف، ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور ان کی 29 سالہ بیوی بینش بتول کی تلاش کر رہی ہے۔

برطانوی پولیس کے مطابق انھیں 10 اگست کی صبح اطلاع ملی تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سرے کے قصبے ووکنگ کے ایک گھر میں بچی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔

بچی کی لاش 10 اگست کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً دو بج کر 50 منٹ پر ان کے خالی گھر سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں سارہ کے جسم پر بے شمار گہرے زخم پائے گئے ہیں۔

برطانیہ کی پولیس سارہ کی موت کی تفتیش کے سلسلے میں خاندان کے تین افراد سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ تینوں افراد نو اگست کو سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل برطانیہ چھوڑ کر پاکستان جا چکے تھے۔

سارہ شریف کے دادا

،تصویر کا کیپشن

سارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے

’سارہ میری بہت پیاری پوتی تھی‘

سارہ کے دادا اپنی پوتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بظاہر پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔

’مجھے اپنی پوتی کے مرنے کا گہرا صدمہ ہے اور اس کے جانے کا غم اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سارہ دو مرتبہ پاکستان آئی تھیں۔ اس کی ہر بات بہت پیاری تھی۔ وہ میری بہت پیاری پوتی تھی۔‘

انھوں نے اپنے بیٹے عرفان شریف کے لیے براہ راست پیغام بھی دیا۔ ’وہ جہاں بھی ہوں گے، وہ یہ بات سن سکیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ انھیں سامنے آ کر اپنے کیس کا دفاع کرنا چاہیے، چاہے کچھ بھی ہو۔ انھیں پولیس کی تفتیش میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انھیں چھپ کر رہنا چاہیے۔‘

سارہ شریف قتل کیس

،تصویر کا ذریعہHANDOUT

،تصویر کا کیپشن

پاکستان میں پولیس کئی ہفتوں سے عرفان شریف، ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور ان کی 29 سالہ بیوی بینش بتول کی تلاش کر رہی ہے

’میرے کچھ بیٹے فرار تو کچھ پولیس کے پاس ہیں‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

پاکستانی پولیس کے مطابق ’برطانیہ سے آنے والے سارہ کے خاندان کے افراد 10 اگست کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترے تھے جہاں سے انھوں نے جہلم شہر کا سفر کیا تھا۔ وہ جہلم میں کچھ دن ٹھہرے تھے، ڈومیلی گاؤں میں چند گھنٹے رکے اور 13 اگست کو وہاں سے روانہ ہوئے۔‘

سارہ کے دادا حال ہی میں اپنے بیٹے عرفان کے ساتھ رابطے میں آنے کی تردید کرتے ہیں۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ کے خاندان نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ عرفان ان سے بالکل نہیں ملے تاہم محمد شریف کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے ملاقات کی کبھی تردید نہیں کی۔

جہلم کی پولیس عرفان کے پاکستان میں مقیم خاندان کے افراد کو دو بار عدالت میں پیش کر چکی ہے۔ پولیس پرعرفان کے بھائیوں اور بھابھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کا الزام ہے۔

پہلی مرتبہ پولیس نے یقین دہانی کروائی کہ وہ انھیں مزید گرفتار نہیں کرے گی تاہم منگل کو عدالت میں پیشی کے موقع پر پولس نے انھیں حراست میں لینے کی تردید کی۔

عدالت میں جج نے پولیس کو دو ہفتوں میں واقعے کی مفصل رپورٹ پیش کر نے کا حکم دیا۔

محمد شریف نے بی بی سے کہا ’گزشتہ تین ہفتوں میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے کچھ بیٹے فرار ہیں، کچھ پولیس کے پاس ہیں۔ پولیس کے ڈر سے کوئی ہم سے رابطہ نہیں کر رہا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ