دی بیسٹ، چھ بوئنگ طیارے اور ٹرپل سکیورٹی سسٹم: ’امریکی صدر سفر کرتا ہے تو دنیا رُک جاتی ہے‘

صدر، سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سروپریا سنگوان
  • عہدہ, نامہ نگار، بی بی سی

جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے دنیا کے کئی سرکردہ رہنما انڈیا آ رہے ہیں اور اس حوالے سے دلی میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

منتظمین میں سے ایک آئرس جیپور نامی کمپنی نے بتایا کہ عالمی رہنماؤں کو چاندی اور گولڈ پلیٹڈ برتنوں میں کھانا پیش کیا جائے گا۔

انڈیا کا دورۂ کرنے والوں میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شامل ہیں جن کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔ امریکی صدور کی سکیورٹی پر ہالی وڈ میں بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ دراصل یہ حفاظتی ڈھال کسی فلم کے ڈرامائی سین سے کم نہیں۔

امریکی صدر کی سکیورٹی کی ذمہ داری خفیہ ادارے سیکرٹ سروس کے پاس ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ایجنسی 1865 میں قائم ہوئی لیکن 1901 سے اسے امریکی صدور کی حفاظت کا کام سونپا گیا۔

سیکرٹ سروس میں تقریباً 7000 ہزار ایجنٹس اور افسران کام کرتے ہیں اور اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔

ان کی تربیتی مشقوں کو دنیا کی مشکل ترین مشقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تین ماہ قبل تیاری شروع

یوں تو امریکہ کے صدر کو طاقتور ترین عالمی رہنما تصور کیا جاتا ہے مگر ان کی سلامتی سے متعلق فیصلے وہ خود نہیں کر سکتے بلکہ یہ فیصلے سیکرٹ سروس کو لینے ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ اگر صدر چاہتے ہیں کہ انھیں تنہا چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔

اگر امریکی صدر کسی بھی ملک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سیکرٹ سروس مقررہ تاریخ سے تقریباً تین ماہ قبل اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔

امریکی صدر سکیورٹی کی متعدد تہوں پر مشتمل ڈھال میں چلتے ہیں جو اسے نہ صرف مضبوط بلکہ مہنگا بھی بنا دیتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکہ کے چار صدور کو قتل کیا جاچکا ہے۔

1865 میں ابراہم لنکن، 1881 میں جیمز گارفیلڈ، 1901 میں ولیم میک کینلے، 1963 میں جان ایف کینیڈی۔

لہٰذا امریکہ اپنے صدور کی سلامتی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے۔

صدر، سکیورٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹرپل سکیورٹی سسٹم

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

صدر کی حفاظت کی تین تہیں ہوتی ہیں: حفاظتی ڈویژن کے ایجنٹ اندر سے، پھر درمیان میں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ، پھر پولیس۔

دلی میں صدر بائیڈن کے لیے دلی پولیس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس پر مشتمل سب سے باہر کی چوتھی حفاظتی تہہ ہوگی۔

سیکرٹ سروس اور وائٹ ہاؤس کا عملہ تین سے دو ماہ پہلے آتا ہے اور مقامی ایجنسیوں سے ملنا شروع کر دیتا ہے۔

وہ یہاں انٹیلیجنس بیورو کے وی وی آئی پی سکیورٹی ماہرین سے بات کرتے ہیں۔

سیکرٹ سروس فیصلہ کرتی ہے کہ صدر کہاں ٹھہریں گے اور اس جگہ کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہوٹل کے عملے کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جاتا ہے۔

اور بھی بہت سے انتظامات نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایئرپورٹ پر فضائی حدود کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ صرف ان کا ایئرفورس ون طیارہ نہیں آتا، 6 بوئنگ سی 17 طیارے اس کے ساتھ اڑتے ہیں۔ ان میں ایک ہیلی کاپٹر بھی ہے۔

ان کے پاس لیموزین گاڑیاں، مواصلاتی آلات، بہت سے دوسرے ایجنٹ اور عملے کے ارکان ہیں۔

سیکرٹ سروس اور مقامی ایجنسی صدر کے قافلے کا راستہ طے کرتی ہے، یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کہاں فرار ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر حملہ ہوتا ہے تو محفوظ جگہ کون سی ہے؟

قریبی ہسپتال کیا ہیں؟ ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صدر ہسپتال کے ٹراما سینٹر سے 10 منٹ سے زیادہ دور نہیں رہ رہے ہیں۔

ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹروں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہر قریبی ہسپتال کے باہر ایک ایجنٹ تعینات ہوتا ہے۔

ان کے بلڈ گروپ کا خون بھی ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ انھیں خون کی منتقلی کی ضرورت پڑنے پر انتظار نہ کرنا پڑے۔

جیسے جیسے ان کی آمد کی تاریخ قریب آتی جاتی ہے، ایجنٹ صدر کے راستے میں ہر ایک سٹاپ کو چیک کرتے ہیں۔ جس ہوٹل میں وہ ٹھہرتے ہیں اس کے آس پاس سڑکوں پر کھڑی کاریں ہٹا دی جاتی ہیں۔

مختلف قسم کے خطرے کی صورت میں کیا کیا جائے گا، اس کی بھی ریہرسل کی جاتی ہے۔

صدر، بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جس ہوٹل میں صدر ٹھہرتے ہیں۔۔۔

ہوٹل میں صدر کے لیے پوری منزل خالی کروا لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اوپر اور نیچے کی منزلیں بھی خالی رکھی جاتی ہیں۔ وہاں صرف عملے کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں۔

پورے کمرے کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی خفیہ کیمرے یا ریکارڈنگ ڈیوائسز تو نہیں ہیں۔

ٹی وی اور ہوٹل کے فون بھی ہٹا دیے جاتے ہیں اور کھڑکیوں پر بلٹ پروف شیلڈز بھی لگائی جاتی ہیں۔ صدر کا کھانا پکانے والا عملہ بھی ساتھ آتا ہے۔

سیکرٹ سروس بھی وہاں کڑی نظر رکھتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔

انھیں فوج میں اس شخص کی بھی حفاظت کرنی ہوتی ہے جو ہر وقت صدر کے ساتھ ہوتا ہے، جس کے پاس امریکی ایٹمی میزائل داغنے کا بریف کیس ہوتا ہے۔

صدر اپنی لیموزین کار میں سفر کرتے ہیں۔ اس گاڑی کا نام ’دی بیسٹ‘ رکھا گیا ہے جو ہر سہولت سے لیس ہے۔ نہ صرف یہ بُلٹ پروف ہے بلکہ اس میں زیادہ دفاعی آلات اور تکنیکیں بھی ہیں۔ جیسے سموک سکرین، آنسو گیس، نائٹ ویژن ٹیکنالوجی، کیمیائی حملوں سے تحفظ اور گرینیڈ لانچرز۔

ڈرائیور اس قدر تربیت یافتہ ہیں کہ حملے کے وقت وہ مخالف سمت میں 180 ڈگری موڑ لیتے ہیں۔

اوباما

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب اوباما انڈیا آئے تھے

2015 میں سابق امریکی صدر اوباما یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی انڈیا آئے تھے۔

انڈیا کی روایت کے مطابق انھیں انڈین صدر کے ساتھ پنڈال تک جانا تھا لیکن وہ اپنی بلٹ پروف کار دی بیسٹ میں پنڈال پہنچے۔

اس دن انھوں نے سکیورٹی پروٹوکول کی بھی خلاف ورزی کی۔

سیکرٹ سروس کے رہنما اصولوں کے مطابق صدر 45 منٹ سے زیادہ کھلی فضا میں نہیں رہ سکتے۔ تاہم اوباما دو گھنٹے تک اس مقام پر موجود رہے۔

سیکرٹ سروس میں رہنے والے کچھ لوگ کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک کتاب جوزف پیٹرو نے لکھی ہے جو 23 سال تک امریکی خفیہ سروس میں سپیشل ایجنٹ رہے۔

ان کے علاوہ رونالڈ کیسلر نے صدر کی خفیہ سروس میں 100 سے زیادہ سیکرٹ سروس ایجنٹوں کا انٹرویو کر کے ایک کتاب لکھی ہے۔

امریکی صدر جب بھی کہیں باہر جاتے ہیں تو ہزاروں لوگ ان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

بی بی سی کے وائٹ ہاؤس کے رپورٹر نے ایک بار لکھا تھا کہ ’جب امریکی صدر سفر کرتے ہیں تو دنیا رُک جاتی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ