وہ ’احمقانہ‘ بینک ڈکیتی جس کے بعد خود کو ضرورت سے زیادہ قابل سمجھنے کی کیفیت کی دریافت ہوئی

بینک کی ڈکیتی

،تصویر کا ذریعہGetty

  • مصنف, بی بی سی نیوز
  • عہدہ, ڈرافٹنگ

جنوری 1995 کے ایک دن امریکہ میں مک آرتھر وہیلر نامی شخص اور اس کے ساتھی نے ریاست پینسلوینیا کے شہر پٹس برگ کے دو بینکوں کو لوٹا۔

جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہاں متعدد کیمرے تھے اور مک آرتھر پہلی دفعہ مسلح ہو کر ڈکیتی نہیں کرنے جا رہے تھے لیکن انھوں نے اس دفعہ اپنا چہرہ چھپانے کی بظاہر کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

جب انھیں گرفتار کیا گیا اور انھیں یہ بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی ویڈیو کے ذریعے ان کی شناخت ہوئی تو وہ حیران ہو گئے اور انھیں اس بات پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔

’لیکن میں نے اپنے اوپر لیموں کا رس چھڑکا تھا ‘ مک آرتھر نے پریشانی کے عالم میں تفتیشی اہلکاروں کو کہا کہ جو ان سے بھی زیادہ پریشان نظر آ رہے تھے۔

جب مک آرتھر وہیلر نے تفتیشیوں کو سمجھایا وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں تو ان کی گھبراہٹ حیرانگی میں تبدیل ہو گئی۔

انھیں بتایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنے چہرے پر لیموں کا رس چھڑکیں گے تو وہ کیمروں کو نظر نہیں آئیں گے۔

لیکن انھوں نے غالباً معلومات کی غلط تشریح کی تھی۔ یہ ممکن ہے کہ انھیں پتا چلا ہو کہ پرانے زمانوں میں خفیہ پیغامات لکھنے کے لیے لیموں کے رس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

مک آرتھر نے ایک اچھے سائنسدان کی طرح اس مفروضے کا تجربہ کیا۔

انھوں نے اپنے منہ پر بہت سارا لیموں کا رس ملا جس کی وجہ سے ان کی جلد پر بہت جلن ہوئی اور ان کی آنکھوں میں بھی اتنی جلن ہوئی کہ وہ مشکل سے اپنی آنکھیں کھول پا رہے تھے۔

انھوں نے اس بات کی تصدیق بھی کر لی کہ وہ نظر نہیں آ رہے۔

انھوں نے اپنی ایک پولورائیڈ تصویر کھینچی جس میں وہ نظر نہیں آ رہے تھے۔

لیموں کا رس چھڑکنا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس وقت مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے پولیس اہلکاروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ انھیں ایسا اس وجہ سے لگا کیونکہ وہ صحیح سے دیکھ نہیں پا رہے تھے تو انھوں نے کیمرے کا رخ صحیح سے نہیں رکھا تھا یا اس کی فلم میں کچھ نقص تھا۔

کورنیل یونیورسٹی میں سوشل سائیکالوجی کے پروفیسر ڈیوڈ ڈننگ کی اس واقعے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس بات نے ان کے اندر تجسس پیدا کیا کہ کیسے احمقانہ حرکت کرنے کے باوجود مک آرتھر کو اپنی صلاحیتوں پر کتنا یقین تھا۔

کیا ایسے اور بھی لوگ ہیں جنھیں اپنی نااہلی کے بارے میں معلوم نہیں ہے؟

کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ 1871 میں چارلز ڈارون نے جو کہا تھا وہ سچ تھا کہ ’جہالت اکثر علم سے زیادہ خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔‘

مجھے نہیں پتا کہ مجھے کچھ نہیں پتا

ڈیوڈ ڈننگ نے اپنے ساتھی جسٹن کروگر کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا کہ کیا وہ لوگ جو کسی کام میں ماہر نہیں ہیں ایسے لوگوں کے مقابلے میں جو ماہر ہیں اپنے اندر کی خامیوں کو محسوس نہیں کرتے؟

ایک تجربے میں انھوں نے پیشہ ور کامیڈینز کو کہا کہ وہ مزاح کے اعتبار سے درجہ بندی کریں۔

کیونکہ مزاح کی مقدار نہیں ہوتی اور آپ اسے ناپ نہیں سکتے لہٰذا محققین نے منطق اور گرائمر کے بھی تجربے کیے جن کے جواب پہلے ہی تیار کر لیے گئے تھے۔

تجربے میں حصہ لینے والوں سے بھی ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

تمام صورتوں میں انھوں نے یہ رجحان دیکھا کہ وہ لوگ جن کی کارکردگی نیچے کے 25 فیصد میں آتی تھی وہ اپنی کارکردگی کو حقیقت سے زیادہ اچھا سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو اوسط سے زیادہ بہتر مانتے تھے۔

لا علمی اور صلاحیتیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اپنی تھیوری کا تجربہ کرنے کے لیے سائنسدانوں نے اپنے آخری ٹیسٹ میں کم کارکردگی دکھانے والے شرکا کے ایک گروپ کو استدلال اور منطق کے ٹیسٹ کے لیے تربیت دی۔

ایک کہاوت ہے کہ ’مجھے صرف یہ پتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں پتا‘ یعنی جتنا آپ کو شعور ملتا ہے اتنا آپ پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو کیا کچھ نہیں پتا۔ یہی ہوا کہ آخری ٹیسٹ میں تربیت دینے کی وجہ سے شرکا میں خود کو جانچنے کی صلاحیت میں بہتری آ گئی تھی۔

ڈننگ اور کروگر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب لوگ نااہل ہوتے ہیں تو ان پر دوہرا بوجھ ہوتا ہے۔

’وہ نہ صرف غلط نتائج پر پہنچتے ہیں اور بدقسمت فیصلے کرتے ہیں، بلکہ ان کی نااہلی انھیں اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ مک آرتھر کی طرح ’وہ غلط فہمی میں ہوتے ہیں کہ وہ صحیح کر رہے ہیں۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ کچھ کرنے کے لیے جو علم یا مہارت درکار ہوتی ہے وہی یہ جائزہ لینے میں بھی درکار ہوتی ہے کہ آپ صحیح کام کر رہے ہیں یا نہیں۔

انھوں نے اپنی تحقیق میں سمجھایا کہ ’وہ مہارتیں جو کسی کو گرائمر کے لحاظ سے درست جملہ بنانے کی اجازت دیتی ہیں وہی مہارتیں ہیں جو اس بات کا تعیّن کرنے کے لیے ضروری ہیں کہ آیا گرائمر کی غلطی ہوئی ہے۔‘

جہالت پوشیدہ ہوتی ہے

تحقیق پر لکھا گیا مضمون سماجی نفسیات (سوشل سائیکالوجی) کا ایک کلاسک بن گیا اور اس رجحان کو ’ڈننگ-کروگر افیکٹ‘ کا نام دیا گیا۔

اس کے بعد کے سالوں میں اس کا اثر ہر قسم کے شعبوں میں دیکھا گیا۔ بشمول شطرنج، طب، جذباتی ذہانت اور یہاں تک کہ شکاریوں کے درمیان آتشی اسلحے کی حفاظت کے علم میں بھی یہ اثر دیکھا گیا۔

مختلف صلاحیتوں کا حامل کوئی بھی گروہ جن کی کارکردگی نچلے 25 فیصد میں ہوتی ہے وہ اپنی صلاحیت کا جائزہ لینے میں سب سے کم قابل تھے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ نادان تھے یا لا علم تھے۔

ڈیوڈ ڈننگ نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ’شاید ستم ظریفی یہ ہے کہ جس چیز کو لوگ نظر انداز کرتے ہیں وہ ان کی اپنی لاعلمی کی حد ہے۔ یہ کہاں سے شروع ہوتی ہے، کہاں ختم ہوتی ہے، اور اس کے بیچ میں موجود تمام جگہ،‘

اور ہم سب ایسے لوگ ہیں چاہے یہ ماننا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔

'ڈننگ-کروگر افیکٹ'

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہم مسلسل علم حاصل کرتے ہیں، لیکن ہماری لا علمی سمندر جتنی وسیع ہے۔

ہم اپنی بہت سی نااہلیوں سے واقف ہوتے ہیں لیکن ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ ہم نہیں جانتے۔

وہ علم کے پوشیدہ خلا ہیں کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ ہم جوابات نہیں جانتے بلکہ یہ کہ ہمارے پاس سوالات نہیں ہیں۔

ڈیوڈ ڈننگ نے لکھا کہ ’لوگوں کا یہ مقدر ہے کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے علم کی ٹھوس زمین کہاں ختم ہوتی ہے اور ان کی لا علمی کے پھسلتے ہوئے کنارے کا آغاز ہو جاتا ہے۔‘

اور وہ طبی ادب کی ایک اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے اس مشکل کو ’روزمرہ کی زندگی کا اینوسوگنوسیا‘ قرار دیتے ہیں۔

اینوسوگنوسیا ایک اعصابی حالت ہے جس میں مریض کو معذوری ہوتی ہے لیکن اسے اس کا علم نہیں ہوتا اس لیے نہیں کہ وہ اسے ماننے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اس کا شعور نہیں رکھتا۔

سب کچھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اس چھپی ہوئی نااہلی کے ساتھ زندگی سے گزر رہے ہیں۔

اس لیے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اعتماد اور علم کے درمیان ایک عجیب رشتہ ہے جو ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جتنی ہیں اس سے زیادہ سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے۔

لہٰذا اگلی دفعہ آپ کو یہ خیال آئے کہ آپ کو سب پتا ہے آپ شاید اپنی لاعلمی کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ