کینیڈا: ٹرک سے گرنے والی 50 لاکھ شہد کی مکھیوں نے علاقے میں افراتفری مچا دی
- مصنف, نادین یوسف
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورنٹو
کینیڈا میں بدھ کے روز شہد کی مکھیاں پالنے والے مائیکل باربر نیند سے اُس وقت بیدار ہوئے جب پولیس والوں نے اُنھیں مدد کے لیے فون کیا۔
معاملہ یہ تھا کہ مکھیوں سے بھرے چھتوں کے ڈبوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرک کی مدد سے منتقل کیا جا رہا تھا کہ اچانک وہ رسیاں ڈھیلی پڑ گئیں جن کی مدد سے انھیں ٹرک پر باندھا گیا تھا۔
حادثے کے باعث مکھیاں تو علاقے میں آزاد پھرنے لگیں لیکن شہریوں کے لیے صورتحال خراب ہو گئی اور اسی مسئلے پر قابو پانے کے لیے پولیس کو باربر کی مدد درکار تھی۔
باربر نے کہا جب یہ لوگ جائے حادثہ پر پہنچے تو وہاں شہد کی مکھیوں کا ایک بادل سا تھا مگر یہ خوبصورت نظارہ مکھیوں کی پریشانی، کشمکش اور غصے کی عکاسی نہیں کر رہا تھا۔
ٹرک کے ڈرائیور سے کہا گیا کہ وہ ٹرک میں شیشے چڑھا کر اندر ہی بیٹھے رہیں جبکہ قریب سے پیدل گزرنے والوں کو جائے حادثہ سے دور رہنے کا کہا گیا۔
باربر نے اپنے 11 سالہ کیریئر میں ایسا منظر نہیں دیکھا تھا جیسا کہ برلنگٹن، اونٹاریو میں اُس وقت تھا۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا منظر ’دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔‘
باربر گیلف میں ٹرائی سٹی بی ریسکیو نامی ادارے کے مالک ہیں۔ ان کے مطابق انھیں مقامی وقت کے مطابق 07:00 بجے مقامی پولیس کی طرف سے پہلی فون کال موصول ہوئی، جس میں انھیں یہ بتایا گیا کہ ایسا حادثہ ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں شہد کی مکھیوں سے بھرے چھتے سڑک پر گر گئے ہیں اور ان میں موجود مکھیاں بے چینی کے عالم میں بھنبھناتی پھر رہی ہیں۔
اس حادثے کے فوراً بعد ہی مقامی پولیس نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور ایک پوسٹ کی جس میں لوگوں کو ٹورنٹو سے تقریباً ایک گھنٹہ جنوب میں جائے حادثہ سے دور رہنے کا کہا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ٹرک حادثے سے قبل شہد کی مکھیوں کو موسم کی تبدیلی کے پیش نظر ایک جگہ سے دوسری منتقل کیا جا رہا تھا۔
جیسے ہی باربر نے پولیس سے اس حادثے کے بارے میں سُنا، انھوں نے اس مشکل صورت حال کو سمجھتے ہوئے شہد کی مکھیاں پالنے والے چند دیگر لوگوں کو بھی اپنے ساتھ اس ریسکیو آپریشن میں جانے اور مدد کے لیے بلایا۔
تقریباً ایک درجن شہد کی مکھیاں پالنے والوں نے آخرکار اس صورت حال پر قابو پا لیا اور حادثے کی وجہ سے شدید غصے اور کشمکش کی شکار شہد کی مکھیوں کو قابو کیا۔
باربر نے کہا کہ شہد کی مکھیاں اور ان کے چھتے 400 میٹر (1,300 فٹ) کے دائرے میں بکھرے ہوئے تھے۔ باربر کے مطابق قریب ہی کھڑی چند گاڑیوں اور لیٹر بوکس پر محفوظ مقام کی تلاش میں پریشان چھوٹی یا کم عُمر مکھیاں جھرمٹ کی صورت میں بھی بیٹھی دکھائی دے رہی تھیں۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’شاید میرے ٹرک کے اگلے حصے پر ایک ہزار شہد کی مکھیاں تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تاہم دوسری شہد کی مکھیاں، جو ذرا زیادہ عمر کی یا بزرگ تھیں وہ زیادہ ناراض اور غصے میں نظر آ رہی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے ناقص ہونے پر احتجاجاً ادھر ادھر بھنبھنا رہی تھیں۔‘
مسٹر باربر نے کہا چند گھنٹوں کے بعد زیادہ تر شہد کی مکھیاں اپنے چھتے تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن چند سو شہد کی مکھیاں اس حادثے میں اپنی جانیں گنوا بیٹھی تھیں۔
حادثے کے بعد شہد کی مکھیاں قابو کرنے کی کوشش یا اس ریسکیو آپریشن میں شامل چند لوگوں کو ان زخمی اور غصے میں اُڑنے والی شہد میں مکھیوں نے ڈنک مارا۔
مسٹر باربر نے کہا کہ ٹرک کے ڈرائیور کو 100 سے زیادہ بار ڈنک مارا گیا، کیونکہ اس نے شہد کی مکھیاں پالنے کا پورا سوٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ پیرامیڈیکس کے ایک اہلکار بھی قریب تھے مگر وہ محفوظ رہے۔
انھوں کے مطابق ’مکمل پروٹیکشن سوٹ پہننے والے چند اہلکاروں کو بھی شہد کی مکھیاں قابو کرنے کے اس آپریشن میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔‘
مسٹر باربر نے کہا کہ ’وہ اس ریسکیو آپریشن میں مدد کرنے والوں کے مشکور ہیں کہ اُنھوں نے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں اُن کی مدد کی، مگر ایک اہم پیغام یہ کہ مکھیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران حفاظتی بند اچھی طرح باندھے جائیں۔‘
اس واقعے میں اُن کے مطابق ہوا یہ کہ ’سب بچ گئے مگر ہاں چند شہد کی مکھیاں زخمی ضرور ہوئیں، لیکن اب وہ اس ریسکیو آپریشن کے بعد اپنے مطلوبہ سرد مقام تک محفوظ پہنچ جائیں گی۔‘
Comments are closed.