دنیا کا وہ مقام جہاں انسان اگلے ایک لاکھ برس تک بھی قدم نہیں رکھ پائے گا

cave

،تصویر کا ذریعہ Erika Benke

  • مصنف, ایریکا بینکے
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر

اگلے چند سالوں میں فن لینڈ استعمال شدہ جوہری ایندھن اولکولیوٹو نامی جزیرے میں ’انوکالو‘ نامی مقام پر دفن کرنا شروع کر دے گا جو وہاں ایک لاکھ برس تک موجود رہے گا۔ ایریکا بینکے اس مقام پر جا چکی ہیں اور اس تحریر میں اپنا تجربہ بتا رہی ہیں:

میں ہمیشہ کسی انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے خاصی پرجوش ہوتی ہوں۔ میرے نزدیک یہ کوئی بھی کہانی سنانے کے مرحلے کا سب سے پر لطف حصہ ہوتے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ مجھے مختلف احساس ہو رہا ہے۔ میں اونکالو کا دورہ کر رہی تھی جو زمین کی سطح سے 450 میٹر نیچے واقع ہے اور یہاں ایک لاکھ برس تک جوہری فضلے کو سٹور کرنے کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔

اچانک ایک خیال کے آتے ہی میں کچھ حد تک تذبذب کا شکار ہو گئی اور وہ یہ تھا کہ میں دنیا کی ایسی پہلی مستقل سٹوریج سائٹ کا دورہ کرنے والی ہوں۔

جنوب مغربی فن لینڈ میں ایک سنسان سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے میں نے اپنی گاڑی کی رفتار آہستہ کر لی اور یہ تصور کرنے لگی کہ یہ انتہائی خوبصورت ملک جس میں تناور صنوبر کے درخت موجود ہیں آج سے ایک ہزار یا 10 ہزار سال بعد کیسا دکھے گا۔

کیا اولکیلووٹا جزیرے میں موجود نقطوں کی طرح نظر آنے والے گھروں میں تب کوئی بستا ہو گا؟ اگر کوئی بستا بھی ہوا تو کیا وہ فنش زبان بولتے ہوں گے؟ کیا وہ کوئی بھی زبان استعمال کرتے ہوں گے؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا انھیں اس ممکنہ خطرے کے بارے میں معلوم ہو گا جو ان کے قدموں تلے اونکالو میں موجود ہو گا؟

جوہری توانائی کے سٹیشنز سے استعمال شدہ ایندھن کو اس وقت عارضی سٹوریج مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔ فن لینڈ وہ پہلا ملک ہے جو ممکنہ طور پر ایک مستقل حل کے نفاذ کی کوشش کر رہا ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہاں سٹوریج کا عمل اگلے دو سے تین برس میں شروع ہو گا اور انتہائی تابکار مواد یہاں گہرائی میں دفن کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اس مواد کو کاسٹ آئرن اور کاپر سیلنڈر میں بند کیا گیا ہے اور ان کے گرد چکنی مٹی لپیٹی گئی ہے جس میں بینٹونائٹ شامل ہے۔

جب میں نے انکالو میں لوگوں سے فون پر بات کی تو اس وقت مجھے بالکل بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ تاہم اب میں پریشان ہوں۔ پوسیوا کمپنی، جو اس سائٹ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، نے ہمیں سب سے پہلے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ویڈیو دکھائی۔ میں نے یہ ویڈیو دو جرمن ٹی وی کے صحافیوں کے ساتھ دیکھی۔

اس ویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کو اپنے گروپ سے علیحدہ نہیں ہونا، ایمرجنسی کی صورت میں گائیڈ کی ہدایات پر عمل کرنا ہے۔

یہاں ابھی بھی تعمیراتی کام جاری ہے اس لیے مشینوں اور گاڑیوں سے بچنا ہے۔ اگر آتش زدگی ہوتی ہے تو اپنے گائیڈ کی رہنمائی میں قریب ترین شیلٹر چلے جائیں۔ اس ویڈیو میں ایک فائر پروف شیلٹر دکھایا گیا ہے جس میں آکسیجن بھی علیحدہ سے بنائی جاتی ہے۔

جب آپ اس کے اندر چلے جائیں تو گائیڈ سب کو پانی کی بوتل پکڑا دیتا ہے۔ بظاہر یہ سب بہت منظم نظر آتا ہے۔

cave

،تصویر کا ذریعہAlamy

پوسیوا کمپنی میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کوآرڈینیٹر جوہانا ہینسن سے میں نے پوچھا کہ ’کیا آپ کو یہاں کسی ایمرجنسی صورتحال سے نبردآزما ہونا پڑا ہے؟‘

انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’صرف ایک، لیکن وہ بھی غلطی سے الارم بجا تھا۔‘

اس کے بعد ہم سے سیفٹی گیئر پہننے کا کہا گیا۔ ایک پیلی رنگ کی جیکٹ تاکہ آپ کو اندھیرے میں باآسانی دیکھا جا سکے، واٹر پروف جوتے، ایک ہیلمٹ جس پر وائزر یا منھ ڈھانپنے کا بندوبست بھی تھا اور ایک بیلٹ اور ساتھ میں ٹارچ بھی۔

ہمیں ایک چھوٹا سا پیکٹ بھی دیا گیا جس میں ایک سر کو ڈھانپنے کے لیے خول تھا جو ہمیں آگ کے باعث بننے والی گیسز سے 15 منٹ کے لیے بچا سکتا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت تسلی ہوئی کہ ہمارے ہیلمٹس میں ٹریکنگ ڈیوائسز موجود ہیں اور کنٹرول روم میں موجود افراد کو یہ معلوم ہو گا کہ ہم کہاں ہیں۔

اس مطمئن کرنے والی سوچ کے ساتھ میں ایک سکیورٹی گیٹ کی جانب بڑھی جہاں سے مجھے ایک گاڑی میں اندر لے جایا گیا۔ ہماری گائیڈ ہمیں سروس سرنگ کے اندر بغیر کسی جھجھک کے ڈرائیو کرتے ہوئے لے گئیں۔ چند ہی لمحوں میں اندر بہت زیادہ اندھیرا ہو گیا۔

اونکالو کے سروس سٹیشن تک ڈرائیو کرنے میں 15 منٹ لگتے ہیں جو زمین کی سطح سے 437 میٹر نیچے واقع ہے۔ جب ہم اس سرنگ سے نیچے جا رہے تھے تو راستے میں ہمیں ایک سائن بورڈ نظر آیا جس میں رفتار کی حد 20 کلومیٹر فی گھنٹہ بتائی گئی تھی۔

سرنگ کی دیوار پر ایسے سبز سائن بورڈ بھی تھے جو یہ بتا رہے تھے کہ ہم زمین کی سطح سے کتنا نیچے ہیں۔

cave

،تصویر کا ذریعہErika Benke

یہ بھی پڑھیے

یہ سب میری سوچ سے کم خوفناک ثابت ہوا۔ میرے خیال میں جس بات سے مجھے تسلی ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ سرنگ زیادہ چوڑی نہیں تھی، یہاں سے صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے لیکن جب ہم تھوڑا آگے جاتے ہیں اور روڈ چوڑی ہو جاتی ہے تو وہاں ٹرک اور دیگر گاڑیاں بھی نظر آتی ہیں۔

یہ ایسا ہے کہ ہم ایک انتہائی مصروف تعمیراتی سائٹ میں ڈرائیو کر رہے ہیں اور یہ ایک غار میں واقع ہے۔

ہمیں سروس سٹیشن پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ یہ ایک کشادہ جگہ تھی جس میں روشنی کا انتظام بہترین تھا اور ہمارے پیروں تلے بجری تھی۔

یہاں بہت زیادہ بھاری مشینری موجود تھی اور بڑے بڑے کنٹینرز کی قطار لگی ہوئی تھی جن میں تعمیراتی مواد موجود تھا۔ چھت پر کام جاری تھا اور دو افراد اس پر کام کر رہے تھے جبکہ دو اور مزدور بڑی بڑی تاروں کے گرد موجود کنٹینرز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔

یہاں انتہائی عجیب سے اطمینان کا احساس ہوا۔ لوگ یہاں ایسے کام میں مصروف ہیں جیسے زمین پر کسی فیکٹری میں کام کر رہے ہوں۔

یہاں درجہ حرارت 14 ڈگری ہے اور ہوا بالکل صاف ہے۔ ادھر ہوا کا نظام کام کر رہا ہے اور یہاں کوئی بدبو، یا دھول یا نمی نہیں ہے۔

ہمارے گائیڈز ہمیں بتا رہے ہیں کہ کیسے استعمال شدہ جوہری ایندھن کے کنٹینرز یہاں ایک لفٹ کے ذریعے لائے جائیں گے جو سطح زمین پر موجود پلانٹ سے براہِ راست یہاں آئیں گے۔

ہم لفٹ کی جگہ تو نہیں دیکھ سکے کیونکہ اس کی تعمیر کا کام ابھی جاری ہے۔ ابھی اس سوراخ پر بڑا سا دروازہ نصب ہے جس پر سرخ رنگ میں دو مرتبہ ایکس لکھا ہوا ہے۔

cave

،تصویر کا ذریعہErika Benke

جب استعمال شدہ ایندھن کو یہاں سٹور کرنے کا آغاز ہو گا تو لفٹ کے ذریعے انھیں مزید گہرائی میں لے جایا جائے گا جہاں روبوٹس انھیں ایسے سوراخوں تک پہنچائیں جہاں انھیں ہمیشہ کے لیے دفن کیا جائے گا۔

ہمیں ایک ایسی سرنگ دکھائی گئی۔ یہ انتہائی اندھیری جگہ ہے اور بظاہر اس کی سطح بھی اونچی نیچی اور نم ہے۔ اس کے دیواریں پتھریلی ہیں جو ٹارچ لائٹ میں چمکتی ہیں۔

اس دوران مجھے خیال آیا ہے کہ میں ایک گلابی رنگ کی تار کھو چکی ہوں جو میرے کیمرے کو ایک مائیک سے جوڑتی ہے۔ میں واپس جانے لگی تو مجھے اچانک اس لمحے میں خوف کا احساس ہوا۔

میں نے سوچا کہ میں ایک ایسی اندھیری سرنگ میں موجود ہوں جہاں استعمال شدہ جوہری ایندھن ایک لاکھ برس تک موجود رہے گا۔ ایک ایسی جگہ جہاں پر 2025 کے بعد سے کوئی انسان قدم نہیں رکھ سکے گا۔

یہ جگہ اس بات کو بھی واضح کر دیتی ہے کہ ہماری زندگیاں کتنی مختصر ہیں۔ ایک لاکھ برس کے مقابلے میں میری اپنی زندگی کتنی مختصر ہے۔

میرے ذہن میں 30 برس قبل ایلپس پر سکیئنگ کا خیال آیا جب دھند اتنی گہری تھی کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کون سی راستہ اوپر جا رہا ہے اور کون سا نیچے۔

وہ میرے لیے پہلا پہلا تجربہ تھا جس سے مجھے احساس ہوا کہ ہم زمین کی طاقت کے مقابلے میں کتنے کمزور ہیں۔ انکالو نے مجھے اس بارے میں دوسری جھلک دکھا دی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ