برطانوی امتحان میں ریکارڈ بنانے والی ’بلا کی ذہین‘ پاکستانی نژاد طالبہ: ’وہ جو بھی پڑھتی اسے یاد ہو جاتا‘

ماہ نور چیمہ

،تصویر کا ذریعہMahnoor Cheema

  • مصنف, آسیہ انصر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

صرف 16 سال کی عمر میں ایک منفرد تعلیمی اعزاز حاصل کرنے والی ماہ نور یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی دوسرے بچوں سے بات چیت شروع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں جبکہ ان کے والدین کو معلوم تھا کہ وہ ’بلا کی ذہین‘ اور عام بچوں سے مختلف ہیں۔

پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ نے جی سی ایس سی (جنرل سرٹیفیکٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن) کے 34 مضامین میں 99 فیصد ’ اے سٹارز‘ حاصل کیے ہیں۔

کیمبرج سسٹم میں او لیول کے برابر اس تعلیم میں اکثر بچے زیادہ سے زیادہ 11 مضامین میں پاس ہونا کافی سمجھتے ہیں۔ مگر ماہ نور نے فلکیات سے لے کر ریاضی اور انگلش سے لے کر لاطینی زبان، ان تمام تر مضامین کے امتحانات میں نمایاں نمبر حاصل کیے جن میں ان کی دلچسپی تھی۔

وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ انھیں شروع میں ہی یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ ہیں کیونکہ ان کے شوق عام لوگوں جیسے نہیں۔

’مجھے کتابیں پڑھنے اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا جنون تھا جبکہ میرے ہم عمروں کی دلچسپی اور زندگی کے مقاصد مختلف تھے۔‘

شاید یہی وجہ تھی کہ سکول میں پڑھنے کا ان کا تجربہ کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ ’جو سبق کلاس میں پڑھایا جاتا، میں وہ پہلے پڑھ چکی ہوتی تھی اور اس سے آگے کا جاننا چاہتی تھی۔‘

ماہ نور چاہتی تھیں کہ وہ 50 مضامین میں بہترین کامیابی حاصل کرتیں تاہم برطانیہ کے نظام تعلیم کے قوائد کے تحت انھوں نے سکول میں 10 مضامین منتخب کر کے پڑھے اور باقی مضامین کا پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر امتحان دیا۔ یوں دو سالوں میں انھوں نے 34 مختلف مضامین میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔

یعنی ماہ نور غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والی طالبہ تھیں اور شاید اسی وجہ سے ان کے والدین کے لیے بھی ان کی پرورش ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔

ماہ نور چیمہ اپنی فیملی کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہMahnoor cheema

’جینیئس بچے کو محض باتوں سے نہیں بہلایا جا سکتا‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ماہ نور کے والدین اپنے تین بچوں میں سب سے بڑی بیٹی ماہ نور کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ مگر انھوں نے ان کی ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین تعلیم فراہم کرنے پر اپنا قیمتی وقت اور وسائل صرف کیے ہیں۔

ان کی والدہ طیبہ چیمہ نے بتایا کہ ماہ نور شروع سے ہی ان کے بقیہ دو بچوں سے کافی مختلف رہیں اور اسی وجہ سے ان کو ماہ نور پر خاص توجہ دینا پڑی۔

’لوگ کہتے ہیں کہ 34 مضامین بہت بڑی کامیابی ہے مگر ہمیں یہ نارمل لگ رہا ہے کیونکہ اپنی ذہانت کے باعث وہ پانچ دن میں پورا مضمون کور کر لیتی ہے۔‘

ماہ نور کے بچپن کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو مطالعے کا غیر معمولی حد تک جنون تھا اور ’وہ جو بھی پڑھتی اسے وہ یاد ہوجاتا۔‘

’ہم جب بھی کتابیں لینے جاتے تو وہ پوری پوری سیریز خریدنے پر مصر رہتی۔ مجھے لگتا تھا کہ اس کو ختم ہونے میں 10 سے 12 دن لگیں گے مگر وہ دو دن میں سب ختم کر لیتی تھی اور پھر دوسری کتابیں لے لیتی تھی۔‘

ماہ نور کے ریڈنگ کے شوق کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ ’جب میتھ بھی پڑھتی تھی تو اپنی بریک کے دوران کتاب اُٹھا کر پڑھنے میں مشغول رہتی۔‘

طیبہ کے مطابق غیر معمولی ذہین بچہ اپنی عمر سے آگے کا سوچتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے اور اپنی رائے بھی دیتا ہے۔

’ماہ نور کو پالنا دیگر بچوں کے مقابلے مشکل تھا۔ ایسے جینیئس بچے کو آپ باتوں سے نہیں بہلا سکتے۔ آپ نے انھیں منطق سے سمجھانا ہوتا ہے اور انھیں جواز دیے بغیر مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے مجھے لگتا تھا کہ بچوں کو ہر بات میں اتنی مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ میں نے جان لیا اور ہم ایک ہی پیج پر آ گئے۔‘

طیبہ کی یہی کوشش رہی کہ ماہ نور کو زیادہ توجہ ملنے سے ’باقی بچوں کو اپنے اندر کمی محسوس نہ ہو۔۔۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی کو بھی کسی پر سبقت نہ دی جائے۔‘

ماہ نور چیمہ

،تصویر کا ذریعہMahnoor Cheema

،تصویر کا کیپشن

ماہ نور دن بھر کی تھکن ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیانو بجا کر دور کرتی ہیں

ماہ نور نے دو سال کا کورس ’تین ماہ میں یاد کر لیا‘

ماہ نور کی ذہانت ان کے والدین کے سامنے روز اول سے عیاں تھی۔

طیبہ چیمہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے جب اپنے ایک عزیز کے بچوں کی ریاضی کی کتاب دیکھی تو انھیں وہ کورس بہت پسند آیا اور انھوں نے سوچا کہ وہ اپنے بچوں کو یہی کورس پڑھائیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماہ نور جب ڈیڑھ سال کی تھی تو میں اپنی ایک فیملی فرینڈ کے پاس گئی۔ وہ اپنی بیٹی کو 11 پلس (گرائمر سکولز میں داخلے کے لیے لازمی ٹیسٹ) کی تیاری کروا رہے تھے تو ان کتابوں نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں نے اپنے بچوں کے لیے بھی ایسا سوچا۔‘

وہ اس وقت پاکستان میں تھے تو انھوں نے 2014 میں 11 پلس کی تیاری کروانے کے لیے انگلینڈ سے کتابیں منگوائیں۔

’اس وقت ماہ نور کی عمر سات سال تھی۔ پاکستان میں او لیول میں پڑھایا جانے والا میتھ کا کورس، جو ڈی ون سے ڈی فور تک ہوتا ہے، وہ ماہ نور نے سات سال کی عمر میں ہی ختم کر لیا۔ جتنا بھی اسے پڑھایا جاتا وہ اس کو فوری سمجھ کر ذہن نشین کر لیتی۔‘

2016 میں ماہ نور کے والد اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر برطانیہ منتقل ہو گئے تاکہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکیں۔

طیبہ نے بتایا کہ برطانیہ آمد کے بعد ماہ نور نے وہ کورس تین ماہ میں مکمل کر لیا جس کے لیے عموماً دو سال درکار ہوتے ہیں۔ ’آہستہ آہستہ ماہ نور آگے بڑھتی گئی اور چھ ماہ میں ڈکشنری پر بھی عبور حاصل کر لیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ماہ نور اپنی تعلیمی ذہانت کے ساتھ جڑے کچھ چیلنجز سے بھی واقف ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر سٹوڈنٹ پہلے سے ہی اس سبق سے واقف ہو تو استاد بھی اس کے لیے بہت زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے پورے بچپن میں عام طور پر مجھے ایک کونے میں بٹھایا جاتا تھا اور ایک ورک شیٹ تھما دی جاتی تھی۔‘

’برطانیہ میں ایک سسٹم ہے جس کے تحت سکول ورک شیٹ کو پیچیدگی کی بنا پر رینک کیا جاتا ہے۔ سب سے آسان درجہ براؤنز، پھر سلور، اس کے بعد گولڈ اور مشکل ترین درجہ پلاٹینم ورک شیٹ کا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اساتذہ نے ’مجھے پلاٹینم ورک شیٹ تک دے دی لیکن مجھے وہ بھی کبھی مشکل نہیں لگی۔ مجھے لگا کہ میں اس سے بڑے بڑے چیلینجز سے باآسانی نکل سکتی ہوں۔ لیکن مجھے اپنی صلاحیتیں مکمل طور پر پیش کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔‘

وہ مصنفہ بننا چاہتی تھیں کیونکہ انھیں شروع سے مطالعے کا شوق تھا۔ مگر اپنے دادا اور دادی کو بیمار حالت میں دیکھ کر انھوں نے طب کے شعبے کی طرف توجہ بڑھا دی۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ سکول کے دنوں میں تین سے چار گھنٹے پڑھائی پر صرف کرتی ہیں۔ ’مجھے پیانو بجانے کا ناصرف شوق ہے بلکہ دن بھر کی تھکن ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیانو بجا کر دور کرتی ہوں۔‘

ماہ نور یہ اعتراف کرتی ہیں کہ اس سفر کے دوران انھیں فیملی کی مکمل حمایت حاصل رہی۔

’انھوں نے یہ بھی سکھایا ہے کہ جہاں بھی چاہے خاندان میں یا باہر دوسروں کو اچھا کام کرتے دیکھیں تو ہم ان سے سیکھیں، نہ کہ ان سے حسد کریں۔‘

ماہ نور چیمہ

،تصویر کا ذریعہMahnoor Cheema

’ہمیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بلا کی ذہین ہے‘

ماہ نور کے والد بیرسٹر عثمان چیمہ بھی اپنی بیٹی کی ذہانت کے قائل ہیں اور اس کامیابی کو پورے خاندان کے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے نزدیک بیٹیوں کی کامیابی دراصل اگلی نسل کی کامیابی ہے۔‘

’اس نے یہ ریکارڈ قائم کر کے دنیا بھر کی بچیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ محنت اور لگن سے دنیا میں بہترین مقام پا سکتی ہیں۔‘

ماہ نور چیمہ اور ان کے والد

،تصویر کا ذریعہMahnoor Cheema

،تصویر کا کیپشن

ماہ نور کے والد کے مطابق انھیں بیٹی کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ اس کے بچپن سے ہی ہو گیا تھا

ماہ نور کے والد نے اپنی بیٹی کے لیے اس کے بچپن سے اب تک کبھی کوئی ہدف مقرر نہیں کیا بلکہ اس کو خود موقع دیا کہ اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بلا کی ذہین اور برائیٹ بچی ہے، تو ہم نے بھی اسے پورا موقع دیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو سامنے لے کر آ سکے اور انھیں نکھار سکے۔‘

’ماہ نور کو بچپن سے ہی نہ صرف مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا بلکہ حساب کے مضمون میں اسے عبور حاصل رہا ہے۔ جب وہ جی سی ایس ای تک پہنچی تو اس نے اپنے مضامین کا فیصلہ خود کیا اور ہمیں اس کے لیے منطق اور منفی و مثبت پوائنٹ سامنے لا کر ہمیں قائل کیا۔ ہم نے اس کے فیصلے کو مانا بھی اور سپورٹ بھی کیا۔‘

ماہ نور کے والد نے کہا کہ ’ہماری بیٹی نے ہمارے خوابوں کو سچ کر دکھایا۔ بچوں کے لیے کی گئی سرمایہ کاری کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت میری ماہ نور ہے۔‘

ماہ نور کی ذہانت کو مد نظر رکھ کر ان کے والدین نے ان کو بہتر تعلیم دینے پر اپنا تمام وقت صرف کیا۔

’ہم چیزوں کو کئی سال سے پلان کر رہے تھے۔ جب بچے ماؤں کو اپنے لیے محنت کرتے دیکھتے ہیں تو خود ان کے اندر بھی جزبہ آتا ہے کہ وہ خود کو ثابت کرتے ہیں۔‘

تو ماہ نور کے مستقبل کے لیے کیا اہداف ہیں؟ والدین کے مطابق اب ان کی بیٹی کو اے لیول کی تیاری شروع کرنی ہے۔

طیبہ نے بتایا کہ ’آگے جا کر اس کا ارادہ ڈاکٹر بننے کا ہے اور ہم بھی اس کے لیے یہی خواہش رکھتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ