وسیلی الیگزینڈرووچ: دنیا کو یقینی جوہری تباہی سے بچانے والا شخص جو گمنامی کی موت مرا

وسیلی الیگزینڈرووچ

،تصویر کا ذریعہWIKICOMMONS

،تصویر کا کیپشن

وسیلی الیگزینڈرووچ

27 اکتوبر 1962، دنیا جوہری جنگ کے دہانے پر تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کیوبا میں میزائل تنازع کسی بھی وقت جوہری جنگ میں بدل سکتا تھا۔ اس تنازع کے دوران واشنگٹن نے ماسکو سے مطالبہ کر رکھا تھا کہ وہ امریکی سرحد سے صرف 200 کلومیٹر دور کیوبا سے اپنے جوہری میزائل ہٹا لے۔

ایسے میں سوویت یونین کی آبدوزیں کیوبا کے پانیوں کے گرد موجود تھیں جن میں سے چند جوہری تارپیڈوز سے لیس تھیں۔

ان میں سے ہی ایک آبدوز میں ایک ایسا لمحہ آیا جب جوہری جنگ حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب پہنچ گئی۔ ان دنوں میں کسی بھی سوویت آبدوز میں موجود تین کمانڈرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ اگر ان پر امریکی حملہ ہوا تو کیا وہ جواب میں جوہری تارپیڈو کا استعمال کریں یا نہیں۔

اس مخصوص سوویت آبدوز میں موجود دو کمانڈرز نے یہ فیصلہ کر لیا تھا لیکن ایک تیسرے کمانڈر نے اس فیصلے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔

اس کمانڈر کا نام تھا وسیلی الیگزینڈرووچ آرخیپوو۔

ایڈورڈ ولسن، جو ’دی مڈ نائٹ‘ کتاب کے مصنف ہیں، نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص نے دنیا کو جوہری تباہی سے بچایا اور انھوں نے ماسکو کے پروٹوکول کے مطابق خود کو اس لمحے میں غلطی کرنے سے بچا لیا۔‘

سوویت یونین کے پروٹوکول یا ضابطہ کار کے مطابق جوہری تارپیڈو چلانے کے لیے تینوں کمانڈرز کا متفق ہونا ضروری تھا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ بھی چند عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ جوہری حملہ نہیں ہوا اور اسی لیے مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ وسیلی کے اس کارنامے کو زیادہ شہرت کیوں نہیں ملی۔‘

وسیلی کا انتقال 1998 میں ہوا اور اس کے بعد ہی ان کو خراج عقیدت پیش کیا جانے لگا۔ 2018 میں ایک امریکی تنظیم نے ان کو بعد از مرگ ’زندگی کا مستقبل‘ نامی ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔

27 اکتوبر، 1962

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس دن دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تنازعے کی خبر سے بیدار ہوئی۔ امریکی صدر جان کنیڈی نے اعلان کیا کہ ان کو علم ہوا ہے کہ سوویت یونین نے کیوبا کے جزیرے پر جوہری ہتھیار نصب کیے ہیں۔

یہ ہتھیار کسی بھی وقت استعمال کیے جا سکتے تھے اور امریکی سرحد سے صرف 200 کلومیٹر کی دوری پر ان کی مدد سے کسی بھی اہم امریکی شہر کو منٹوں میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

جان کنیڈی نے اسی اعلان میں دفاعی اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ سنایا۔ ان میں کیوبا کے گرد بحری جہازوں کا ایک ایسا حصار بنانے کا فیصلہ بھی شامل تھا جس کی مدد سے کیوبا کو عسکری طور پر تنہا کر دیا جاتا۔

اس فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ جوہری میزائل کو فعال کرنے کے لیے درکار سامان کو پہنچنے سے روکا جائے۔

تاہم سوویت یونین ان اقدامات سے مرعوب ہونے والا نہیں تھا۔ سوویت یونین نے پوری فوج اور اس مخصوص علاقے میں موجود تمام بیڑوں کو بھی الرٹ کر دیا۔

امریکی دستاویزات اور سوویت یونین کے بحری کپتان وادم اورلوو کی آپ بیتی کے مطابق اس دن ان کی آبدوز میں صورت حال مخدوش تھی۔ یہ آبدوز خصوصی طور پر جوہری میزائل فائر کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

شمالی سرد پانیوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بنائی جانے والی اس آبدوز کے لیے کیوبا کے قریب سمندر کا پانی بہت گرم تھا جس کی وجہ سے آبدوز کا ایئر کنڈیشنر نظام خراب ہو گیا۔ یوں آبدوز کے اندر درجہ حرارت بڑھنے لگا۔

اس سے قبل آبدوز کے کپتان ولینٹین سوٹسکی نے آبدوز کو زیادہ رفتار سے چلایا جس کی وجہ سے امریکی جنگی بحری جہاز اس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

ایڈورڈ کہتے ہیں کہ پنٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی جہاز نے آبدوز کو سمندر کی سطح پر آنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور ایمونیشن فائر کرنا شروع کر دیا۔ آبدوز تنازعے کی وجہ سے مکمل خاموشی رکھے ہوئے تھی اور اس کا سوویت ہائی کمان سے رابطہ منقطع تھا۔

ایسے میں آبدوز کے اندر موجود عملے کو لگا کہ جنگ چھڑ گئی ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

تین کا فیصلہ

اس حملے کے باعث کپتان سویٹسکی نے تین سینئر افسران کا اجلاس بلا لیا جن میں سے ایک وسیلی تھے جو ڈپٹی کمانڈر تھے۔ سمندر کی سطح سے آگ کی طرح برسنے والے گولوں سے پریشان کپتان نے کہا کہ اس صورت حال میں سب سے بہتر جواب جوہری تارپیڈو سے دیا جا سکتا ہے۔

وادم اورلوو کے مطابق سویٹسکی نے چلا کر کہا ’ان کو ابھی تباہ کر دیتے ہیں، ہم مر جائیں گے لیکن ہم ان کو ڈبو دیں گے، ہم اپنے فلیٹ میں شرمندہ نہیں ہوں گے۔‘

ایڈورڈ کہتے ہیں کہ اس وقت سوویت یونین کی آبدوز کو جوہری ہتھیار کے استعمال کے لیے ماسکو سے اجازت لینے کی پابندی نہیں تھی اور صرف تین کمانڈرز کا متفق ہونا کافی ہوتا۔

تاہم وسیلی نے کپتان کے فیصلے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔

ایڈورڈ ولسن کہتے ہیں کہ ’وسیلی واحد فرد تھا جس نے انکار کیا۔ یہ بات درست ہے کہ اس میں ان کی شہرت کا بھی عمل دخل تھا۔ ایک سال قبل انھوں نے ایک آبدوز کو اس وقت بچایا تھا جب اس کا ری ایکٹر گرم ہو گیا تھا۔‘

اس واقعے کے چند سال بعد وسیلی نے ایک رپورٹ لکھی جس میں ان وجوہات کا ذکر کیا گیا جن کی وجہ سے انھوں نے جوہری حملے کی حمایت نہیں کی۔

انھوں نے لکھا کہ مشکل صورت حال کے باوجود جب وہ اپنے بحری اڈے سے نکلے تھے تو کسی قسم کی عسکری جھڑپ شروع نہیں ہوئی تھی۔

ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کپتان کو پرسکون کروایا جو آبدوز کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بھی متاثر تھے اور یوں تیسری عالمی جنگ نہیں چھڑی جس کے نتائج تباہ کن ہوتے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کیوبا میں سوویت جوہری اڈہ

28 اکتوبر کی صبح امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت کیوبا میں میزائل اڈے کو ختم کر دیا جاتا جبکہ جواب میں امریکہ ترکی سے اپنے جوہری ہتھیاروں کا اڈہ ختم کر لیتا۔

اس وقت زیادہ تر آبدوزیں اپنے بحری اڈوں کو لوٹ گئیں۔ لیکن ایک ہیرو کی طرح کے استقبال کے بجائے الٹ ہوا۔

امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کی ڈاکومینٹری کے مطابق وسیلی کی اہلیہ اولگا نے بتایا کہ ان کے شوہر اس بات پر کافی مایوس تھے کہ ان کے فیصلے پر افسران نے منفی ردعمل دیا۔

شواہد سے علم ہوا کہ ماسکو میں ایک سینئر افسر نے آبدوز کے کمانڈرز سے کہا کہ ’فتح کے بغیر لوٹنے سے بہتر تھا کہ وہ وہیں مر جاتے۔‘

وسیلی 72 سال کی عمر میں گمنامی میں ہی انتقال کر گئے اور سنہ 2000 میں وادم اورلوو نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ اس دن جوہری تارپیڈو فائر نہ کرنے کی اصل وجہ وسیلی تھے۔

2007 میں امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کے ڈائریکٹر ٹام بلینٹن نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص نے حقیقت میں دنیا کو بچایا۔‘

ایڈورڈ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں جانتا کہ اگر جوہری جنگ چھڑ جاتی تو کیا ہوتا۔ یہ واضح ہے کہ یورپ سب سے زیادہ متاثر ہوتا کیوں کہ اس زمانے میں سوویت یونین کے پاس موجود میزائل امریکہ تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘

ایڈورڈ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وسیلی کا کردار بہت اہم تھا اور ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے جوہری جنگ روک لی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ