برکس اجلاس: کیا امریکہ کو ٹکر دینے کے لیے اس اتحاد میں توسیع ہو رہی ہے؟

برکس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سمانتھا گرانویلے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، جوہانسبرگ

چینی صدر شی جن پنگ نے ابھرتی معیشتوں کے پانچ ملکی اتحاد برکس میں توسیع کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان ممالک کے مفادات کس حد تک مشترکہ ہیں۔

جنوبی افریقہ کے تجارتی شہر جوہانسبرگ کے ایک کانفرنس سینٹر میں موجود رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ برکس عالمی امن اور ترقی کو مزید آگے بڑھائے گا۔

برکس اتحاد میں شامل ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کو اکثر مغرب کے زیر قیادت دنیا کے حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اب اس اتحاد میں اگلے برس جنوری میں چھ نئے ممالک ارجنٹینا، مصر، ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہونے جا رہے ہیں۔ چین اس اتحاد میں توسیع کے لیے کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ اس سے مغربی غلبے کو کم کر سکے۔

لندن کے سوس چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیو سانگ کا کہنا ہے کہ اگرچہ برکس کے رکن ممالک میں بظاہر زیادہ چیزیں مشترک نہیں ہیں لیکن صدر شی اپنے اتحاد میں شامل ممالک کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سب ایک جیسا مستقبل چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مغربی تسلط والی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا۔

پروفیسر سانگ کا کہنا ہے کہ ’چینی جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ ایک متبادل عالمی نظام ہے جس میں خودمختار ملک خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔‘

’وہ یورپی اور امریکی جمہوریتوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو تسلیم کیے بنا ترقی کے متبادل راستوں کی تلاش کر سکتے ہیں۔‘

برکس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’شراکت داری قائم کرنا‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس اجلاس کے میزبان جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا اس اتحاد میں نئے شامل ہونے والے ممالک کے بارے میں اعلان کرتے وقت پرجوش تھے۔

رامافوسا کا کہنا تھا کہ ’ہم دیگر ممالک کی برکس اتحاد میں شراکت داری قائم کرنے میں دلچسپی کو اہمیت دیتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس اتحاد کے مرکزی ممالک کی جانب سے رکنیت کے طریقہ کار پر متفق ہونے کے بعد مستقبل میں اس اتحاد میں مزید ممالک شامل ہوں گے۔

لیکن اس بار اس اتحاد کے مرکزی رکن ممالک میں اس بات پر اختلاف رائے تھا کہ کتنے ممالک کو کتنی جلدی اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔

پانچ ممالک کی اس اتحاد میں شمولیت کی افواہیں گردش کرنے کے بعد بدھ کو رہنماؤں کی پریس کانفرنس طے کی گئی تھی، لیکن اسے آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا۔

بدھ کو ملکی سربراہان کے عشائیے میں برازیل کے صدر لوز اناشیو ڈی سلوا غیر حاضر رہے تھے۔

ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں تھا لیکن وہ اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہیں اور دیگر ممالک کے اس اتحاد میں شامل ہونے سے متعلق تنگ مزاج ہیں۔

پھر بدھ کی رات دیر گئے، صحافیوں کو اگلی صبح سویرے کی پریس کانفرنس کے لیے ایک پیغام موصول ہوا، لیکن پھر اس میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ یہ وہ نشانیاں تھیں جن پر بات چیت آخری لمحات تک جاری تھی، کیونکہ اس اتحاد میں ایک اور یعنی چھٹے ملک کا اضافہ ہوا تھا۔

اس پریس کانفرنس میں ہر ملک کے سربراہ نے اس خبر پر اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا۔

یوکرین میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار ہونے کے خطرے کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پوتن روس سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے تھے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے ایک بار پھر مغربی طاقتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی ’نیو لبرل ازم‘ ترقی پذیر ممالک میں روایتی اقدار اور ایک کثیر قطبی دنیا کے ابھرنے کا خطرہ ہے جہاں کسی ایک ملک یا بلاک کا غلبہ نہیں ہے۔

انھوں نے کسی ملک کا نام لیے بنا واضح کیا کہ وہ کس ملک کا نام لے رہے ہیں، یعنی وہ امریکہ کی بات کر رہے تھے۔ اگرچہ دنیا کی سپر پاور امریکہ اس اجلاس میں شریک نہیں تھا لیکن اس کے متعلق یا اس کے حوالے سے کچھ بات ضرور کی گئی۔

منگل کو وائٹ ہاؤس نیشنل سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے برکس اتحاد کی توسیع کو کم اہمیت دینے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ اہم مسائل پر برکس ممالک میں اختلاف رائے کی وجہ سے وہ اسے ’امریکہ یا کسی اور ملک کے جغرافیائی سیاسی حریف کے طور پر ابھرتا ہوا نہیں دیکھتے۔‘

اور شاید وہ درست ہیں۔

واشنگٹن میں کوئنسی انسٹی ٹیوٹ میں گلوبل ساؤتھ پروگرام کے ڈائریکٹر سارنگ شیڈور کے مطابق برکس اتحاد میں شامل ہونے والے چھ نئے رکن ممالک میں سے کسی کو بھی امریکہ مخالف ریاست نہیں سمجھا جاتا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں پیغام یہ دیا گیا ہے کہ یہ ممالک کا متنوع مجموعہ ہے، ان میں سے کوئی بھی امریکہ کے قریبی اتحادی یا رسمی اتحادی نہیں ہیں، ان میں سے دو یا تین امریکہ مخالف ہوں گے۔ لیکن زیادہ وسیع پیمانے پر یہ امریکہ مخالف ریاستوں کا گروپ نہیں ہے۔‘

برکس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’امریکہ تمام قواعد و ضوابط طے نہیں کر سکتا‘

بلاشبہ برکس اتحاد میں توسیع عالمی سطح پر ایک تبدیلی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

شیڈور کا مزید کہنا ہے کہ ’اب یہ ایسی دنیا نہیں ہے جہاں امریکہ تمام اصول طے کر سکتا ہے، یا تمام اداروں کو چلا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک متبادل نہیں ہے، میں اسے متبادل کی بجائے ایک ذیلی چیز کہوں گا جو عالمی اُفق پر ابھر رہی ہے۔‘

اس لیے ایک ایسا اتحاد جو کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی رائے کی قدر کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں، شاید کوئی بھی جیتا یا ہارا نہ ہو۔ یہ واقعی صرف ایک کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر ایک سفارتی اجتماع تھا۔

روسی صدر پیوتن کو گرفتار نہیں کیا گیا اور جدید دور کی ٹیکنالوجی کی بدولت وہاں روس کی نمائندگی بھی تھی۔ چین نے اس اتحاد کی توسیع کے اپنے منصوبے کو حاصل کر لیا۔

مشترکہ کرنسی کے لیے برازیل کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ جبکہ انڈیا کو اس دوران امریکہ سے اپنے تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا۔

اور جنوبی افریقہ ایک عالمی اجلاس کی میزبانی کرنے میں کامیاب رہا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

BBCUrdu.com بشکریہ