کیا پوتن سے بغاوت کر کے یوگینی پریگوژن نے اپنی موت کو دعوت دی؟
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی کے سیکیورٹی نامہ نگار
جون کے مہینے میں بغاوت کر کے دارالحکومت ماسکو کی طرف مارچ کی قیادت کرنے کے بعد یوگینی پریگوژن کو روسی مبصرین نے ’چلتی پھرتی لاش‘ قرار دیا۔
حال ہی میں مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ کے زندہ رہنے کے امکان کے متعلق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے یہ تبصرہ دیا کہ ’اگر میں پریگوژن ہوتا تو میں اپنا کھانا (میں زہر) چکھنے والے کو فارغ نہ کرتا۔‘
اگر کبھی ثابت ہو گیا کہ روسی حکومت نے جان بوجھ کر بدلے کے طور پر یوگینی پریگوژن کے طیارے کو فضا میں تباہ کیا تو اسے روس کا سب سے تاریخی ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ بتایا جائے گا۔
پریگوژن ایک سابق سزا یافتہ مجرم تھے، اس کے علاوہ وہ شیف بھی رہ چکے تھے اور ہاٹ ڈاگز کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ ان کے ویگنر مسلح گروہ کے اندر اور باہر بہت سارے مداح ملتے ہیں۔
دو مہینے پہلے بہت سارے لوگوں نے وہ مناظر دیکھے جب ایک روزہ بغاوت کے دوران روسی شہر روستو آن ڈون کی عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا تھا لیکن ان کے ماسکو میں بہت سارے دشمن بھی تھے۔ ان میں روسی فوج کے وہ اعلیٰ سربراہان بھی شامل جن پر وہ اکثر کھل کر عوام کے سامنے تنقید کرتے تھے۔
لیکن روسی صدر ولادمیر پوتن کے خلاف جانا ان کے لیے ایک جان لیوا غلطی ثابت ہوئی۔ انھوں نے 23 جون کو ماسکو کی طرف ایک مارچ کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس وقت صدر پوتن کا براہ راست نام تو نہیں لیا تھا لیکن انھوں نے روس کی طرف سے پیش کی گئی یوکرین پر کیے جانے والے حملے کی سرکاری وجوہات پر تنقید کی جس کی وجہ سے روسی حکام سیخ پا ہو گئے۔
انھوں نے روسی عوام کو بتایا کہ ان کو گمراہ کیا گیا اور ان کے جوان یوکرین میں بُری قیادت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ یہ بات توہین کے مترادف تھی اور اس دن ویڈیو پیغام میں صدر پوتن نے ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے پریگوژن کے ماسکو کی جانب مارچ کو ’بے وفائی اور کمر میں خنجر‘ سے وار قرار دیا۔
الیگزینڈر لیتوینینکو، روسی انٹیلیجنس کے سابق افسر تھے جنھوں نے اپنے ملک سے انحراف کر لیا تھا
ولادمیر پوتن نہ غداروں کو بخشتے ہیں اور نہ ہی ایسے لوگوں کو جو انھیں چیلنج کریں۔ روسی انٹیلیجنس کے سابق افسر الیگزینڈر لیتوینینکو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ انھیں پولونیم-210 تابکاری عنصر کی مدد سے زہر دیا گیا جس کے بعد سنہ 2006 میں لندن کے ہسپتال میں وہ سست اور اذیت ناک موت کا شکار ہوئے۔
اس ہلاکت کے بعد ہونے والی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ لیتوینینکو پر حملہ کرنے والے اپنے ساتھ زہر روس سے لے کر آئے تھے اور یہ تابکار زہر انھیں صرف روس کی سرکاری لیبارٹری سے مل سکتا تھا۔ روس نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن ان دو مشتبہ افراد کو تحقیقات کے لیے دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
ایسی ایک اور مثال کے جی بی کے سابق افسر سرگئی سکریپال کی ہے۔ سنہ 2018 میں وہ اور ان کی بیٹی موت کے بہت قریب سے گزرے۔ روس کی فوجی انٹیلیجنس کے افسران نے ان کے گھر کے دروازے کے ہینڈل پر نوویچوک نروو ایجنٹ لگایا تھا۔
مقامی رہائشی ڈان سٹرجس کو ایک استعمال شدہ پرفیوم کی بوتل ملی جس میں یہ جان لیوا کیمیکل تھا اور وہ اسے اپنی کلائیوں پر لگانے سے ہلاک ہو گئیں۔
2018 میں کے جی بی کے سابق افسر سرگئی سکریپال اور ان کی بیٹی موت کے بہت قریب سے گزرے
روس کے اندر ناقدین اور کاروباری شخصیات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی اچانک سے موت ہو گئی۔ ان میں سے کچھ کی موت ’اونچی منزل کی کھڑکی سے گرنے‘ کی وجہ سے ہوئی۔
صدر پوتن کے خلاف سب سے زیادہ تنقید کرنے والے آلکسی ناوالنی قید کاٹ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف الزامات کے پیچھے سیاسی وجوہات ہیں۔ وہ بھی سنہ 2020 میں سربیا سے گزرتی ہوئی فضائی پرواز میں نوویچوک نروو ایجنٹ کے حملے سے ہلاک ہوتے ہوتے بچ گئے تھے۔
لیکن پریگوژن کا معاملہ ان سب سے کافی مختلف ہے۔ وہ روسی حکومت کے بہت قریب تھے اور بہت ساری روسی عوام انھیں ہیرو کے طور پر دیکھتی تھی۔
سنہ 2014 میں انھوں نے اپنی نجی مسلح گروہ کی کمپنی ویگنر کا آغاز کیا۔ اس میں روس کی سپیشل فورسز کے اہلکار اور دیگر فوجی بھرتی ہوئے۔ یہ مشرقی یوکرین میں بہت سرگرم رہے جہاں انھوں نے بخموت سے یوکرینی فوج کا انخلا کروایا۔ اس عمل کی وجہ سے ان کے بارے میں ایک خوفناک رائے بن گئی، جو خستہ حال اور کمزور قیادت والی روسی فوج کے بارے میں قائم نہیں۔
ویگنر میں مسلح افراد کی تعداد میں مزید اضافہ تب ہوا جب پریگوژن نے خود روسی جیلوں کا دورہ کر کے ہزاروں مجرموں کو بھرتی کیا تھا۔ ان میں ریپ اور قتل کے مجرم بھی شامل تھے۔
ان کو مشرقی یوکرین میں توپ کے بارود کی طرح استعمال کیا گیا، جہاں انھوں نے کمانڈروں کو دشمن کی صفوں کو زیر کرنے کی بار بار کوششوں میں آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
ویگنر کئی سال سے شام میں بھی کام کر رہی ہے لیکن افریقہ وہ جگہ ہے جہاں اس نے روس کے لیے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یوگینی پریگوژن نے ایک ایسا بے رحم کاروباری ماڈل متعارف کروایا، جو غیر جمہوری حکومتوں میں بہت مقبول ہوا ہے۔
ویگنر نے متعدد ’سکیورٹی سروسز‘ دیں ہیں جن میں اہم افراد کی سکیورٹی سے لے کر انتخابات پر اثر انداز ہونے اور ناقدین کو خاموش کرنے تک کے کام شامل ہیں اور اس کے بدلے میں انھوں نے متعدد افریقی ممالک میں معدنیات نکالنے کے حقوق کے علاوہ سونے اور دوسرے قیمتی دھاتوں تک رسائی حاصل کی ہے۔
ویگنر کے اہلکاروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جن میں مالی اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں ہونے والے قتل عام شامل ہیں۔ اس کے باوجود وہ افریقی براعظم کے ایک بڑے حصے میں فرانسیسی اور دیگر مغربی افواج کی جگہ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اسی ہفتے پریگوژن کی ایک ویڈیو ٹیلی گرام چینل پر آئی، جسے مالی کے ایک بیس میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں انھوں نے وعدہ کیا کہ افریقہ میں ویگنر کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور اس کے باشندوں کو ’آزادی‘ ملے گی۔
اس سب کے باوجود روسی میں ایسے لوگ موجود ہیں، خصوصاً عسکری انٹیلیجنس میں، جو پریگوژن کو ایک بوجھ اور صدر پوتن کے اقتدار اور ان کے گرد چلنے والے نظام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
Comments are closed.