سعودی سرحدی محافظوں کے ہاتھوں سینکڑوں تارکین وطن کا مبینہ قتل: گلی سڑی لاشیں، تازہ قبریں اور گولیوں کی بوچھاڑ
سعودی سرحدی محافظوں کے ہاتھوں سینکڑوں تارکین وطن کا مبینہ قتل: گلی سڑی لاشیں، تازہ قبریں اور گولیوں کی بوچھاڑ
- مصنف, پال ایڈمز
- عہدہ, سفارتی نمائندہ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں سعودی عرب کے سرحدی محافظوں پر یمن کے ساتھ سرحد پر تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں افراد، جن میں اکثریت اُن ایتھوپیائی باشندوں کی ہے جو جنگ زدہ یمن کی سرحد عبور کر کے سعودی عرب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
تارکین وطن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے اعضا گولیاں لگنے سے شدید متاثر ہوئے جبکہ انھوں نے راستوں پر بہت سے تارکین وطن کی گولیوں سے چھلنی لاشیں دیکھی ہیں۔
سعودی عرب اس سے قبل اس نوعیت کے منظم قتل کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے ’دے فائرڈ آن اس لائیک رین‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ تارکین وطن کی جانب سے ملنے والی شہادتوں پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ یمن کی سرحد پر سعودی پولیس اور فوجیوں نے ان پر گولیاں برسائیں اور کئی بار دھماکہ خیز ہتھیاروں سے انھیں نشانہ بنایا۔
بی بی سی نے کئی تارکین وطن سے الگ الگ رابطہ کیا جس میں انھوں نے رات کے اوقات میں سرحد عبور کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔ ان کے مطابق بڑے گروپس کی شکل میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران یہ تارکین وطن فائرنگ کی زد میں آئے۔ ان گروپس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
یہ افراد تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب میں کام کی تلاش میں سرکرداں تھے۔
21 سالہ مصطفیٰ محمد نے بی بی سی کو بتایا: ’گولیاں چلتی رہیں، اور مسلسل چلتی رہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے گذشتہ سال جولائی میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تو ان کے گروپ میں موجود 45 تارکین وطن فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔
مصطفیٰ کو بھی اس رات گولی لگی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’پہلے مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ مجھے گولی لگ چکی ہے، لیکن جب میں نے اٹھ کر چلنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ میری ایک ٹانگ میرے جسم کا ساتھ نہیں دے رہی۔‘
یہ یمنی اور ایتھوپیا کے انسانی سمگلروں کے ہاتھوں پُرخطر، بھوک اور تشدد سے بھرپور تین ماہ کے سفر کا ایک سفاکانہ اور افراتفری بھرا خاتمہ تھا۔
اس واقعے کے گھنٹوں بعد فلمائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مصطفیٰ کا بایاں پاؤں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہے جس کے باعث ان کی ٹانگ کو بعدازاں گھٹنے کے نیچے سے کاٹنا پڑا تھا اور اب وہ ایتھوپیا میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور بیساکھیوں اور خراب کوالٹی کی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں۔
مصطفیٰ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں سعودی عرب گیا تھا کیونکہ میں اپنے خاندان کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا تھا۔ لیکن جس کی مجھے امید تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ اب میرے والدین میرے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔‘
مصطفی کا کہنا ہے کہ ان پر سعودی سرحد کے نزدیک حملہ ہوا جس میں ان کی ٹانگ ضائع ہوئی
’قتل گاہ‘
کچھ زندہ بچ جانے والے گہرے صدمے سے دوچار ہیں۔
یمنی دارالحکومت میں رہنے والی زہرہ بمشکل اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ 18 سال کی ہیں لیکن وہ اپنی عمر سے کم عمر نظر آتی ہیں۔ ہم ان کے تحفظ کے لیے ان کا اصلی نام استعمال نہیں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے ایک ایسے سفر پر تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ڈالر تاوان اور رشوت کی مد میں خرچ ہوئے جس کا اختتام پر سرحد پر ہونے والی گولیوں کی برسات پر ہوا۔
ان کے ایک ہاتھ پر لگنے والی گولی کے نتیجے میں ان کی تمام انگلیاں ختم ہو گئیں۔ جب بی بی سی کی جانب سے اُن کے زخموں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ دوسری طرف دیکھنے لگيں اور شدت جذبات کے باعث جواب نہیں دے سکیں۔
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق ہر سال 200,000 سے زیادہ لوگ ہارن آف افریقہ سے یمن تک سمندری راستے سے گزرتے ہوئے خطرناک سفر کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سعودی عرب جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو راستے میں قید و بند اور مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سمندر کے راستے سفر کرنا کافی خطرناک ہے۔ گذشتہ ہفتے جبوتی کے ساحل پر بحری جہاز کے الٹ جانے سے 24 سے زائد تارکین وطن لاپتہ ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب: تارکین وطن کے مسائل میں اضافہ
سعودی عرب کا جدید روپ: اب کے ریاض اور ماضی کے ریاض میں کیا فرق ہے؟
اور یمن میں تارکین وطن کے اہم راستے ایسے لوگوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں جو راستے میں ہی مر گئے ہیں۔
دو سال قبل دارالحکومت صنعا میں ایک حراستی مرکز میں آگ لگنے سے درجنوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ یمن کا درالحکومت ملک کے حوثی باغیوں کے زیر انتظام ہے اور وہ شمالی یمن کے بیشتر حصے پر قابض ہیں۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ میں بیان کردہ زیادتیاں پیمانے اور نوعیت میں مختلف ہیں۔
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ نادیہ ہارڈمین نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے جو دستاویز تیار کی ہے وہ بنیادی طور پر اجتماعی قتل کی دستاویز ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘لوگوں نے ایسے مقامات کے بارے میں بتایا جیسا کہ وہ قتل گاہیں ہوں جن پر لاشیں بکھری پڑی ہیں۔‘
یہ رپورٹ گذشتہ سال یعنی مارچ 2022 سے رواں سال جون تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے 28 الگ الگ واقعات اور قریب سے فائرنگ کے 14 واقعات کی تفصیلات شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سینکڑوں واضح تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں جو مجھے زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے بھیجی گئی ہیں۔ ان میں بہت خوفناک زخموں اور دھماکے سے ہونے والے زخموں کو دکھایا گیا ہے۔‘
رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں کے دور دراز ہونے اور زندہ بچ جانے والوں کے راستوں کا سراغ لگانے میں دشواری کی وجہ سے یہ جاننا ناممکن ہو جاتا ہے کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔
نادیہ ہارڈمین نے کہا کہ ’ہم کم از کم 655 افراد کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ہزاروں میں ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم نے حقائق کی روشنی میں یہ ظاہر کیا ہے کہ بدسلوکی کے واقعات وسیع اور منظم ہیں اور یہ انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتے ہیں۔‘
شمالی سرحد کے ساتھ سعودی سکیورٹی فورسز کی طرف سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی رپورٹیں گذشتہ اکتوبر میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے ریاض میں حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں سامنے آئی تھیں۔
انھوں نے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے کہ ‘یہ بڑے پیمانے پر سرحد پار سے بلاامتیاز ہلاکتوں کا ایک منظم نمونہ معلوم ہوتا ہے جس میں سعودی سکیورٹی فورسز کی طرف سے تارکین وطن کے خلاف توپ سے گولہ باری کی گئی ہے اور چھوٹے ہتھیار سے فائرنگ ہوئی ہے۔‘
الزامات کی خوفناک نوعیت کے باوجود خط پر توجہ نہیں دی گئی۔
سعودی عرب کی تردید
سعودی حکومت نے کہا کہ اس نے الزامات کو سنجیدگی سے لیا ہے لیکن اقوام متحدہ کے اس بیان کو سختی سے مسترد کر دیا کہ یہ قتل منظم یا بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں۔
حکومت نے جواب دیا کہ ’فراہم کردہ محدود معلومات کی بنیاد پر مملکت کے اندر حکام کو الزامات کی تصدیق یا توثیق کے لیے کوئی معلومات یا شواہد نہیں مل سکے۔‘
لیکن پچھلے مہینے ایک عالمی تحقیقی نیٹ ورک ’مکسڈ مائیگریشن سینٹر‘ نے زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر سرحد کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کے مزید الزامات شائع کیے ہیں۔
ان کی رپورٹ میں سرحدی علاقے میں بکھری پڑی سڑی ہوئی لاشوں کی تصویری وضاحتیں شامل ہیں کہ کس طرح سعودی سرحدی محافظ پکڑے گئے تارکین وطن سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس ٹانگ میں گولی کھانا چاہتے ہیں۔ اور خوفزدہ لوگوں کے بڑے گروہوں پر حملہ کرنے کے لیے مشین گنوں اور مارٹرز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ ابھی تک سب سے زیادہ مفصل ہے۔ اس میں متعدد عینی شاہدین کے بیانات اور سرحد عبور کرنے کے مقامات کی سیٹلائٹ تصویریں ہیں، جہاں کہا جاتا ہے کہ بہت سی ہلاکتیں ہوئیں، ساتھ ہی عارضی تدفین یا قبروں کو بھی دکھایا گیا ہے۔
رپورٹ میں یمن کے بالکل اندر منابیح میں ایک حراستی مرکز کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں تارکین وطن کو مسلح سمگلروں کے ذریعے سرحد تک لے جانے سے پہلے رکھا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے انٹرویو کیے گئے ایک تارک وطن کے مطابق یمن کے حوثی باغی منابیح میں سکیورٹی کے انچارج ہیں اور سمگلروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
ایک سیٹلائٹ تصویر میں روشن نارنجی خیمے دکھائے گئے ہیں جو ایک احاطہ بند کمپاؤنڈ کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔
تازہ قبریں
خیال رہے کہ ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں رواں سال جون تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن بی بی سی کو پتا چلا ہے کہ ہلاکتیں اب بھی جاری ہیں۔
بی بی سی کی طرف سے دیکھی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ شمالی شہر صعدہ میں سرحد پر زخمی تارکین وطن ہسپتال پہنچ رہے ہیں اور قریبی قبرستان میں تدفین ہو رہی تھی۔
بی بی سی نے اقوام متحدہ کے نمائندوں، مکسڈ مائیگریشن سینٹر اور ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں تبصرے کے لیے سعودی حکومت سے رابطہ کیا ہے لیکن اسے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
Comments are closed.