کافی صحت کے لئے بہتر ہے یا مضر صحت، اس حوالے سے کئی سائنسدانوں نے مختلف تحقیقات انجام دی ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق مطالعات سے واضح ہوا ہے کہ کافی کا ضرورت سے زیادہ استعمال دل، فالج اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
دوسری جانب بعض محققین کے مطابق کافی پینے کے متعدد فوائد ہیں، یہ کینسر جیسے موذی مرض میں بہتر ثابت ہوتی ہے، ٹائپ 2 ذیابطیس اور دل کے مختلف امراض کا خطرہ کم کرتی ہے، اکثر افراد اسے موڈ بہتر کرنے اور فوری توانائی حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دن میں کتنی کافی پینا صحت کے لئے فائدے مند ثابت ہوسکتی ہے۔
امریکی ماہرین کے مطابق مختلف تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روز مرہ کے معمول میں کافی کا استعمال صحت کے لئے بُرا نہیں لیکن وہ افراد جو کیفین والے مشروبات کا استعمال نہیں کرتے وہ کسی بھی وجہ سے اس کا استعمال ہرگز شروع نہ کریں۔
امریکی ماہرین کے مطابق جو افراد اپنے روز مرہ کے معمول میں کافی کا عام استعمال کرتے ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پر صرف 400 ملی گرام یعنی 8 اونس کے تقریبا چار یا پانچ کپ لیں۔
ماہرین کے مطابق اگر کوئی شخص دن میں تقریبا 12 کپ کافی استعمال کرتا ہے تو اسے دل کی بے ترتیب دھڑکن یا الٹی جیسی علامات محسوس ہوسکتی ہیں تاہم 400 ملی گرام کافی سے اینزائٹی اور نیند میں کمی جیسے اثرات ظاہر ہونگی۔
امریکی محققین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مختلف افراد میں کافی کی مختلف مقدار برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے بعض افراد ایک یا دو کپ سے زیادہ کافی کا استعمال برداشت نہیں کرسکتے جبکہ حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کے لئے بہتر ہے کہ وہ 200 ملی گرام سے زیادہ کافی کا استعمال نہ کریں کیونکہ کیفین نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی وزن میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔
محققین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بھی کیفین والے مشروبات کے استعمال میں کمی لانی چاہئے کیونکہ جسم میں بعض کیمیکلز اور خوراک ایسی ہوتی ہیں جنہیں برداشت کرنے کی صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتی ہے۔ اس کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں کہ اگر کیفین کی ہدایت کردہ مقدار کے استعمال کے باوجود بھی تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو مزید کیفین کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔
خیال رہے کہ ماہرین نوعمر بچوں کے لئے کیفین یا کسی بھی طرح کے انرجی ڈرنکس کا استعمال تجویز نہیں کرتے جبکہ نوجوانوں کے لئے یہ مقدار 100 ملی گرام مقرر ہے۔
Comments are closed.