جنرل عمر چیانی کون ہیں اور انھوں نے نائجر میں اپنے ہی صدر کا تختہ کیوں الٹایا؟

جنرل عبد الرحمٰن چیانی، عمر چیانی، نائجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, روبرٹ پلمر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

جنرل عبد الرحمٰن چیانی، جنھیں عمر چیانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ایک فوجی بغاوت کی سربراہی کرتے ہوئے نائجر کی حکومت کا تخت الٹا دیا ہے اور وہ خود اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں۔

انھوں نے بدھ کے روز جمہوری طور پر منتخب صدر محمد بازوم کو اقتدار سے ہٹا دیا اور اس کے ساتھ ہی عبد الرحمان چیانی کو ملٹری جُنتا کا رہنما نامزد کیا گیا۔

خیال رہے کہ نائجر کے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد بازوم کو انھی لوگوں نے معزول کر دیا ہے جنھیں ان کے دفتر کی حفاظت اور ان کی حکومت کو برقرار رکھنے کام سونپا گيا تھا اور صدارتی محافظ جو ان کے محل کے باہر نگرانی کر رہے تھے، وہ بس تماشائی بنے رہے۔

62 سالہ جنرل چیانی سنہ 2011 سے صدارتی گارڈ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔

700 افراد پر مشتمل یہ صدارتی فورس معزول صدر کے پیشرو محمدو اسوفو نے فوجی قبضے سے بچانے کے لیے قائم کی تھی۔

جنرل چیانی کو اسوفو کے خلاف سنہ 2015 میں ہونے والی بغاوت کی کوشش سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن سنہ 2018 میں ایک عدالتی فیصلے نے انھیں تمام الزامات سے بری کیا تھا۔

نائجر کے صدر بازوم

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

نائجر کے صدر بازوم

سنہ 2018 میں اسوفو نے جنرل چیانی کو ترقی دے کر جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا تھا۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

نائجر کے نجی اخبار لا انکوئٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق تختہ الٹنے سے قبل صدر بازوم نے جنرل کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔

صدر بازوم نائجر میں سنہ 1960 میں آزادی کے بعد منتخب ہونے والے پہلے صدر تھے جنھوں نے کسی صدر کی جگہ لی۔ اب ان کے اغوا کاروں نے ملک کے آئین کو معطل کر دیا ہے اور جنرل عمر چیانی کو ریاست کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

نائجر افریقہ کا ایک اہم خطہ ہے جسے ساحل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زمین کی ایک پٹی ہے جو بحر اوقیانوس سے بحیرہ احمر تک پھیلی ہوئی ہے۔ انتہا پسندوں کے حملوں سے دوچار یہ علاقہ فوجی حکومتوں کی قیادت میں رہا ہے۔

مغربی ممالک نے نائجر کو خطے میں مزید انتشار اور روسی اثر و رسوخ کو پھیلانے کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر سمجھا تھا لیکن یہ دیر پا ثابت نہیں ہوا۔

ادھر جمعے کو نیشنل ٹی وی پر اپنے خطاب میں جنرل چیانی نے کہا کہ فوج نے نائجر میں عدم استحکام، معاشی مشکلات اور کرپشن کی وجہ سے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج انسانی حقوق سمیت عالمی سطح پر کیے گئے تمام وعدوں کا احترام کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مخالفین غیر ملکی سفارتخانوں میں فوج کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور ایسی کوئی بھی کوشش فسادات کا باعث بنے گی جسے روکنا ہوگا۔

نائجر

،تصویر کا ذریعہAFP

دنیا کو نائجر کی پرواہ کیوں کرنی چاہیے؟

مغربی افریقہ کے سب سے بڑے ملک کے طور پر، یہ کئی طریقوں سے ایک راہ نما ریاست ہے۔

سیاسی طور پر اسے حالیہ برسوں میں نسبتاً جمہوری استحکام کی ایک مثال کے طور پر دیکھا گیا جبکہ اس کے پڑوسی ممالک مالی اور برکینا فاسو پہلے ہی فوجی بغاوتوں کا شکار ہو چکے تھے۔

عسکری طور پر یہاں فرانسیسی اور امریکی فوجی اڈے ہیں اور اسے اسلام پسند باغیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

درحقیقت امریکی محکمہ خارجہ نے نائجر کو ‘ساحل میں استحکام کے لیے اہم’ اور دولت اسلامیہ یا القاعدہ سے منسلک مختلف اسلام پسند گروپوں کے خلاف ‘انسداد دہشت گردی کا ایک قابل اعتماد ساتھی’ قرار دیا ہے۔

اقتصادی طور پر یہ یورینیم سے مالا مال ملک ہے اور دنیا بھر کی سپلائی کا سات فیصد یہاں پیدا ہوتا ہے۔ ملک کی معیشت میں تابکار دھات اتنا زیادہ ہے کہ دارالحکومت نیامی کی سب سے بڑی سڑکوں میں سے ایک کو ‘ایونیو ڈی ایل یورینیم’ کا نام دیا گیا ہے۔

اس کے باوجود نائجر کے لوگوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ غریب لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

بغاوت اعلان

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

تختہ الٹنے کا اعلان نیشنل ٹی وی پر کیا گيا

بغاوت کیوں ہوئی؟

یہ ساحل دنیا کا ایک ہنگامہ خیز اور غیر مستحکم خطہ ہے اور اس وقت وہاں جمہوریت شکست سے دو چار ہے۔

مالی، نائجر اور برکینا فاسو کے درمیان سہ فریقی سرحدی علاقے میں اسلام پسند گروہوں نے علاقے کو کنٹرول کر کے اور حملے کر کے زمین حاصل کر لی ہے۔

نائجر میں باغی فوجیوں نے سلامتی کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو اپنی بغاوت کی ایک وجہ قرار دیا ہے حالانکہ بغاوت سے قبل نائجر پڑوسی ممالک مالی اور برکینا فاسو سے کہیں زیادہ بہتر طور پر شورشوں سے نمٹ رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بڑھتی ہوئی بدامنی نے بہت سے لوگوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ صرف سخت فوجی کریک ڈاؤن ہی وہاں کے مسئلوں کا حل ہیں، اس لیے کچھ حلقوں میں بغاوت کو عوامی حمایت نظر آتی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ فوجی جُنتا کو باغیوں سے نمٹنے میں حال ہی میں معزول حکومت کے مقابلے میں زیادہ کامیابی ملے گی یا نہیں کیونکہ پڑوسی ممالک میں فوجی قبضے سے زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔

خطے میں عدم استحکام میں اضافے ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی بھی ہے جہاں صحرائی زمین صحارا سے جنوب میں ساحل تک پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ساحل میں درجہ حرارت دنیا کی کسی بھی جگہ کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

بغاوت کے حامیان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بغاوت پر بین الاقوامی ردعمل کیا ہے؟

فرانس جو وہاں پہلے نوآبادیاتی طاقت رہ چکا ہے وہ اس ملک پر فوجی قبضے کی مذمت میں سخت ہے۔

فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بازوم ملک کے واحد رہنما ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ فرانس ‘جنرل چیانی کی قیادت میں آنے والے حکام کو تسلیم نہیں کرتا۔’

فرانس نے نائجر میں آئینی نظام اور جمہوری طور پر منتخب سویلین حکومت کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ افریقی یونین، مغربی افریقی علاقائی بلاک ایکواس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بغاوت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

فوجی بغاوت کے حق میں صرف ایک آواز اٹھتی نظر آتی ہے اور وہ آواز روس کے ویگنر کرائے کے گروپ کے رہنما یوگینی پریگوزن کی ہے۔ انھوں نے مبینہ طور پر اسے فتح قرار دیا ہے۔

ویگنر سے وابستہ ٹیلیگرام چینل پر ان کے حوالے سے کہا گيا ہے کہ ‘نائجر میں جو کچھ ہوا وہ نائجر کے لوگوں کی ان کے نوآبادکاروں کے خلاف جدوجہد کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’ بہر حال ان کے تبصروں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بغاوت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بغاوت کے حمایتی روسی پرچم لہرا رہے ہیں

اس کا روس اور ویگنر سے کیا تعلق ہے؟

جہادی گروپوں کے ساتھ ساتھ ویگنر کے کرائے کے فوجیوں کو نائجر میں اپنے اثر و رسوخ استعمال کرتے دیکھا گیا ہے، حالانکہ وہ خطے میں کہیں اور سرگرم ہیں۔ بغاوت کے کچھ حامیوں کو نائجر کے ساتھ روسی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

بغاوت سے پہلے صدر بازوم نے اپنی حکومت کے خلاف ویگنر کی طرف سے ‘غلط معلومات کی مہم’ چلانے کی شکایت کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح ویگنر نے دیگر افریقی ممالک میں معدنی وسائل کو اپنی کارروائیوں کے لیے فنڈ دینے کے لیے استعمال کیا ہے، نائجر میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیں گے۔

لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ صدر بازوم کا تختہ الٹنے میں ویگنر فورس کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ نے وہاں کے حالات کو نازک بتایا ہے۔

اب یہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ نائجر کی نئی قیادت اپنے مغربی اتحادیوں سے دور ہو کر روس کے قریب ہو سکتی ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ برکینا فاسو اور مالی کے نقش قدم پر چلے گا کیونکہ دونوں اپنی اپنی فوجی بغاوتوں کے بعد سے ماسکو کی طرف راغب ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ