اغوا کے بعد قتل ہونے والی آٹھ سالہ بچی کی آخری رسومات ادا کرنے والے شخص کا 48 سال بعد اعتراف جرم

گریچن ہیرنگٹن

،تصویر کا ذریعہDELAWARE COUNTRY DISTRICT OFFICE ATTORNEY’S OFFICE

  • مصنف, سیم کابرال
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

امریکہ میں ایک ریٹائرڈ چرچ پادری، جنھوں نے ایک آٹھ سالہ بچی کے اغوا اور قتل کے بعد اس کا جنازہ پڑھایا تھا، پر اس کیس میں قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔

گریچن ہیرنگٹن صرف آٹھ سال کی تھیں جب 15 اگست 1975 کے دن ایک بائبل کیمپ میں شمولیت کے لیے گھر سے نکلنے کے بعد لاپتہ ہو گئی تھیں۔

وہ فلاڈیلفیا میں مارپل ٹاون شپ کے مضافاتی علاقہ کی رہائشی تھیں۔

تاہم 48 سال بعد ایک خاتون نے، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، تفتیش کاروں کو بتایا کہ ان کے خیال میں ان کی سب سے اچھی سہیلی کے والد اس کیس کے مجرم تھے۔

اس شخص کا نام ڈیوڈ زاندراسٹا ہے جو اب 83 سال کے ہیں۔ ان کو ایک کم عمر بچی کے اغوا اور قتل کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ڈیلاویئر کاونٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی جیل سٹولسٹائمر نے سوموار کے دن صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’تمام والدین کے ڈراؤنے خواب جیسا ہے۔‘

’اس نے ایک آٹھ سالہ بچی کو قتل کیا جسے وہ جانتا تھا، جو اس پر اعتماد کرتی تھی اور پھر اس نے ایسا برتاؤ کیا جیسے وہ اس کے خاندان کا دوست ہے، اس کی تدفین کے دوران ہی نہیں بلکہ کئی برس تک۔‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس کیس میں دلچسپی حال ہی میں دوبارہ سے اس وقت پیدا ہوئی تھی جب گزشتہ سال ’مارپلز گریچن ہیرنگٹن ٹریجڈی: کڈنیپنگ، مرڈر اینڈ انوسنس لاسٹ ان سبربن فلاڈلفیا‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی۔

1975 میں ڈیوڈ مقامی چرچ میں پادری تھے جہاں موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران ہر صبح بائبل کیمپ منعقد ہوتا تھا جس کے بعد وہ بچوں کو ایک دوسری چرچ لے کر جاتے تھے تاہم اس دن گریچن چرچ نہیں پہنچیں اور ڈیوڈ نے ہی پولیس کو اس کی گمشدگی کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

دو ماہ بعد گریچن کی باقیات ایک قریبی علاقے سے ملی تھیں۔

سی بی ایس نیوز، جو امریکہ میں بی بی سی کا پارٹنر ادارہ ہے، کو ذرائع نے بتایا ہے کہ ملزم ڈیوڈ گریچن کے اہلخانہ سے واقفیت رکھتا تھا اور اس نے گمشدگی کے بعد ان کو گریچن کی تلاش کی کوششوں میں مدد فراہم کی جبکہ بعد میں آخری رسومات بھی اسی نے بطور پادری ادا کیں۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ نے گریچن کو اس وقت اپنی گاڑی میں بلایا جب اس دن وہ اپنے گھر سے نکلی۔ گریچن کے والد اسے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور جیسے ہی گریچن ان کی نظروں سے دور ہوئی، ڈیوڈ نے اسے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔

ڈیوڈ زانڈراسٹا

،تصویر کا ذریعہDELAWARE COUNTRY DISTRICT ATTORNEY’S OFFICE

،تصویر کا کیپشن

1975 میں ڈیوڈ مقامی چرچ میں پادری تھے جہاں موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران ہر صبح بائبل کیمپ منعقد ہوتا تھا

اس وقت جب تفتیش ہوئی تو ایک عینی شاہد نے بتایا تھا کہ اس نے گریچن کو ایک ڈرائیور سے بات چیت کرتے دیکھا تھا جس کی گاڑی ڈیوڈ کی ہرے رنگ کی سٹیشن ویگن جیسی ہی تھی۔

تاہم جب پولیس نے ڈیوڈ سے سوالات کیے تو اس نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس دن گریچن کو اس نے دیکھا ہی نہیں۔

رواں سال جنوری میں تفتیش کاروں نے ڈیوڈ کی بیٹی کی سب سے اچھی سہیلی سے بات کی جس نے ان کو بتایا کہ وہ اکثر ڈیوڈ کے گھر پر سو جایا کرتی تھیں اور 10 سال کی عمر میں ایک دن اچانک ان کی آنکھ کھلی تو پادری ان کے جسم کو چھو رہا تھا۔

اس خاتون نے پولیس کو اپنی ڈائری میں اس سال لکھی گئی ایک تحریر بھی دکھائی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’میرا خیال ہے اسی نے گریچن کو اغوا کیا ہے، میرا خیال ہے وہ مسٹر زیڈ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پادری ڈیوڈ گزشتہ برسوں میں اپنی رہائش کا مقام بدلتے رہے اور کیلیفورنیا اور ٹیکساس کے بعد اب جیورجیا میں رہائش پذیر تھے جہاں سے پنسلوینیا پولیس نے ان کو گرفتار کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔

ڈیوڈ کو ایک مقامی جیل میں رکھا گیا ہے اور ان کو پنسلوینیا ریاست منتقل کیا جائے گا۔

کتاب کی مصنفہ جوانا فیلکونی سلیوان نے بی بی سی کو بتایا کہ مائیک میتھیاس کے ساتھ مل کر تحریر کتاب نے اس جرم میں نئے شواہد کو منظر عام پر لانے میں مدد دی۔

انھوں نے بتایا کہ کتاب کے لیے انھوں نے ڈیوڈ کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ ان کے مطابق ’وہ ایسا برتاؤ کر رہا تھا جیسے اس صبح کی باتیں اسے یاد نہیں۔ اس کی بیوی کو سب کچھ یاد تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کہانی نے مقامی کمیونٹی کو بہت متاثر کیا۔ ’اس جرم کی باتیں اب بھی مقامی فیس بک گروپ میں ہوتی ہیں۔‘

جس پولیس والے کے سامنے ڈیوڈ نے اعتراف جرم کیا، اس کا کہنا تھا کہ ملزم اعتراف کے بعد پرسکون تھا۔

یوجین ٹرے نے بتایا کہ ’میں نہیں جانتا کہ وہ اپنے کیے پر نادم ہے یا نہیں لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے کندھوں سے کوئی بوجھ ہٹ گیا ہو۔‘

گریچن کے اہلخانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈیوڈ کی گرفتاری ’انصاف سے ایک قدم قریب ہونے جیسا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’اگر کوئی گریچن سے ملتا تو فوراً اس کا دوست بن جاتا۔ وہ ہر کسی سے بہت نرم دلی سے پیش آتی تھی۔‘

’اب بھی جب لوگ اس کو یاد کرتے ہیں تو سب سے پہلی بات وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ کتنی اچھی تھی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں اس نے اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر اتنا گہرا اثر چھوڑا تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ