کیا ترکی کی ابتر ہوتی معاشی صورتحال صدر اردوغان کو مغرب کی جانب دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے؟
- مصنف, وکٹوریا کریگ
- عہدہ, بی بی سی، انقرہ
صدر اردوغان نے اپنے نیٹو اتحادیوں کو اُس وقت حیران کر دیا جب پیر کو انھوں نے اچانک سے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست پر اپنے دیرینہ اعتراضات کو اچانک مسترد کر دیا۔ اس سے قبل لتھوانیا پہنچنے سے چند گھنٹے قبل، انھوں نے سوئیڈن پر دہشت گردی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکامی پر تنقید کی تھی۔
ان کے رویے میں اچانک تبدیلی یہ واضح کرتی ہیں کہ نومنتخب صدر اردوغان کس قدر مغرب سے اپنے تعلقات بہتر کرنا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں ترکی کے ساتھ معاشی اختلافات کے باعث وہاں سرمایہ کاری روک رکھی ہے۔
صادق انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک سے منسلک سیاسی تجزیہ نگار باتو کوشکن کا کہنا ہے کہ ’یہ اردوغان کے رویے میں آنے والی غیر متوقع تبدیلی ہے۔ کوئی اور سیاسی لیڈر ہوتا تو اپنے فیصلے سے پھرنے پر اس نقصان کا سامنا ہوتا لیکن انھیں اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔‘
اور یہ اس لیے ہے کیونکہ انھوں نے اپنے اس فیصلے کے بدلے سویڈن، امریکہ، نیٹو اور حتیٰ کہ یورپی یونین سے یقین دہانیاں لی ہیں۔
ترکی اب طویل انتظار کے بعد امریکہ سے ایف 16 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، اور صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ برسلز، انقرہ کی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست اور ویزوں کے حصول سے متعلق عمل کو آسان بنانے کے بارے میں ’مثبت‘ ہے۔
لیکن اتنی جلدی ان کے خیالات میں تبدیلی اس بات کی عکاس ہے کہ وہ امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو تعمیری انداز میں بہتر بنانا چاہتے ہیں جو برسوں سے ترکی میں جمہوریت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں، برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک اور جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ اُن کی کئی تصاویر سامنے آئی۔
جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن جنھوں نے برسوں صدر اردوغان کو فاصلے پر رکھا، کی صدر اردوغان کے ساتھ دو طرفہ ملاقات بھی نمایاں رہی۔
سیاسی تجزیہ نگار باتو کوشکن کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں انتخابات کے بعد صدر اردوغان روس اور مغرب دونوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں زیادہ بااعتماد ہو گئے ہیں۔‘
’مگر ملک سے باہر وہ جتنے بھی بااعتماد ہوں، ملک میں انھیں گرتی معیشت کی بحالی کو فوری سہارا دینے کی مشکل کا سامنا ہے۔ مئی میں ان کے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے کانٹے دار مقابلے میں یہ سب سے بڑا ایشو تھا۔‘
ایک بیگل نما پیسٹری جسے سمتس کہا جاتا ہے، بنانے والے بیکر برہان مورکوک کا کہنا ہے کہ ’کاروبار چل نہیں پا رہا۔ سب کچھ بہت مہنگا ہو چکا ہے، جو لوگ پہلے دو (سمتس) خریدتے تھے، وہ اب ایک خریدتے ہیں۔ اب چیزوں کی طلب میں کمی آئی ہے۔‘
اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ کیونکہ ملک میں مہنگائی کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں یہ شرح 85 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔
رواں موسم گرما کے دوران ملکی کرنسی لیرا کی ڈالر کے مقابلے قدر میں ریکارڈ گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
جہاں دنیا بھر میں ممالک کے مرکزی بینکوں نے بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں صدر اردوغان نے اس اقتصادی رویے کی مزاحمت کرتے ہوئے دلیل دی کہ زیادہ شرح سود قیمتوں کو مزید اوپر لے جائے گی۔ اس کے برعکس انھوں نے ترکی کے مرکزی بینک پر کم شرح سود پر قرض دینے کا بوجھ ڈالا تھا۔
برہان اپنے تین بھائیوں کے ساتھ مل کر استنبول کے ایک علاقے میں اپنی چھوٹی سی بیکری چلاتے ہیں۔ وہ ملک میں بڑھتی مہنگائی سے متعلق شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں گذشتہ ایک سال کے دوران دکانوں کے کرائے 400 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران بیکری میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں، جیسا کہ لکڑی کی قیمت میں 900 فیصد، میدے کی قیمت میں تقریباً 500 فیصد، خمیر کی قیمت میں 255 فیصد اور تلوں کی قیمت میں 150 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
عوام پر مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے ترکی کے وزیر خزانہ مہمت سمسک جنھیں صدر اردوغان نے گذشتہ ماہ ہی یہ ذمہ داری دی ہے نے ملک میں ’منطقی اقتصادی پالیسی‘ کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
نئے مقرر کردہ مرکزی بینک کے گورنر حافظ ایرکان کے ساتھ مل کر انھوں نے ملک میں 27 مہینوں کے دوران شرح سود میں ساڑھے آٹھ فیصد سے 15 فیصد تک بڑھایا ہے۔
لیکن ہرہان اس بات سے مطمئن نہیں ہیں کہ سیاستدانوں کو ان جیسے کاروبار کی حالت کی کوئی فکر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں آ کر 18 سے 20 گھنٹوں تک کھڑے ہوں، میں صرف تین گھنٹے سوتا ہوں۔ وہ (مہمت سمسک) یہ کام کریں نا، کرسی پر بیٹھ کر فیصلے کرنا آسان ہے۔ کام ایسے نہیں ہوتا۔‘
لتھوانیا میں نیٹو سربراہی اجلاس سے واپس آنے پر ان کی توجہ ترکی کے عوام سے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کیے گئے وعدوں پر مرکوز رہی۔
جہاز پر ان کے ہمراہ موجود صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دوبارہ مہنگائی کی شرح کو دس فیصد سے نیچے لے آئیں گے۔‘
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی کی 900 ارب ڈالر کی لڑکھڑاتی معیشت کی بحالی کے لیے وقت اور صبر سے کام لینا ہو گا۔
’مورت گلکان جو استنبول میں ایک چھوٹی سرمایہ کار کمپنی او ایم جی کیپیٹل ایڈوائزر کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ ’اس کا کوئی فوری حل نہیں ہے، کوئی جادو کی چھڑی یہ کام نہیں کرے گی۔ اس کے لیے معیشت کو سست کرنا ہو گا جو ظاہر ہے سیاسی قیادت نہیں چاہتی۔‘
ترکی کو معیشت کی بحالی کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کی بھی ضرورت ہے۔
رواں برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 37.7 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ سطح ہے اور اس کا مطلب ہے ملک نے برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات پر خرچ کیا ہے۔
صدر اردوغان صرف مغرب سے ہی دوریاں ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ اگلے ہفتے وہ خلیجی ممالک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کر رہے ہیں۔
ماہر معیشت آئرس سبری کہتے ہیں ہے کہ ’ہم ایک مرتبہ پھر مغرب کی جانب دیکھ رہے ہیں اور ہمارے پیچھے روس ہے۔‘
صدر اردوغان نے گذشتہ ہفتے روس کو اس وقت ناراض کر دیا تھا جب انھوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو اپنے پانچ کمانڈروں کے ہمراہ واپس یوکرین آنے کی اجازت دی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ باقی جنگ کے دوران ترکی میں ہی رہیں گے۔
کریملن نے ترکی کو خبردار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ وہ یورپی ممالک کو مثبت نگاہ سے نہ دیکھے۔ لیکن صدر اردوغان اگست میں ولادیمیر پوتن کی میزبانی کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، اور وہ روس کو بحیرۂ اسود کے معاہدے کو بچانے کے لیے قائل کرنے کی امید رکھتے ہیں جو اگلے ہفتے ختم ہو جائے گا اور جو یوکرین کو اناج برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
تجزیہ نگار باتو کوسکن کے نزدیک یہ ایک ترک رہنما کے لیے ایک توازن قائم کرنے کا عمل ہے جو روس کی حمایت چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ رشتہ اتنی آسانی سے مغرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے تبدیل نہیں ہو گا۔‘
Comments are closed.