امریکی فوجی شمالی کوریا کی تحویل میں: ’وہ زور سے ہنسا اور شمالی کوریا کی طرف بھاگنے لگا‘

کوریا، شمالی، جنوبی

،تصویر کا ذریعہAFP

جنوبی کوریا کی سرحد پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود امریکی فوج کا ایک سپاہی شمالی کوریا داخل ہو گیا ہے، جسے اطلاعات کے مطابق کم جونگ ان کی زیرِ انتظام ریاست نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

یہ شخص دونوں ملکوں کے درمیان اقوام متحدہ کے زیر انتظام علاقے کے دورے پر تھا۔

امریکی فوجی کو تحویل میں لیے جانے پر یہ بحران ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے کہ جب شمالی کوریا کے ساتھ اس کے تعلقات تلخ ہیں۔

شمالی کوریا دنیا کے سب سے تنہا یا آئسولیٹڈ ممالک میں سے ایک ہے جس کے بہت ہی کم ریاستوں کے ساتھ روابط ہیں۔ امریکہ اپنے شہریوں کو شمالی کوریا جانے سے روکتا ہے۔

امریکی فوج کے ایک سینیئر کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کا اس سپاہی سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔

انڈو پیسیفک امریکی کمانڈ کے ایڈمرل جان آکوئیلینو نے کہا کہ شمالی کوریا سے رابطے کی ’کوئی ٹریکنگ نہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس فوجی نے جانتے بوجھتے ’دوڑ لگا کر‘ ایسا کیا لیکن انھیں اس کی اجازت نہ تھی۔ امریکی فورسز اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔

امریکی فوجی کو تحویل میں لیے جانے کے کچھ گھنٹوں بعد شمالی کوریا نے قریبی سمندر میں دو مشتبہ بیلسٹک میزائل لانچ کیے۔

جنوبی کوریا نے اس میزائل لانچ کی تصدیق کی ہے اور اس حوالے سے خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے کوئی شواہد نہیں کہ فوجی کی تحویل اور میزائل لانچ کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔

یہ غیر واضح ہے کہ آیا اس شخص نے شمالی کوریا سے وفاداری اپنائی ہے یا وہ واپسی کا خواہشمند ہے۔ شمالی کوریا نے اس حوالے سے کوئی پیغام جاری نہیں کیا۔

پینٹاگون نے ان کی شناخت پرائیویٹ سیکنڈ کلاس ٹریوس کنگ بتائی ہے۔ ایک بیان میں ترجمان پینٹاگون نے کہا کہ وہ جنوری 2021 سے فوج کا حصہ ہیں۔

وہ امریکی فوج میں کیولری سکاؤٹ ہیں یعنی آپریشن کے دوران علاقے، دشمن کی افواج اور سول سرگرمیوں کے بارے میں معلومات جمع کرتے تھے۔ یہ کام جنوبی کوریا میں امریکی فوج کے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کے فوجیوں کو دیا جاتا ہے۔

وارمبیئر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

2016 میں امریکی شہری وارمبیئر شمالی کوریا کے سیاحتی دورے پر گئے تھے جہاں انھیں گرفتار کیا گیا

یہ بھی پڑھیے

’وہ زور سے ہنسے اور عمارتوں کے بیچ و بیچ بھاگنے لگے‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق کنگ کو جنوبی کوریا میں تشدد کرنے کے الزام پر تادیبی کارروائی کا سامنا تھا۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق کنگ سیول میں ایئر پورٹ کی سکیورٹی عبور کرنے کے بعد کسی طرح ٹرمینل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور سرحد کے دورے پر چلے گئے جہاں سے وہ سرحد عبور کر کے شمالی کوریا پہنچ گئے۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسا جان بوجھ کر اور بغیر اجازت کے کیا۔

اسی دورے پر ایک دوسرے شخص نے سی بی ایس کو بتایا کہ انھوں نے سرحد کے مقام پر ایک عمارت کا دورہ کیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ صلح کی علامت گاؤں پانمنجوم میں واقع ہے۔ ان کے مطابق ’یہ شخص زور سے ہنسا اور کچھ عمارتوں کے بیچ و بیچ بھاگنے لگا۔‘

’مجھے شروع میں یہ بُرا لطیفہ لگا مگر جب وہ واپس نہ آیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ مذاق نہیں تھا اور پھر سب نے ردعمل دیا اور افراتفری پھیل گئی۔‘

جنوبی اور شمالی کوریا کے بیچ غیر فوجی علاقے اور مشترکہ سکیورٹی ایریا (جے ایس اے) کے منتظم اقوام متحدہ کے کمانڈر نے کہا کہ اس نے شمالی کوریا کی فوج سے رابطہ کیا ہے تاکہ اس شخص کی رہائی کے لیے مذاکرات ہوسکیں۔

اس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی تحویل میں ہیں اور ہم مسئلے کے حل کے لیے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘

یہ غیر واضح ہے کہ کنگ اس وقت کس حال میں ہیں۔

شمالی کوریا میں انسانی حقوق سے متعلق واشنگٹن کی کمیٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گریگ سکارلیٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ شمالی کوریا کے حکام ممکنہ طور پر ان سے ان کی فوجی خدمات کے حوالے سے ’ہر طرح کی معلومات حاصل کریں گے‘ اور انھیں ’پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے پر دباؤ ڈالیں گے۔‘

غیر فوجی علاقے یا ڈی ایم زی دونوں کورین ملکوں کے بیچ میں واقع ہے یہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ بارودی سرنگوں، بجلی اور خاردار تاروں اور نگرانی کے کیمروں سے بھرا ہوا ہے۔ مسلح گارڈز 24 گھنٹے الرٹ رہتے ہیں۔

ڈی ایم زی 1950 کی دہائی سے قائم ہے جب سے جنگ میں امریکہ نے جنوبی کوریا کا ساتھ دیا تھا۔ اس جنگ کا انجام لڑائی کا خاتمہ تھا لہذا تکنیکی اعتبار سے آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

ہر سال درجنوں افراد شمالی کوریا سے فرار کی کوشش کرتے ہیں جو غربت اور قحط سے متاثرہ ملک ہے لیکن ڈی ایم زی کے ذریعے فرار بہت خطرناک ہے جو شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ شمالی کوریا نے کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران 2020 میں اپنی سرحدیں بند کر دیں تھیں جنھیں تاحال کھولا نہیں گیا۔

جنوبی کورین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی وبا سے قبل شمالی کوریا سے ہر سال ایک ہزار سے زیادہ لوگ چین کی طرف نقل مکانی کرتے تھے۔

اب شمالی کوریا کی جانب سے ایک امریکی فوجی کو اپنی تحویل میں لینا امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے خارجہ پالیسی کا بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ خیال ہے کہ کنگ واحد امریکی شہری ہیں جو شمالی کوریا کی تحویل میں ہیں۔ وہاں ان کے علاوہ جنوبی کوریا کے چھ افراد بھی تحویل میں ہیں۔

2017 میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ایک سال قبل پروپیگنڈا کی علامت چُرانے کے الزام میں گرفتار امریکی طالبعلم کو امریکہ کے حوالے کیا گیا مگر وہ کوما میں تھے اور فوراً ان کی موت ہوگئی۔ ان کا خاندان اس موت کے لیے شمالی کوریا کے حکام کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔

2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں تین امریکی شہریوں کو آزاد کرایا گیا تاہم شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اور سابق امریکی صدر کے درمیان بات چیت کے متعدد ادوار سے بھی تعلقات بہتر نہ ہوسکے۔

شمالی کوریا نے اس کے بعد سے درجنوں میزائلوں کی آزمائش کی ہے جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شمالی کوریا پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کی جوہری صلاحیت رکھنے والی ایک آبدوز 1981 کے بعد پہلی بار جنوبی کوریا کے ساحل پر تعینات کی گئی ہے۔ اس کا مقصد شمالی کوریا کی جانب سے جوہری خطرے کا مقابلہ کرنا ہے۔

شمالی کوریا نے اس اقدام پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اس سے خطے میں جوہری بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

وارمبیئر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

2016 میں گرفتاری کے بعد وارمبیئر نے شمالی کوریا کے میڈیا کے سامنے ’اقبال جرم‘ کیا تھا

شمالی کوریا جانے والے امریکی شہریوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

1996 کے بعد سے کئی امریکی شہری – بشمول سیاح، سکالر اور صحافی – شمالی کوریا جانے پر گرفتار کیے گئے ہیں۔

ان میں سے ایک تازہ مثال آٹو وارمبیئر کی ہے۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے طلبعلم جنوری 2016 میں شمالی کوریا کے سیاحتی دورے پر گئے جہاں انھیں گرفتار کیا گیا۔

نئے سال کے موقع پر اس پانچ روزہ دورے کا منتظم چینی ٹوور آپریٹر تھا۔ وارمیئر کے والد نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ ان کا بیٹا شمالی کوریا کی ثقافت کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور عام لوگوں سے ملنا چاہتا تھا۔

وارمیئر کو تحویل میں لیے جانے کے دو ماہ بعد شمالی کوریا کی ایک عدالت نے انھیں پروپیگنڈا کے ایک پوسٹر کی چوری کے الزام میں 15 سال قید کی سزا سنائی۔ سزا کے بعد وہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر نیورولاجیکل زخم سے متاثر ہوئے۔

انھیں گرفتاری کے 17 ماہ بعد کوما کی حالت میں رہا کر دیا گیا۔ جون 2017 کے دوران امریکہ واپسی پر ہسپتال میں چھٹے روز ان کی وفات ہوگئی۔

ان کے والد نے کہا کہ ان کا بیٹا بار بار جارحانہ انداز میں حرکت کرتا تھا اور کراہنے کی آوازیں نکالتا تھا۔

ان کے سر کے بال شیو کر دیے گئے تھے، وہ اندھے اور گونگے ہوچکے تھے، ان کے بازو اور ٹانگیں ’پوری طرح خراب‘ ہوچکی تھیں جبکہ ان کے پیر پر بڑا زخم تھا۔ ’بظاہر کسی نے ان کے نچلے دانت توڑ دیے تھے۔‘

ان کے والد نے کہا کہ ’آٹو پر حکمت عملی کے تحت تشدد کیا گیا۔ انھیں کِم اور ان کے حکام نے جان بوجھ کر نقصان پہنچایا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔‘

امریکہ کی ایک عدالت نے وارمیئر پر تشدد اور موت کا ذمہ دار شمالی کوریا کو ٹھہرایا تھا مگر شمالی کوریا نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ