پیر28؍ذوالحجہ 1444ھ17؍جولائی 2023ء

توشہ خانہ کیس: عدالت نے پراسیکیوٹر کو دلائل دینے سے روک دیا

اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران بار بار بجلی منقطع ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔

عدالت نے خواجہ حارث کے پراسیکیوٹر پر اعتراض کو منظور کر لیا اور حکم میں کہا کہ پراسیکیوٹر کیس میں دلائل نہیں دے سکیں گے۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران وکلاء اور جج کو موبائل ٹارچ کا استعمال کرنا پڑ گیا۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں ہوئی۔

دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء شیر افضل مروت اور خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کو خط لکھ دیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نجی بینک میں اکاؤنٹ چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے نام سے ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق انہوں نے بینک میں توشہ خانے کی رقم منتقل کی، کوئی نئی دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروا رہے، جو دستاویزات جمع کروائی ہیں وہ پہلے سے عدالت کے پاس موجود ہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ جب عدالت میں پہلے سے جمع ہیں تو پھر دوبارہ یہ دستاویزات جمع کیوں کروا رہے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے جواب دیا کہ گواہوں کے درخواست دینے میں کوئی قانونی پہلو غلط نہیں، گواہوں کی درخواست دینے کا مقصد عدالت کو مزید مطمئن کرنا ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانے کی رقم بینک اکاؤنٹ میں منتقلی کرنے کی تصدیق کی، الیکشن کمیشن کے سامنے توشہ خانے کی رقم کی منتقلی کا اعتراف کیا گیا۔

وکیل خواجہ حارث نے اس موقع پر پرائیویٹ شکایت میں پراسیکیوٹر کے دلائل پر اعتراض اٹھا دیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوٹر کسی بھی عدالت میں اپنے دلائل دے سکتا ہے، کہیں نہیں لکھا کہ پراسیکیوٹر اپنے دلائل پرائیویٹ شکایت میں نہیں دے سکتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی پولیس کیس نہیں جس میں پراسیکیوٹر اپنے دلائل دے، شکایت کنندہ نے کس بنیاد پر گواہان کو منتخب کیا ہے؟ معلوم نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ شکایت الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کی گئی ہے، قانون کے مطابق پراسیکیوٹر کو دلائل دینے کا حق ہے، قانون کے مطابق پرائیویٹ شکایت کنندہ پراسیکیوٹر کی مدد کر سکتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ پرائیویٹ شکایت کنندہ کیسے کسی پبلک پراسیکیوٹر سے مدد لے سکتا ہے؟ کیا صوبائی حکومت نے پراسیکیوٹر الیکشن کمیشن کے ساتھ تعینات کیا ہے؟ اسلام آباد وفاق کا حصہ ہے، چیف کمشنر اسلام آباد پراسیکیوٹر تعینات کرتے ہیں، کیا توشہ خانہ کیس پرائیویٹ شکایت سے سرکاری شکایت بنا ہے؟ پبلک پراسیکیوٹر الیکشن کمیشن کی جانب سے دلائل دے رہا ہے، جس پر افسوس ہوا، الیکشن کمیشن کے وکلاء ان کیسز کا حوالہ دے رہے ہیں جن میں مدعی پولیس ہے، توشہ خانہ کیس ایک پرائیویٹ شکایت کا معاملہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے جواب میں کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوٹر کسی فریق کا حصہ نہیں بن سکتا، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن خود پراسیکیوٹر کو مدعو کر سکتا ہے، پراسیکیوٹر کا مقصد سچائی کو سامنے لانا ہے، اکتوبر 2022ء میں کابینہ ڈویژن میں تعینات 4 افسران کو گواہوں کی لسٹ میں رکھا گیا، کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری ایڈمن ارشد محمود، ڈپٹی سیکریٹری کوآرڈینیشن فیصل تحسین گواہ ہیں، 5 گواہوں کے نام گواہان کی فہرست میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ پراسیکیوٹر کے معاملے پر بحث شروع ہو جائے گی، قانون میں ترمیم کے بعد پراسیکیوٹر صرف تب دلائل دے سکتا ہے جب مدعی پولیس ہو، قانون میں ترمیم ہی ایسی ہوئی کہ پراسیکیوٹر پولیس کی معاونت کرے گا۔

وکیل خواجہ حارث نے پبلک پراسیکیوٹر کے دلائل دینے پر اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ قانون کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر پرائیویٹ شکایت کنندہ کا حصہ نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کر دی۔

جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ آپ کو امجد پرویز کے وکالت نامے پر بھی اعتراض ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ توشہ خانہ کیس میں ہو کیا رہا ہے، میرے نوٹس میں ایسی باتیں ہونی چاہئیں، کون سا پاور آف اٹارنی آ رہا ہے، کون سا جا رہا ہے، کچھ معلوم نہیں، وکیل کوئی ہے اور دلائل پراسیکیوٹر دے رہا ہے، عدالت میں دلائل صرف ایک وکیل ہی دیتا ہے، کبھی الیکشن کمیشن پر اعتراض نہیں اٹھایا۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کی جانب سے وکیل گوہر علی خان نے دلائل دیے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ غلط بیانی نہ کریں، ہم غلط بیانی نہیں کرتے، گوہر علی خان دلائل نہیں دیتے۔

جج ہمایوں دلاورنے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ عدالت غلط بیانی کر رہی ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت میں قانونی پہلو ہوتے ہیں، ایک ہی پوائنٹ پر الیکشن کمیشن اور پراسیکیوٹر دلائل دے رہے ہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے پوچھا کہ اب چھوڑ دیں، گواہوں والی درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ شکایت کنندہ نے ہمیں دائر شکایت کی کاپی دینی ہوتی ہے، شکایت کنندہ، الزام اور گواہوں کے نام شکایت کی کاپی میں ہی دینے ہوتے ہیں، توشہ خانہ کیس میں دائر شکایت میں صرف 2 گواہوں کے نام ہمیں دیے گئے ہیں، ابھی تو کیس ابتدائی مراحل میں ہے، فردِ جرم سے قبل گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوتے ہیں، شکایت کنندہ کے مطابق وہ مزید 5 گواہان کے بیانات ریکارڈ کروانا بھول گئے، ہم نے 2 گواہان کے بیانات پر کیس کی تیاری کی، 5 گواہان کے بیانات پر نہیں۔

الیکشن کمیشن کی 5 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کروانے کی درخواست عدالت نے مسترد کر دی۔

وکیل خواجہ حارث نے پیر تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آئے گا تو دیکھ لیں گے، مجھے میری عدالت کا کام چلانے دیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں پیر کو آؤں گا، آپ کی عدالت میں بیٹھا رہوں گا، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت آئیں گے۔

عدالت نے خواجہ حارث کے پراسیکیوٹر پر اعتراض کو منظور کر لیا اور حکم میں کہا کہ پراسیکیوٹر کیس میں دلائل نہیں دے سکیں گے۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے دونوں گواہوں کو کل طلب کر لیا اور توشہ خانہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.