کیا روس واقعی یوکرین میں جوہری جنگ کا ’جوا‘ کھیل سکتا ہے؟

روس

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, سٹیون روزنبرگ
  • عہدہ, روس ایڈیٹر، ماسکو

کیا روس واقعی یوکرین میں جوہری جنگ کا کھیل سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم اس وقت سے پوچھ رہے ہیں جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا۔ کیا اس جنگ میں کریملن جوہری راستہ اپنا سکتا ہے؟

امریکی صدر جو بائیڈن اس امکان کو رد نہیں کر رہے۔

رواں ہفتے امریکی صدر نے کہا کہ ’مجھے پوتن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی فکر رہتی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ ’خطرہ‘ حقیقی ہے۔

میں نہیں جانتا کہ صدر بائیڈن روس کا پروفائل میگزین پڑھتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ اسے پڑھتے ہیں، تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی پریشانی کی وجہ کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پروفائل میگزین نے روس کے ایک ماہر خارجہ و دفاعی امور سرگئی کاراگانوو کا مضمون شائع کیا۔ وہ کونسل برائے خارجہ امور اور دفاعی پالیسی کے اعزازی چیئرمین بھی ہیں۔ مختصراً، روس میں برسراقتدار حلقوں کے کافی قریب تصور کیے جاتے ہیں۔

اس مضمون میں ان کا موقف کچھ یوں پیش کیا گیا۔ ’مغرب کے عزم کو کمزور کرنے کے لیے روس کو اپنی جوہری صلاحیت کو ایک مضبوط دلیل بنانا ہو گا۔‘

’دشمن کو علم ہونا چاہیے کہ ہم اس کی جانب سے حالیہ اور ماضی کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں حملے میں پہل کر سکتے ہیں تاکہ عالمی جیو تھرمونیوکلیئر جنگ سے بچا جا سکے۔‘

’لیکن اگر وہ پیچھے نہیں ہٹتے تو پھر؟ ایسے میں ہمیں چند ممالک میں متعدد اہداف کو پہلے نشانہ بنانا ہو گا تاکہ جن کا ذہن کام نہیں کر رہا وہ عقل سے کام لینا شروع کر دیں۔‘

گزشتہ ایک سال کے دوران ہم ماسکو کی جانب سے ایسی جوہری دھمکیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔

اور صدر پوتن اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ روس کی جانب سے بیلاروس میں چھوٹے جوہری ہتھیار نصب کیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس کا مقصد ایسے عناصر کو یاد دہانی کروانا ہے جو ’ہمیں سٹریٹیجک شکست سے دوچار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘

تاہم مغرب پر جوہری ہتھیاروں سے حملے میں پہل کے فوائد کی بات کرنا بالکل نیا ہے۔ لیکن واضح طور پر روس میں ہر کوئی ایسا نہیں سوچ رہا۔

روس کے کاروباری اخبار کمرسانٹ میں بھی ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان تھا ’جوہری جنگ مسائل حل کرنے کا برا طریقہ ہے۔‘

روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شاید یہ نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اس مضمون کی حیران کن بات یہ ہے کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی بحث اب عوامی سطح پر ہو رہی ہے۔ اور اس بحث میں روس کے اندر جارحانہ عزائم رکھنے والے ہی حصہ نہیں لے رہے۔

ماسکو کے ہی تین ماہرین خارجہ و دفاعی امور کی جانب سے تحریر شدہ اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ سرگئی کاراگانوو غلط کیوں ہیں۔ وہ بھی خطرناک حد تک غلط۔

الیکسی ارباٹوو، کونسٹنٹائن بوگڈانوو اور ڈیمیٹری سٹیفانووچ لکھتے ہیں کہ ’یہ خیال کہ جوہری ہتھیار جارحیت روک سکتے ہیں اور ایسے سٹریٹجک مسائل حل کر سکتے ہیں جو روایتی عسکری طریقوں سے حل نہیں ہو پا رہے، کافی مشکوک ہے اور غلط بھی۔‘

یہ تینوں روس کی اکیڈمی آف سائنس کے تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی میں کام کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ’جدید تاریخ میں ایسے متعدد عسکری آپریشنز کی مثالیں موجود ہیں جن کے ان دیکھے نتائج نکلے۔ لیکن ان میں جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے گئے۔ جوہری ہتھیار کے استعمال سے غیر متوقع صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور تنازع کئی گنا بڑھ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جوہری کھنڈرات جو ایسی جوہری چال کا نتیجہ ہوں گے ایک روشن مستقبل کی بدترین بنیاد ہوں گے۔ سنسنی خیز خیالات اور خطرناک جوا کھیلنے کے مداحوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

روس

،تصویر کا ذریعہBBC/DARREN CONWAY

ایسے میں ایک اور ایسے سوال کی جانب بڑھتے ہیں جو ہم یوکرین جنگ کے آغاز سے پوچھ رہے ہیں: آخر ہو کیا رہا ہے؟

یہ ممکن ہے کہ سرگئی کاراگانوو کی یہ تجویز اتنی حیران کن تھی کہ روس کے دیگر ماہرین کو محسوس ہوا کہ اب ان کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں۔

اگر ایسا ہی ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ روسی میڈیا ریاست کنٹرول کر رہی ہے، تاہم موجودہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مخصوص موضوعات پر محدود بحث کی گنجائش موجود ہے۔ خصوصاً جوہری جنگ جیسے اہم موضوع پر۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک طے شدہ بحث تھی جس کا مقصد مغرب کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ صدر پوتن سرگئی کاراگانوو جیسے لوگوں کے مقابلے میں بہتر انسان لگیں۔

آخر روسی صدر نے خود تو مغرب پر جوہری حملے میں پہل کی بات نہیں کی۔ اور اسی لیے بہتر ہو گا کہ ان کے ساتھ امن کی بات کی جائے اس سے پہلے کہ سرگئی کاراگانوو اور ان کے ہم خیال بازی لے جائیں اور جوہری بٹن دبا بیٹھیں۔

ایک بات واضح ہے کہ روس میں مغرب مخالف بیانیہ زور پکڑ رہا ہے اور یوکرین کی جانب سے جوابی عسکری حملے کے بعد جوہری سوال جلد دبنے والا نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ