ٹائٹن آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے جدید ترین سائنسی آلات استمعال کرنے والی ریسکیو ٹیموں کی تلاش کہاں تک پہنچی؟

visual

  • مصنف, وژوئل جرنلزم ٹیم
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتہ ہونے والی آبدوز کی تلاش میں شامل ریسکیو ٹیمیں جہاں تیزی سے گزرتے وقت اور آبدوز میں سوار افراد کے پاس آکسیجن کی کمی کے خطرے سے نبرد آزما ہیں وہیں انھیں ابھی تک آبدوز کا کوئی نشان نہیں ملا۔

یہ آبدوز دراصل ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل بحرِ اوقیانوس میں غرقاب ہونے والے تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جا رہی تھی اور اس میں پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت پانچ افراد موجود ہیں۔

تاہم ریسکیو کرنے والے افراد ایک ایسی آبدوز کو کیسے ڈھونڈ رہے ہیں جو دو روز سے بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں موجود ہے اور اس حوالے سے انھیں کس قسم کے چیلنجز درپیش ہیں؟

تلاش کا محور کون سا مقام ہے؟

ٹائٹن آبدوز میں موجود افراد کا سطح آب پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ اتوار کو زیرِ آب سفر شروع کرنے کے ایک گھنٹہ 45 کے بعد منقطع ہو گیا تھا۔

آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہونی ہے۔

ٹائٹینک کا ملبہ سینٹ جانز نیوفاؤنڈ لینڈ سے 435 میل جنوب میں واقع ہے اور اس وقت اس علاقے میں تقریباً ایک درجن بحری جہاز موجود ہیں یا ریسکو آپریشن میں حصہ لینے کے لیے اس علاقے کی جانب گامزن ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں، بحریہ اور کمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ ہیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا جا رہا ہے اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

بحری جہاز پولر پرنس کی مدد کے لیے پہلے ہی کیبلز کا جال بچھانے والا بحری جہاز ڈیپ انرجی اور تین دیگر بحری جہاز موقع پر پہنچ گئے ہیں جبکہ مزید بحری جہاز اور سائنسی آلات راستے میں ہیں۔

ان بحری جہازوں میں سے کچھ میں ’ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز‘ (آر او ویز) موجود ہیں جنھیں سمندر کی تہہ میں اس آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یوں تو خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ فرانسیسی تحقیقاتی بحری جہاز ایل’ایٹالانٹ میں ہی ایسے آر او ویز موجود ہیں جو سمندر کی اس گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں ٹائٹینک کا ملبہ موجود ہے۔ یہ بحری جہاز بدھ کی رات موقع پر پہنچے گا۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے کیپٹن جیمی فریڈرک کا کہنا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا سے ریسکیو ٹیمیں اس ’پیچیدہ سرچ آپریشن‘ کے دوران ’دن رات کام میں مصروف ہیں۔‘

پروفیسر ایلیسٹیئر گریگ یونیورسٹی کالج لندن میں آبدوزوں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ریسکیو کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھیں اس آبدوز کو سطح سمندر پر ڈھونڈنا ہے یا سمندر کی تہہ میں کیونکہ اس بات کا ’امکان بہت کم ہے‘ کہ یہ کہیں درمیان میں موجود ہو۔

انھوں نے خبردار کیا کہ دونوں طرح کی تلاش کے دوران اپنی نوعیت کے چیلنج درپیش ہوں گے۔

visual

سطح سمندر پر تلاش کا عمل

امریکی کوسٹ گارڈ (یو ایس سی جی) کا کہنا ہے کہ وہ آبدوز کو 20 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبہ پر تلاش کر رہے ہیں۔

تلاش کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہازوں کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا کے سی 130 ہرکولیئن ایئر کرافٹ بھی تلاش کا حصہ ہیں اور وہ آبدوز کی فضا سے نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم اگر یہ آبدوز خطرے کی صورت میں بھیجے جانے والے سگلنز نہیں دیتی، تو پروفیسر گریگ کے مطابق ’کیونکہ اس آبدوز کا حجم ایک ٹرانزٹ وین جتنا ہے اور یہ سفید رنگ کی ہے اس لیے فضا سے اس کی نشاندہی کرنا ایک چیلنج ہو گا۔‘

موسم میں تبدیلی اور حدِ نگاہ کم ہونا بھی وہ چیلنجز ہیں جن کا ریسکیو ٹیموں کو سامنا ہے۔

visual

سمندر کی تہہ میں تلاش کی کوشش

ریسکیو کرنے والوں کو تلاش کے لیے تقریباً چار کلومیٹر ( ڈھائی میل) تک کی تلاش کرنی ہو گی کیونکہ ریڈیو اور جی پی ایس سگنلز پانی میں سفر نہیں کر سکتے۔

کینڈین پی 3 آرورہ ایئر کرافٹ علاقے میں سونار سگنلز کی نشاندہی کے ذریعے تلاش کر رہا ہے اور سونار بوئے بھی اس علاقے میں تلاش کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔

سونار بوئے یا سونوبوئے کے ذریعے پانی میں موجود کسی بھی چیز کی نشاندہی کی جاتی ہے اور یہ اکثر دشمن آبدوزوں کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

یہ عام طور پر مشینری اور انجن کے پنکھوں کی آوازوں کو سننے کا کام کرتے ہیں۔ یہ عملے کی جانب سے آبدوز کے اندرونی حصے سے کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز بھی ہو سکتی ہے اور کسی جہاز کی باہری سطح سے کسی چیز کے ٹکرانے کی بھی اور پھر اس سے اٹھنے والی آواز سننے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔

منگل کی رات امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ کینیڈین طیارے نے زیرِ آب ’آوازیں‘ سنی ہیں۔

امریکی میڈیا نے اس دوران ایک لیکڈ میمو کے حوالے سے رپورٹ کیا جو امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو بھیجا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ آوازیں ’کسی چیز کے ٹکرانے‘ کی آواز جیسی ہیں اور یہ 30 منٹ کے دوران بار بار آتی رہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن کے سائمن بوکسال کا کہنا ہے کہ ریسکیو ٹیموں کی ان زیرِ آب آوازوں کے سنائی دینے سے حوصلہ افزائی ہو گی۔

’کسی بھی سمندر میں مختلف قسم کی آوازوں کے مختلف ذرائع ہو سکتے ہیں لیکن اس سے امید ضرور ملتی ہے۔‘

آسٹریلیا میں آبدوز کے سرچ اینڈ ریسکیو کے ماہر فرینک اوون کا کہنا ہے کہ جب آواز کا سگنل پانی کی سطح کے قریب سے موصول ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آواز کا ذریعہ سطح پر یا اس سے بہت قریب ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سطح سمندر سے 180 میٹر گہرائی کے بعد درجہ حرارت بہت تیزی سے گرتا ہے۔

’اس کی وجہ سے ایک ایسی تہہ بن جاتی ہے جس پر سونار ویوز لگ کر واپس آ جاتا ہے لیکن اگر آپ اس ہی گہرائی میں ہیں تو یہ بہت سیدھا رہتے ہیں۔‘

visual

اگر یہ سمندر کی تہہ میں موجود ہوئی تو ریسکیو کرنے والوں کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟

اگر آبدوز تاحال سطح سمندر پر آنے میں ناکام رہی ہے تو امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کو امریکی نیوی اور نجی سیکٹر سے اضافی امداد کی ضرورت ہو گی۔

اوشن گیٹ کے مطابق دی ٹائٹن دنیا میں ان پانچ آبدوزوں میں سے ایک ہے جو ٹائٹینک تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ٹائٹینک کا ملبہ سطح سمندر سے 3800 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔

اگر ٹائٹن سمندر کی تہہ میں موجود ہے اور وہ اپنی طاقت کے ذریعے اوپر نہیں آ سکتی تو پروفیسر گریگ کے مطابق ایسے میں ان کے پاس آپشن محدود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ آبدوز شاید اب درست حالت میں ہو لیکن اگر یہ 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں موجود ہے تو بہت کم مشینیں ایسی ہیں جو اتنی گہرائی میں جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور غوطہ خور تو بالکل بھی نہیں۔ جو مشینیں بحریہ کی جنگی آبدوزوں کو ریسکیو کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں وہ ٹائٹینک کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتیں۔‘

اگر سمندر کی تہہ پر تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے لیے روبوٹس یا (آر او و) کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ڈیپ انرجی کی جانب سے ایک آر او وی تو متعین کی گئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ سمندر کی تہہ تک جا سکتی ہے یا نہیں۔ دوسری مشینیں جن میں آر او وی صلاحیت موجود ہے وہ اس علاقے میں پہنچ رہی ہیں، جن میں فرانسیسی تحقیقاتی جہاز ایل’ایٹالانٹ بھی شامل ہے جس میں ایسی آر او ویز موجود ہیں جو ٹائٹینک تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

امریکی نیوی کے پاس بھی ایک آر او وی ہے جس میں اس گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کی مدد سے انھوں نے ایک بحیرہ جنوبی چین میں گذشتہ برس کریش کرنے والے فائٹر جیٹ کو3780 میٹر کی گہرائی سے ڈھونڈا تھا۔

اس مرتبہ امریکی ملٹری نے آر او وی کے ذریعے ایئر کرافٹ کے ملبے تک ایک کرین کے ساتھ جوڑنے میں مدد کی تھی جو اسے سطح تک لے آئی تھی۔

سمندر سے چیزیں تلاش کرنے کے ماہر ڈیوڈ میئرنز کا کہنا ہے کہ اگر ایک آر او وی ٹائٹن کی نشاندہی کر لیتی ہے تو پھر اسے سطح تک لانا مسئلہ نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ کلا آر او وی جس کے ساتھ دو آلات جڑے ہوتے ہیں ٹائٹن کو اپنی گرفت میں لا کر یا لفٹ لائن سے منسلک کر کے اسے سطح تک لا سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ