جمعرات 3؍ذوالحجہ 1444ھ22؍جون 2023ء

ٹائٹن میں موجود سیاحوں کے بچنے کے آثار تقریباً ختم

بحر اوقیانوس میں ٹائٹینک کی باقیات دیکھنے کے لیے جانے والی سب میرین ٹائٹن میں موجود سیاحوں کے بچنے کے آثار تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائٹینک کا نظارہ کرنے سمندر کی تہہ میں جانے والوں کے بچنے کا امکان صرف ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

امریکا اور برطانیہ کی آبدوزوں کو آپریٹ کرنے والے بحریہ کے اہلکار بھی اتنا نیچے نہیں جاتے ہیں، اگر بحریہ کی آبدوز اتنا نیچے چلی جائے تو اس کا مطلب ہے تمام عملہ جان سے جان چکا۔ 

سطح سمندر کے مقابلے میں تہہ میں دباؤ چار سو گنا بڑھ جاتا ہے، یہ اتنا دباؤ ہے کہ کسی کمرے پر پریشر ہو تو ساری ہوا نکل جائے اور چھت کرچی کرچی ہوجائے۔

زیر سمندر سنائی دینے والی آوازوں کے ڈیٹا کا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، امریکا، کینیڈا اور فرانس کی ٹیمیں آب دوز کی تلاش میں مصروف ہیں۔

اس دباؤ پر ٹائٹن میں سوراخ ہو تو اندر موجود افراد کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ وہ کب مرچکے۔ 

امریکی بحریہ کے کنٹریکٹر نے کہا ہے کہ ہر شخص منتظر ہے کہ امریکی بحریہ انہیں بچا لے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکی آبدوز صرف دو ہزار فٹ نیچے جاسکتی ہیں، کوئی ایسا نہیں جو ٹائٹن تک جاکر لوگوں کو بچا سکے۔

انہوں نے کہا کہ واحد امید یہ ہے کہ ٹائٹن خود سطح سمندر پر آجائے تاکہ لوگوں کو بچایا جاسکے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ٹائٹن میں پاور یا اسٹرکچرل فالٹ آیا ہوگا جس کی وجہ سے ٹائٹن سطح سمندر پر چلی گئی ہے۔ اب ٹائٹن کو تلاش کرنا ایسا ہے جیسے دیوہیکل جہاز میں منی وین ڈھونڈی جارہی ہو۔ 

غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ تہہ میں ٹائٹن مل بھی جائے تو اسے باہر نکالنے کے لیے ڈھائی میل لمبے تار کا ہُک اس میں ڈالنا ہوگا جو تقریباً ناممکن ہے۔

سبرینہ داؤد نے کہا کہ عالمی سطح پر ریسکیو میں دلچسپی کے شکر گزار ہیں۔

ٹائٹن میں موجود ہامیش ہارڈنگ کے دوست کا کہنا ہے کہ انہیں تحفظ کے خطرات محسوس ہوئے تھے اس لیے انہوں نے ہامیش کے ساتھ ٹائٹن میں جانے سے انکار کردیا تھا۔ 

انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے برس بھی ٹائٹن کا سمندر پر موجود رہنما جہاز سے 2 گھنٹے تک رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔

آب دوز نما میں معروف پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد سمیت پانچ افراد سوار ہیں، آبدوز میں موجود افراد کے لیے صرف چند گھنٹوں کی آکسیجن رہ گئی ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.