ٹائٹینک: دیوہیکل سمندری جہاز کی باقیات بحرِ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں کیسے تلاش کی گئیں

ّٹائیٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹائٹینک 269 میٹر لمبا تھا جس میں عملے اور مسافروں سمیت تقریباً 3,300 افراد سوار تھے

امریکہ اور کینیڈا میں حکام دن رات مسلسل بحرِ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں اس آبدوز کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے پانچ سیاحوں سمیت لاپتہ ہو گئی ہے۔

یہ آبدوزاتوار کی صبح پانچ سیاحوں کو لے کر سمندر میں اتری تاہم اپنی روانگی کے 1 گھنٹہ 45 منٹ بعد غائب ہو گئی۔

لاپتہ آبدوز کو چلانے والی کمپنی ’اوشین گیٹ ایکسپیڈیشنز‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ عملے کو واپس لانے کے لیے تمام آپشنز کو بروئے کارلا رہی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ انھیں آبدوز کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی کوششوں میں مختلف سرکاری ایجنسیوں اور گہرے پانیوں سے متعلق ماہر کمپنیوں سے وسیع پیمانے پر مدد ملی ہے۔

ٹائٹینک سمندر کی تہہ میں کہاں موجود ہے ؟

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹائٹینک کی باقیات شمالی بحراوقیانوس میں موجود ہیں جو کینیڈا میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر جنوب مشرق میں 38 سو میٹر سمندر کی گہرائی میں پڑی ہیں۔

اس کی باقیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاز کی کمان یعنی اگلا حصہ اور سٹرن یعنی پچھلا حصہ، ملبے کا ایک بہت بڑا حصہ اس جہاز کے دونوں حصوں کو گھیرے ہوئے ہے۔

یہ باقیات گرینڈ بینک آف نیو فاؤنڈ لینڈ کے جنوب میں’ٹائٹینک کینین ‘کے نام سے جانے والے ایک علاقے میں ہیں۔ اس علاقے کے لیے یہ نام 1991 میں سمندری ماہر ارضیات ایلن رفمین نے تجویز کیا تھا۔

اپنے وقت میں، ٹائی ٹینک دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار جہاز تھا تاہم 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر میں 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب یہ دیو ہیکل بحری جہاز برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے نیویارک کی جانب جاتے وقت ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔

اس سانحے میں 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

9851 میں ٹائٹینک کی باقیات کی دریافت امریکی حکومت کی طرف سے کچھ خفیہ دستاویزات کے اعلان کی بدولت سامنے آئیں۔

ٹائٹینک کی باقیات کیسے ملیں

امریکی انٹیلیجنس کے آفیسر رابرٹ بیلارڈ ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے 1980 کی دہائی میں ٹائٹینک کی باقیات کو تلاش کے خفیہ مشنز میں حصہ لیا تھا۔

امریکی بحریہ نے انھیں جہاز کی تلاش کے ذرائع فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن ساتھ ہی شرط رکھی کہ وہ صرف اس صورت میں ان وسائل کو استعمال کرسکتے ہیں جب وہ 1960 کی دہائی میں بحر اوقیانوس میں ڈوبنے والی دو امریکی جوہری آبدوزوں کو بھی تلاش کریں گے۔

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اپریل 1912 میں جب اس حادثے کی خبر نیو یارک پہنچی تو لوگ اخبارات کے دفاتر کے باہر آویزاں نشریے دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گئے

اس طرح خفیہ فرانکو امریکن مشن کا آغاز1985 میں ہوا۔ دوسری جانب ٹائٹینک کی تلاش کی آڑ میں اس آپریشن کا فیصلہ اس لیے درست سمجھا جا رہا تھا جس سے روسیوں اور ذرائع ابلاغ کو شک نہ ہو کہ ڈوبی ہوئی آبدوزوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔

اس مشن کا پہلا حصہ کامیاب رہا۔ بیلارڈ کو یو ایس ایس تھریشر اور یو ایس ایس اسکارپین دونوں آبدوزیں مل گئیں۔

اب بیلارڈ کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس ٹائٹینک کو تلاش کرنے کے لیے صرف 12 دن باقی رہ گئے تھے۔

ٹائٹینک کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے وہ جو کشتی استعمال کر رہے تھے وہ پہلے ہی ایڈوانس میں دوسرے لوگوں نے کرائے پر لے رکھی تھی۔

بالآخر سکارپیئن کو تلاش کرنے کے تجربے کے ساتھ ہی بیلارڈ کو صرف 8 دنوں میں یکم ستمبر 1985 کو ٹائٹینک مل گیا۔ اس کو تلاش کرنے میں انھیں آرگو آبدوز سے مدد ملی جو کیمروں سے لیس تھی اور تصاویر کو سطح پرمنتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

بیلارڈ نے 2021 میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب انھوں نے جہاز کا ملبہ دیکھا تو ایک لمحے ان کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کی خوشی تاسف میں بدل گئی۔

بیلارڈ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم پرآشکار ہوا کہ ہم کسی کی قبر پر خوشی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ