کشمیر کے ایک ہی گاؤں کے 20 سے زیادہ نوجوان یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی تک کیسے پہنچے؟

کشمیر
،تصویر کا کیپشن

بنڈلی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی میں پاکستان اور انڈیا کی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول کے بالکل ساتھ واقع ہے

  • مصنف, عمردراز ننگیانہ
  • عہدہ, بی بی سی اردو، میرپور

محمد ایوب کو معلوم ہے اُن کے بھائی اس کشتی پر سوار ہو گئے تھے لیکن اب تک ان کی شناخت نہ تو مرنے والوں میں ہوئی ہے اور نہ وہ ان 12 پاکستانی شہریوں میں شامل ہیں جو زندہ بچ گئے تھے۔

کشتی کو ڈوبے اب کئی دن بیت چکے ہیں لیکن پھر بھی محمد ایوب کو امید ہے کہ ’شاید۔۔۔ شاید کوئی معجزہ ہو گیا ہو‘ اور ان کے بھائی محمد یاسر اب بھی زندہ ہوں۔

حالانکہ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے گاوں بنڈلی سے جو دو لڑکے زندہ بچ جانے والوں میں شامل تھے، وہ یہ بتا چکے ہیں کہ جب کشتی الٹی تو ان کے گاؤں کے باقی 26 لڑکے بھی اُن کے ساتھ ہی کشتی پر ہی سوار تھے۔

اس کے بعد وہ کہاں گئے گاؤں کے ان دو زندہ بچ جانے والے لڑکوں کو نہیں معلوم۔ وہ تو خود سمندر میں کود گئے تھے جہاں سے یونانی کوسٹ گارڈز نے ان کی جانیں بچائیں۔

یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد اب تک لگ بھگ 78 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اس کشتی پر 700 سے زیادہ افراد سوار تھے۔

لیکن محمد ایوب نے اپنی آنکھوں سے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کی لاش نہیں دیکھی اور اب تک انھیں وہ بُری خبر بھی نہیں ملی جو شاید وہ جانتے ہیں مگر سننا نہیں چاہتے، لیکن ان کے لیے اس خبر کا انتظار بھی کٹھن ہے۔

’پتا تو چلے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو اس کی لاش تو ہمیں مل جائے تاکہ ہم اس کی تدفین کر سکیں۔‘

محمد ایوب سے زیادہ یہ انتظار محمد یاسر کی اہلیہ کے لیے جان لیوا ہے جنھوں نے اپنی ایک سالہ بیٹی گود میں اٹھا رکھی ہے۔ ان کا بڑا بیٹا تین سال کا ہے جو گھر کے آنگن میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ گھر کے باہر لگے شامیانے کے نیچے لوگ کیوں آ کر بیٹھ رہے ہیں۔

بنڈلی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی میں پاکستان اور انڈیا کی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں چھوٹے بڑے گھروں پر مشتمل یہاں بنڈلی کے علاوہ چند اور دیہات بھی ہیں۔

محمد یاسر کی اہلیہ

،تصویر کا کیپشن

یہ انتظار محمد یاسر کی اہلیہ کے لیے جان لیوا ہے جنھوں نے اپنی چھوٹی بیٹی گود میں اٹھا رکھی ہے جس کی عمر صرف ایک سال ہے

یہاں سے سرحد کے اس پار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں بنے گھروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بنڈلی اور اس کے ارد گرد بنے گھروں میں کچھ بہت کشادہ اور جدید طرزِ تعمیر کی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے مکین آسودہ حال ہوں گے لیکن کچھ گھر ایسے بھی ہیں جو دو یا تین کمروں پر مشتمل ہیں اور ان میں دو، دو اور تین، تین خاندان آباد ہیں۔

ان کی حالت سے محسوس ہوتا ہے کہ ان میں رہنے والے لوگ زیادہ خوشحال نہیں۔ محمد ایوب کا گھر بھی ایسے ہی گھروں میں سے ایک ہے۔ وہ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ محمد یاسر ان میں سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کے پاس صرف پانچ کنال زرعی زمین ہے جس سے گزر بسر ہونا ناممکن ہے۔

چاروں بھائیوں کو محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے تو گھر چلتا ہے۔ ادھ گری گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ گھر کے صحن میں کھڑے محمد ایوب نے بتایا کہ حالات اتنے زیادہ خراب ہو گئے تھے کہ ان سے تنگ آ کر ان کے بھائی محمد یاسر نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

’کیا کرتے، بھوک سے مر رہے تھے۔ مزدوری کبھی ملتی ہے، کبھی نہیں ملتی اور جو ملتی ہے اس سے گزر بسر نہیں ہوتا اور مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ گھر کا خرچ برداشت کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘

،ویڈیو کیپشن

اریبہ کو بے بسی کے ساتھ شدید غصہ بھی ہے اور اس غصے کا رخ ان انسانی سمگلروں کی طرف ہے جو ان کے ’بھائی کو ورغلا کر لے گئے‘

بنڈلی کے نوجوان جانتے بوجھتے پُرخطر سفر پر کیوں نکلے؟

محمد ایوب کے بھائی محمد یاسر کے سامنے ایسی مثالیں موجود تھیں جہاں ان کے گاوں بنڈلی کے بہت سے لوگ بیرونِ ملک گئے اور پھر اُن کے حالات بدل گئے۔

انھیں بھی یہی راستہ نظر آیا لیکن یہ راستہ بہت خطرناک تھا۔ اس میں انسانی سمگلروں کی مدد سے غیر قانونی طور پر انھوں نے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنا تھی۔

اس میں ہوائی سفر کے بعد انھوں نے افریقی ملک لیبیا جانا تھا جہاں سے انھیں افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع بحرِ روم کے پانیوں پر ایک بہت ہی چھوٹی سی کشتی میں سفر کرنا تھا جو عام طور پر گنجائش سے کہیں زیادہ بھری ہوتی ہیں۔

بہت سے ایسے واقعات موجود تھے جن مین بحرِ روم کو عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ایسی کشتیاں الٹ گئیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں لیکن جب ایک ماہ دس دن قبل محمد یاسر نے انسانی سمگلروں کی مدد سے یہ سفر اپنانے کے لیے گھر چھوڑا تو وہ اکیلے نہیں تھے۔

ان کے گاؤں کے درجنوں نوجوان اس پُرخطر سفر کے لیے یا تو چند روز پہلے ہی جا چکے تھے، یا ان کے ساتھ جا رہے تھے اور کچھ ان کے بعد کے دنوں میں ان کے پیچھے آنے والے تھے۔

بحرِ روم میں یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی میں بنڈلی گاؤں کے لگ بھگ 20 سے زیادہ مرد سوار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

’سارا کیا دھرا ایجنٹ کا ہے‘

گاؤں کے ان ہی افراد میں 26 سالہ ساجد اسلم بھی شامل تھے۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد سے والد کے ساتھ ہاتھ بٹانے کے لیے قریب ہی واقع کھوئی رتہ شہر میں اپنی دکان پر کام کرتے تھے۔

ان کی چھوٹی بہن اریبہ اسلم بی اے کی طالبہ ہیں جنھیں اب تک یقین نہیں آ رہا کہ ان کے بھائی شاید اب کبھی واپس نہ آ سکیں گے۔

وہ بات کرنے کے لیے تمام تر ہمت مجتمع کرنے کے باوجود جب بات کرنے لگیں تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

’میرے والد بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ ہم دو بہنیں پڑھ رہی ہیں، وہ ہمارے گھر کا سہارا تھا۔ اب ہم کیا کریں گے۔‘

محمد ایوب

،تصویر کا کیپشن

کشتی کو ڈوبے اب کئی دن بیت چکے ہیں لیکن پھر بھی محمد ایوب کو امید ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہو گیا ہو اور ان کے بھائی محمد یاسر اب بھی زندہ ہوں

اریبہ کو بے بسی کے ساتھ شدید غصہ بھی ہے اور اس غصے کا رخ ان انسانی سمگلروں کی طرف ہے جو ان کے ’بھائی کو ورغلا کر لے گئے۔‘

وہ کتہی ہیں کہ یہ سارا کیا دھرا ایجنٹوں کا ہے۔ ’انھوں نے میرے بھائی کو سبز باغ دکھائے۔ وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے یورپ کی طرف گئے اور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔‘ اس کے بعد وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے ان کے والد راجہ محمد اسلم انھیں دلاسہ دینے کی کوشش کرتے رہے۔

راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ ان کے خاندان سے بہت سے لڑکے پہلے بھی اسی طرح انسانی سمگلروں کی مدد سے یورپ جانے کی کوشش کر چکے تھے اور کچھ وہاں پہنچ بھی چکے تھے۔ ان کے گاؤں کے بہت سے لڑکے بھی اسی راستے سے گئے تھے۔ خود ساجد اسلم کے چند کزنز ایک سے زیادہ کوششیں کر چکے تھے۔

انسانی سمگلر کہاں سے اور کیسے ملتے ہیں؟

راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ یہ سمگلر زیادہ تر ان ہی کے علاقے کے ہوتے ہیں جنھیں سب جانتے ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان لڑکوں کو راستہ دکھاتے ہیں کہ بغیر ویزے کے بھی یورپ جانا ممکن ہے اور وہاں جا کر ان کی زندگی بدل جائے گی۔

’میں نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ یہ بہت خطرناک راستہ ہے لیکن وہ بضد تھا۔ تو مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر میں نے اس کو زیادہ روکا یا پیسے نہ دیے تو وہ گھر سے بھاگ کر بھی یہ قدم اٹھا لے گا۔‘

بنڈلی کے رہائشی محمد ایوب کے ساتھ معاملہ قدرے مختلف تھا۔ ان کے بھائی محمد یاسر نے خاندان کی مشاورت سے فیصلہ کیا تھا۔ پھر انھوں نے کسی ’انسانی سمگلر ایجنٹ‘ سے رابطہ کیا جو راولپنڈی میں رہتا تھا۔ محمد یاسر کے علاوہ اس ایجنٹ سے ان کے گھر کے کسی فرد کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

’اس کے ساتھ بس فون پر ہی رابطہ تھا۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ صرف میرے بھائی کو ہی علم تھا کہ وہ اس سے کیسے ملا۔‘

راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ یہ ایجنٹں مختلف گروپوں میں کام کرتے ہیں۔ یہاں کے ایجنٹس کا کام صرف یہاں سے لوگوں کو تیار کرنا، پیسے لینا اور انھیں اگلی منزل کی طرف روانہ کر دینا ہوتا ہے۔ آگے دوسرے ایجنٹ ہوتے ہیں اور پھر لیبیا میں پہنچ کر بڑے ایجنٹس ہوتے ہیں۔

ساجد اسلم

محمد یاسر اور ساجد اسلم بحرِ روم تک کیسے پہنچے؟

محمد ایوب نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی نے لگ بھگ ایک ماہ قبل خاندان والوں سے آخری ملاقات کی اور وہ بنڈلی سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ اسلام آباد سے ایجنٹ نے انھیں ٹکٹ دے کر جہاز پر بٹھایا۔ اسی ٹکٹ پر انھیں اسلام آباد سے لیبیا تک سفر کرنا تھا اور راستے میں جہاز کو پہلے دبئی اور پھر مصر میں رکنا تھا۔ ساجد اسلم کا سفر بھی بالکل ایسا ہی تھا۔

ساجد کے کزن وسیم اکرم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مصر سے لیبیا جانے کے لیے ایجنٹس نے انھیں کچھ پرمٹ دیا جو جعلی ہوتا ہے اور اس پر لیبیا میں داخلہ غیر قانونی ہوتا ہے ’لیکن لیبیا میں حکومت وغیرہ تو ہے نہیں اس لیے وہاں جانا آسان ہوتا ہے اس لیے سارے ایجنٹس لیبیا ہی کا انتخاب کر رہے ہیں۔‘

محمد ایوب کہتے ہیں کہ جب ان کے بھائی محمد یاسر لیبیا پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں سے فون پر اطلاع دی تو پھر ایجنٹ کے ساتھ معاہدے کے مطابق انھوں نے یہاں 22 لاکھ روپے کی رقم ایجنٹ کے بجھوا دی۔ یہ پیسے انھوں نے مختلف رشتہ داروں اور دوستوں سے ادھار لی تھی۔

ان کا خیال تھا کہ جب ان کے بھائی یورپ پہنچ کر کمانا شروع کر دیں گے تو وہ تمام لوگوں کو رقم واپس کر دیں گے لیکن اب وہ یہ کیسے یہ رقم لوٹائیں گے، انھیں نہیں معلوم۔

یہ

لیبیا پہنچنے پر کیا ہوتا ہے؟

محمد ایوب کہتے ہیں کہ لیبیا پہنچ کر بس انتظار ہوتا رہا کہ کب کشتی تیار ہو اور کب ان کے بھائی اس پر سوار ہو کر یورپ کی طرف سفر شروع کریں۔ اس انتظار کے دوران ان کے بھائی کو بہت کٹھن دن بھی گزارنے پڑے۔

’ایک دن اس نے فون کیا اور بتایا کہ انھوں نے مجھے کھانے کے لیے تین چار دن سے کچھ نہیں دیا۔ میں تو بالکل لاغر ہو گیا ہوں، کیا کروں۔ اس کے بعد ہم نے یہاں ایجنٹ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ یہ کیا ہو رہا۔ ایسے حالات ہیں تو یا اس کو واپس بھیج دو یا آگے یورپ بھیجو۔ آخر تم نے پیسے لیے ہیں، 22 لاکھ روپے لیے ہیں۔‘

اس کے ایک دو روز بعد ہی محمد یاسر کی کشتی پر جانے کی باری آ گئی۔ انھوں نے اپنے خاندان والوں کو بتایا کہ ’آج میں جا رہا ہوں۔ میں کشتی پر بیٹھ گیا ہوں۔‘

ساجد اسلم بھی اسی کشتی پر سوار ہو گئے تھے۔ وہ بھی ایجنٹ کو 22 لاکھ روپے ادا کر کے آ رہے تھے۔ ان کی اپنی بہن اریبہ اسلم سے فون پر بات ہوئی تھی۔

’انھوں نے بتایا تھا کہ وہ تین دن بعد یورپ پہنچ جائیں گے لیکن جب سات دن گزر گئے اور ان سے رابطہ نہیں ہوا تو ہمیں خوف ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔‘

راجہ محمد اسلم کا خاندان

،تصویر کا کیپشن

راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ ان کے خاندان سے بہت سے لڑکے انسانی سمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچ چکے ہیں

بحیرۂ روم میں کیا ہوا؟

محمد ایوب اور راجہ محمد اسلم کہتے ہیں کہ عموماً اس قسم کے سفر پر تین دن ہی لگتے تھے جن میں لوگ لیبیا سے یورپ پہنچ جاتے تھے۔ جس کشتی پر ان کے بیٹے سوار ہوئے تھے اس کو لیبیا سے نکلے تین دن سے زیادہ گزر چکے تھے۔ ان کا اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔

انھوں نے پاکستان میں موجود ایجنٹس کو فون کیا اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کے بیٹے کہاں ہیں۔ ’وہ پہلے تو ٹال مٹول کرتے رہے کہ آج فلاں فلاں جگہ پر ہیں کل یورپ کے پانیوں میں داخل ہو جائیں گے لیکن پھر ایک دن انھوں نے اپنے فون بند کر دیے۔‘

اس کے بعد یونان سے راجہ محمد اسلم کے کسی عزیز نے ان کو خبر دی کی تارکین وطن کی لیبیا سے یورپ جانے والی کشتی کو حادثہ پیش آ گیا ہے اور وہ ڈوب گئی ہے۔ اس کے بعد خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ صرف 80 کے لگ بھگ افراد کی جان بچائی جا سکی تھی جن میں صرف 12 پاکستانی شامل تھے۔ ان میں سے دو کا تعلق بنڈلی سے بھی تھا لیکن وہ محمد یاسر اور ساجد اسلم نہیں تھے۔

محمد ایوب اور راجہ محمد اسلم کے خاندانوں کو ایک مبہم سی امید تھی کہ شاید ان کے پیارے اس کشتی میں سوار ہی نہ ہوئے ہوں لیکن بنڈلی کے دو زندہ بچ جانے والوں نے اپنے پیغامات میں بتایا کہ وہ ان کے ساتھ ہی کشتی میں سوار تھے۔ ان کے مطابق بنڈلی سے تعلق رکھنے والے 28 افراد اس کشتی میں سوار تھے۔

’جو بھی ہونا ہے، اب جلد ہو جائے‘

تصویر

محمد ایوب نے اب بھی مکمل طور پر امید نہیں چھوڑی لیکن وہ کہتے ہیں انتظار کی اذیت برداشت کرنا اب ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

’اگر ہمارا بھائی زندہ نہیں بھی تو کم از کم ہمیں اس کی لاش مل جائے تا کہ ہم اس کی تدفین کر پائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تمام تر حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان کے بھائی کے زندہ بچ جانے کی امید کم ہے لیکن وہ جب تک خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتے، وہ امید قائم ہی رکھیں گے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ جو پاکستانی اب تک ’لاپتہ‘ ہیں انھیں واپس لانے میں وقت لگے گا۔

کمشنر میرپور چوہدری شوکت علی نے بی بی سی کو بتایا کہ میرپور ڈویژن سے لگ بھگ 23 ایسے افراد ہیں جن کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ کشتی میں سوار تھے۔ ان میں سے صرف دو زندہ بچائے گئے۔ باقی افراد کے زندہ بچنے کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کمشنر میرپور کا کہنا ہے کہ حکومت جلد متاثرہ خاندان کے افراد کے ڈی این اے نمونے جمع کرنے کا عمل شروع کر رہی ہے۔ یہ نمونے یونان بھجوائے جائیں گے جہاں مردہ حالت میں ملنے والوں کے ساتھ ان کو میچ کیا جائے گا۔

’اگر ان کے ڈی این اے میچ ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی لاشوں کو پاکستان لانے کے عمل کا آغاز ہو گا۔‘

اس تمام عمل مین کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اس وقت تک محمد ایوب اور راجہ محمد اسلم سمیت لگ بھگ 20 سے زیادہ خاندان بے بسی، مایوسی اور ایک مبہم سی امید کے دھاگے سے بندھے رہیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ