انڈیا میں سعودی ریفائنری کی تعمیر کے خلاف گاؤں والے سڑک پر لیٹ کر احتجاج کیوں کر رہے ہیں

women protest
،تصویر کا کیپشن

عورتوں کی قیادت میں مظاہرین نے سخت گرمی میں سڑکوں پر لیٹ کر حکام کو مجوزہ ریفائری کے مقام تک پہنچنے نہ دیا

  • مصنف, نکھل انعامدار
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

’ہم کسی عرب ملک کے گندے تیل کو اپنا صاف ستھرہ ماحول تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

مانشی بول ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جو ریاست مہاراشٹر کے کونکان خطے میں دنیا کی سب سے بڑی پیٹرو کیمیکل ریفائنری کی تعمیر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

سطح مرتفع کونکان کا علاقہ ماہی گیروں کے دیہات اور الفانسو آموں کے باغات سے گھرا ہوا ہے۔

اپریل کے آخر میں ریاست مہاراشٹر کے ضلع رتناگر میں اس وقت مظاہرے شروع ہوئے جب حکام نے انڈین، سعودی عرب اور ابو ظہبی کی آئل کمپنیوں کے کنسورشیم کی جانب سے میگا ریفائنری پراجیکٹ کے لیے زمین کی ٹیسٹنگ شروع کی۔

عورتوں کی قیادت میں مظاہرین نے اپریل کی گرمی میں سڑکوں پر لیٹ کر حکام کو مجوزہ ریفائری کے مقام تک پہنچنے نہ دیا۔ کچھ مظاہرین نے احتجاج کی خاطر اپنے سر منڈوا لیے اور کئی نے بھوک ہڑتال شروع کی۔

حکام نے بات چیت کے ذریعے احتجاج ختم میں ناکامی کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر کے لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ کچھ مظاہرین کو کئی روز تک حراست میں رکھا گیا۔

حکام نے مظاہرین کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا پورے علاقے میں اس کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

مہاراشٹر میں دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری کی تعمیر کے خلاف ایک عشرے سے احتجاج جاری ہے۔

جب ہم نے اس گاؤں کا دورہ کیا جہاں اس ریفائنری نے بننا ہے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے لوگوں میں اس منصوبے کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

مانشی بول کہتی ہیں: ’وہ کہتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع ایک بنجر زمین ہے لیکن یہ بنجر ہمارے چشموں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے، ایک ایسی جگہ جہاں ہم بیر کھانے کے لیے جاتے ہیں اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔‘

Imtiaz Bhatnakar

،تصویر کا کیپشن

اس منصوبے کی وجہ سے اپنا روزگار کھو جانے کی فکر لاحق رہتی ہے: امتیاز بھٹکر

اپنی کشتی پر سوار ماہی گیر امتیاز بھٹکر نے بتایا کہ مجوزہ ریفائنری کی وجہ سے وہ اپنا روزگار چھن جانے کے بارے میں فکرمند ہیں۔

بھٹکر نے بتایا: ’ہمیں 10 کلومیٹر کے دائرے میں مچھلی پکڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ تیل سے بھرے ٹینکر سمندر میں پھنس جائیں گے۔ تقریبا 30 سے 40 ہزار مقامی اور غیر مقامی لوگوں کا اس گاؤں میں ماہی گیری پر انحصار ہے۔ وہ کیا کریں گے؟‘

یہ علاقہ آموں کی مشہور قسم الفانسو کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ اس علاقے میں آم کے کاشتکاروں نے ہمیں بتایا کہ ذرا سی فضائی آلودگی اور جنگلات کی کٹائی ان کی پیداوار کو شدید نقصان پہنچائے گی کیونکہ الفانسو قسم ہوا اور موسم کی صورتحال کے بارے میں کافی حساس ہے۔

سیاست میں الجھا منصوبہ

مہاراشٹر کی ریاستی حکومتیں علاقے میں ریفائنری کے قیام کے بارے میں اپنا موقف بدلتی رہی ہیں۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اس منصوبے کے حق میں ہوتے ہیں لیکن اقتدار کے باہر وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

ابتدائی طور پر اس منصوبے پر 40 ارب ڈالر کی لاگت کا اندازہ لگایا گیا تھا جس کی سالانہ پیدوار 60 ملین ٹن ہو گی لیکن منصوبہ بروقت شروع نہ ہو پانے کی وجہ سے اس کا جحم ایک تہائی کر دیا گیا ہے۔

2015 میں اس منصوبے کو رتناگری ضلع کے گاؤں نانار میں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن مقامی آبادی، ماحولیاتی کارکنوں اور گاؤں کی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے اسے بارسو گاؤں میں منتقل کیا جو نانار گاؤں سے چند کلو میٹر دور ہے۔

مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے گذشتہ برس اس منصوبے کو بحال کیا تھا۔ لیکن اب جب ادھو ٹھاکرے اقتدار میں نہیں رہے تو وہ اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

Manshi Bole

،تصویر کا کیپشن

’وہ کہتے ہیں کہ یہ بنجر زمین ہے لیکن یہ بنجر ہمارے چشموں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے:، مانشی بول

مہاراشٹر کی موجودہ حکومت جو ادھو ٹھاکرے کی پارٹی سے علیحدہ ہونے والے دھڑے اور بی جے پی کے اتحاد پر مشتمل ہے، اس کا کہنا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی مخالفت کے سیاسی محرکات ہیں۔

وزیر مملکت ادے سامنت نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’یہ آلودگی سے پاک گرین ریفائنری ہے۔ بطور وزیر صنعت یہ میرا کام ہے کہ میں ان لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کروں جنھیں بیرونی طاقتیں گمراہ کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ان دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں کہ ریفائنری کی تعمیر سے علاقے میں چٹانوں کی نقش نگاری کو کوئی نقصان پہنچے گا، جو اب عارضی طور پر یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست کا حصہ ہیں۔

وزیر مملکت نے دعوی کیا کہ حکومت پہلے ہی منصوبے کے لیے مطلوبہ پانچ ہزار ایکڑ میں سے تین ہزار ایکٹر زمین حاصل کر چکی ہے۔

البتہ بی بی سی نے موقع پر جو مشاہدہ کیا وہ وزیر مملکت کے دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، اس منصوبے کے لیے مٹی کی جانچ کے لیے جہاں کھدائی شروع کی گئی ہے وہ مقام نقش و نگار والی چٹانوں سے بمشکل چند میٹر کی دوری پر ہیں۔

حکام نے کم از کم چھ مقامی دیہی کونسلوں کے اعتراضات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ جہاں ریفائنری بننی ہے وہ زمین ان بستیوں کی ملکیت نہیں ہے۔

لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں نے لوگوں سے دھوکہ دہی سے کم داموں زمین حاصل کی ہے۔ ان سرمایہ کاروں میں سیاست دان، پولیس اہلکار اور سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں۔

ریفائنری مخالف کارکن ستیہ جیت چوہان نے کہا کہ ’حکومت اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ مقامی لوگوں کے بجائے 200 سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں دے رہی ہے۔‘

ماحولیات بمقابلہ معیشت

اس علاقے میں ریفائنری کے قیام کے حوالے سے رائے تقسیم ہے۔ کچھ لوگ اس کی مخالفت قدرتی ماحول کو خراب کرنے کی وجہ سے کر رہے تھے تو کچھ کی مخالفت کی وجہ علاقائی، نظریاتی جھکاؤ اور طبقاتی تقسیم ہے۔

دیہی علاقوں سے دور، راجا پور شہر کے ایک چھوٹے سے کاروبار کے مالک سورج پیڈنیکر کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے رتناگری ضلع کی قسمت کھل جائے گی جو ملک کے سب سے امیر ترین صوبے میں صنعتی طور پر پسماندہ ہے۔

حکومت کے اپنے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ مہاراشٹر کی جی ڈی پی میں 8.5 فیصد کا اضافہ ہوگا۔

rock carvings

پیڈنیکر نے کہا: ’نوجوان مردوں اور عورتوں کی پوری نسل کو روزی کمانے کے لیے ہر سال ممبئی اور پونے جانا پڑتا ہے۔ گاؤں خالی ہو رہے ہیں کیوںکہ یہاں کوئی روزگار نہیں ہے۔‘

پیڈنیکر کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمیں یہاں ریفائنری مل جاتی ہے اور اس میں 50 ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا، تو آبادی بڑھ جائے گی اور اس سے مقامی کاروباروں کو مدد ملے گی۔ ہم اس کی مخالفت کیوں کریں؟‘

ان کے خیالات کی بازگشت بڑے قصبوں کے کئی دوسرے لوگوں نے بھی کی ہے جن کا روایتی ذریعہ معاش اس منصوبے سے براہ راست متاثر نہیں ہوگا۔ لیکن گاؤں والے ان کی رائےسے متفق نہیں ہیں۔

ماہی گیر امتیاز بھٹکر کا کہنا ہے: ’یہ نام نہاد نوکریاں تعلیم یافتہ گریجویٹس کو جائیں گی، مقامی ماہی گیروں کو نہیں۔ ہمیں ایسی نوکریوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مانشی بول کا کہنا ہے کہ اگر مقامی آبادی میں سے کچھ کو نوکری ملتی بھی ہے تو وہ بھی خاکروب اور چوکیدار کی ہو گی۔

ریاست میں اس منصوبے کی مخالفت میں کھڑے دیہاتیوں سے ہمدردی بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں پونے میں مقامی لکھاریوں، شاعروں اور مزاحمتی کارکنوں کی میٹنگ میں اس منصوبے کو ختم کرنے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کا عہد کیا گیا۔

ستیہ چوہان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ لوگوں سے کہیں گے کہ وہ ایسے سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں جو ریفائنری کے حق میں ہیں۔

1990 کی دہائی میں اینرون سے لے کر 2000 کی دہائی کے اوائل میں فرانس کی جانب سے یہاں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کی کوشش تک ریلائنس گروپ اور ٹاٹا گروپ جیسے ہندوستانی گروپوں کو مقامی مزاحمتی گروپوں نے کونکن سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مجوزہ ریفائنری کا بھی یہی حشر ہوتا ہے یا نہیں۔ لیکن مقامی دیہاتیوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اس منصوبے کو یہاں سے ختم کرنے کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑیں گے۔

ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ خطہ انڈیا کے معاشی عزائم اور اس کے لوگوں کی ماحولیاتی حساسیت کے درمیان ایک فالٹ لائن بن گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ