سعودی عرب اور چین میں 10 ارب ڈالر کے نئے معاہدے کیا انڈیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں؟
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اورچینی صدر شی جن پنگ
- مصنف, ابھینو گوئل
- عہدہ, نمائندہ بی بی سی ہندی، دہلی
دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب اور سب سے زیادہ توانائی کا استعمال کرنے والے ملک چین کے درمیان تعلقات کی بنیاد اب تک تو تیل ہی رہی ہے لیکن اب ان دونوں ممالک کے تعلقات کی تصویر بدل رہی ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سنیچر اوراتوار کو ہونے والی 10ویں دو روزہ عرب چین بزنس کانفرنس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان دس ارب ڈالر کے 30 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی عرب کے وزیر اعظم محمد بن سلمان نے فون پر بات کی تھی جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا تھا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی بات چیت تھی۔ سعودی عرب نے وزیراعظم مودی اور سعودی ولی عہد کے درمیان بات چیت کے بعد ہی چین کے ساتھ اہم تجارتی معاہدے کیے ہیں۔
اس سے قبل سعودی عرب نے انڈیا کے زیر انتظام علاقے کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں منعقدہ جی-20 اجلاس میں اپنا نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔ پاکستان نے سرینگر میں جی 20 کے اجلاس کے انعقاد پر اعتراض اور احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
پاکستان کے اعتراض کے بعد چین، سعودی عرب، ترکی اور مصر نے جی 20 اجلاس میں اپنے نمائندے نہیں بھیجے تھے۔ خیال رہے کہ انڈیا رواں سال جی 20 کی صدارت کر رہا ہے اور اس کا سربراہی اجلاس نومبر کے مہینے میں نئی دہلی میں ہونا ہے۔
کسی ایک کے انتخاب کے خلاف
عرب، چین سربراہی اجلاس کے دوران سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان سے دونوں ممالک کے تعلقات پر مغربی تنقید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسے نظر انداز کرتا ہوں۔۔۔ کیونکہ ایک کاروباری شخصیت کے طور پر آپ وہیں جائیں گے جہاں آپ کو مواقع نظر آئيں گے۔’
انھوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسا کوئی آپشن نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں دونوں (چین یا امریکہ) میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ سعودی عرب کے سامنے ایسی صورت حال نہیں آنی چاہیے کہ انھیں چین یا مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔
چند روز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے جس کے بعد گذشتہ دنوں ریاض میں چینی سرمایہ کاروں اور تاجروں کا ہجوم دیکھا گیا۔ یہ پیش رفت سعودی عرب کی بدلتی ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر چین سعودی عرب کے بہت قریب آ جاتا ہے تو انڈیا کے لیے اس کا کیا مطلب ہو گا، کیوںکہ چین کو انڈیا سکیورٹی کے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور دونوں کے درمیان سرحد کے متعلق تنازعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں چین جس طرح آگے بڑھ رہا ہے اس کے مقابلے میں انڈیا کہاں کھڑا ہے؟ بھارت کی تیاری کیا ہے اور اس کا انڈیا پر کیا اثر پڑے گا؟
سعودی اور چین کے بڑھتے تعلقات
حال ہی میں جب مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب نے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ہر طرف چین کی سفارتکاری کا چرچا ہونے لگا۔
چین نے سات سال بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ معاہدہ چین کے اعلیٰ سفارتکار وانگ یی کی ثالثی میں ہوا۔ سنہ 2016 میں، سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین تہران میں واقع سعودی سفارت خانے میں داخل ہو گئے تھے جس کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ ویسٹ ایشین اسٹڈیز کی پروفیسر سجتا ایشوریہ کا خیال ہے کہ چین کا ایسا کرنا ان کی دور اندیشی کو ظاہر کرتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک بات کرنا چاہتے تھے لیکن ایک دیوار تھی جسے چین نے ہٹا دیا۔’
اس کے بعد دسمبر 2022 میں چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دوران انھوں نے مطالبہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تیل کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کی جائے جبکہ دنیا میں تیل کی سب سے زیادہ درآمدات ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مطالبہ تھا جس کا براہ راست اثر ڈالر کی قدر پر پڑتا۔
سعودی عرب چین کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سعودی عرب تیل پر مبنی اپنی معیشت کو مزید متنوع بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں: ’سعودی عرب کی تیل پر مبنی معیشت آنے والے وقت میں بتدریج کمزور ہوتی جائے گی۔ اسی کے مدنظر یہ تیاری کی جا رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں سعودی عرب نے پیٹرو کیمیکل کے شعبے کو بہت فروغ دیا ہے۔ یہ شعبہ بھی تیل اور گیس پر منحصر ہے۔‘
خارجہ امور کے ماہر قمر آغا عرب چین بزنس کانفرنس میں طے پانے والے نئے معاہدوں کو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سعودی عرب کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہا ہے۔
انھوں نے کہا: ’سعودی عرب چین کے ساتھ ساتھ روس سے بھی دوستی کر رہا ہے۔ اس کے انڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ یہی نہیں جاپان اور جنوبی کوریا بھی ان کی خارجہ پالیسی میں جگہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے تعلقات کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں کر رہے ہیں۔‘
قمر آغا کا کہنا ہے کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک نئی پالیسی لائے ہیں، جس میں نئے شہر بنانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری شامل ہے، جس کے تحت وہ چین کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
سجاتا ایشوریہ بھی سعودی عرب کی جانب سے کسی ایک ملک پر انحصار کیے بغیر کئی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انڈیا نے روس پر ہتھیاروں کا انحصار کم کر کے دوسرے ممالک کا رُخ کیا ہے، سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور محمد بن سلمان (فائل فوٹو)
خلیجی ممالک میں مغرب کا خوف
20 سال قبل جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو وہ مغربی ایشیا کی ایک بڑی طاقت ہوا کرتا تھا، لیکن امریکی تسلط کی یہ صورت حال گذشتہ برسوں میں بہت بدل چکی ہے۔ چین امریکہ کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مغربی ایشیا کے ممالک میں ایک نیا خوف منڈلا رہا ہے۔ اس کے مرکز میں مغربی ممالک بھی ہیں۔
قمر آغا کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائی ہیں۔ روس کے کروڑوں ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبے مغربی ممالک میں بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے مغربی ایشیا کے ممالک میں بھی خوف بڑھ گیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کا پیسہ اب مغربی ممالک میں محفوظ نہیں رہا۔ وہ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک کے بجائے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں۔
امریکہ سمیت مغربی ممالک نے ایک جانب تو یوکرین کی مالی امداد کی ہے جبکہ دوسری جانب روس پر پابندیاں لگا کر اس یوکرین کے خلاف جنگ میں کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’مغربی ممالک پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مغربی ایشیا کے ممالک کا ڈرنا حق بجانب ہے۔’
وہ کہتی ہیں: ’چین کی ایک خاص حکمت عملی ہے کہ وہ مغربی ممالک کی طرح کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔’
چین کے صدر شی جن پنگ
کیا سعودی عرب چین کیمپ میں جائے گا؟
خارجہ امور کے ماہر قمر آغا کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا بالکل غلط ہے کہ سعودی عرب چین کے کیمپ میں چلا جائے گا۔ عرب ممالک میں چین کی حمایت بالکل نہیں ہے۔ جو معاہدے ہوئے ہیں وہ ایک حکومت اور دوسری حکومت کے ساتھ ہیں۔ چین کے سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے عرب ممالک کے لوگ چین کو پسند نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور عرب تعلقات دو تہذیب و تمدن کے رشتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کبھی ختم ہو گا۔ کورونا وباء سے پہلے خلیجی خطے میں تقریباً 75 لاکھ لوگ کام کر رہے تھے، صرف سعودی عرب میں تقریباً 25 لاکھ انڈین ہوں گے، جو وہاں کی آبادی کے لحاظ سے ایک اچھی تعداد ہے۔‘
انڈین ورکرز کی خلیجی ممالک میں بہت اچھی شبیہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انڈین ورکرز بہت ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور رقم جمع کرکے انڈیا واپس آتے ہیں۔ انڈین ورکرز انگریزی بھی بول لیتے ہیں۔ کمپیوٹر بھی چلاتے ہیں۔ تکنیکی طور بھی ماہر ہیں۔ چین سے مزدور زیادہ تر چینی منصوبوں میں جاتے ہیں، کیونکہ انھیں زبان کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔’
انڈین پی ایم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ
کیا انڈیا کی پریشانی بڑھے گی؟
ایک طرف ڈوکلام سے گالوان تک انڈیا اور چین کی سرحدوں پر کچھ عرصے سے کشیدگی بڑھی ہوئی ہے تو دوسری طرف انڈیا کے روایتی خلیجی دوست ممالک کے ساتھ چین اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔
سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا چاہے خود کو کتنی ہی بڑی طاقت کہے، ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ چین ہمارے روایتی پارٹنرز کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے وہ سعودی عرب میں انڈیا کے اثرات کو کم کرے گا کیونکہ جہاں سرمایہ کاری بڑھتی ہے وہاں دوستی بھی بڑھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ چین کی طرح انڈیا بھی خلیجی ممالک میں بڑے معاہدے کیوں نہیں کر پا رہا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے سجاتا کا کہنا ہے کہ انڈین معیشت کی حالت بہت خراب ہے۔ ایران تمام پابندیوں کے بعد ہم سے بہتر کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم چین کی بات کریں تو اس کی معیشت تقریباً 17 کھرب ڈالر ہے جب کہ انڈیا کی معیشت تقریباً 3 کھرب ڈالر ہے۔ چین کے پاس پیسہ ہے، ہنر ہے جسے وہ استعمال کر رہا ہے اور چین مرکزی دنیا کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
سجاتا ایشوریا نے انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر بھی سوال اٹھایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اثر خارجہ پالیسی پر پڑ رہا ہے۔ یہ ممالک انڈیا میں اسلام کو خطرے میں دیکھ رہے ہیں جو انڈیا کے لیے اچھا نہیں ہے۔ نوپور شرما معاملے میں انڈیا کو خلیجی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
امریکہ، چین اور متحدہ امارات کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی عرب اور انڈیا کے درمیان مودی حکومت کے دور میں کئی محاذوں پر تعلقات بہتر ہوئے ہیں لیکن یوکرین اور روس کی جنگ کے بعد بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر کی وجہ سے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔
Comments are closed.