وہ تجرباتی سرجری جو کینسر سے متاثرہ خواتین کی ماں بننے کی صلاحیت کو محفوظ بناتی ہے
کینسر اس وقت تک بانجھ پن کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ اس بیماری سے خواتین کے مخصوص اعضا براہ راست متاثر نہ ہوں۔ تاہم ریڈیو تھراپی کروانے والی خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
ریٹان ریبیرو نے اسی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ایسی تکنیک تیار کی ہے جسے ’یوٹرائن ٹرانسپوزیشن‘ کہتے ہیں۔ اس تجرباتی تکنیک کا مقصد، جسے برازیل کے انسٹیٹیوٹ آف روبوٹک سرجری میں اپنایا گیا ہے، ایسی خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو محفوظ بنانا ہے جو ریڈیو تھراپی کروا رہی ہیں۔
اس طریقے کے تحت خواتین کی بچہ دانی سمیت مخصوص اعضا کو ان کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ تھراپی کے دوران براہ راست متاثر نہ ہوں۔ علاج کے بعد بچہ دانی سمیت ان اعضا کو ان کی اصل جگہ پر واپس منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اس تجرباتی تکنیک سے حال ہی میں 33 سالہ میک اپ آرٹسٹ کریم ڈوس سانٹوس نے فائدہ اٹھایا ہے۔
جون 2018 میں ان کو معلوم ہوا کہ وہ لائپو سارکوما سے متاثر ہیں۔ یہ ایک ایسا نادر سرطان ہے جو جسم کے فیٹی ٹشو میں جنم لیتا ہے۔
ان کو بتایا گیا کہ ان کو سرجری کی ضرورت ہو گی لیکن بعد میں ریڈیو تھراپی بھی کروانا ہو گی۔ تاہم اس علاج سے ان کی بچہ دانی متاثر ہو گی اور حاملہ ہونے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ ہی میرے بچے تھے لیکن 30 کی عمر کے بعد میں خاندان بنانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس لیے یہ خبر کافی بری تھی۔‘
اسی زمانے میں ان کو یوٹرائن ٹرانسپوزیشن نامی طریقہ علاج پر تحقیق کے بارے میں علم ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹر نے مجھے واضح کیا کہ یہ صرف ایک تحقیق ہے اور ابھی تک اس کے ذریعے کوئی خاتون حاملہ نہیں ہوئی اور وہ کسی بات کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ میں نے سرجری کروا لی۔‘
کریم نے بتایا کہ ’سرجری کے بعد پہلے 15 دن کافی تکلیف دہ تھے لیکن اس کے علاوہ کوئی اور پیچیدگی نہیں تھی۔‘
ریڈیو تھراپی مکمل ہو جانے کے تین ماہ بعد ان کے اعضا واپس اصلی جگہ پر منتقل کر دیے گئے۔
،تصویر کا ذریعہCarem Dos Santos
بعد ازاں ان میں دو مذید سرطانوں کی تشخیص ہوئی جن میں سے ایک ان کے پھیپھڑے میں تھا۔ انھوں نے علاج کروایا اور ان کے مطابق 2021 میں ان کی اپنے ہونے والے شوہر سے ملاقات ہوئی۔
’جب میرا علاج ختم ہو رہا تھا تو مجھے علم ہوا کہ میں حاملہ ہوں۔‘
’اب میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ میری پوری زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ تھا کیوں کہ مجھے ماں بننا بہت اچھا لگا۔‘
سروائیکل کینسر
2020 میں 33 سالہ انجیلیکا میں بھی سروائیکل یعنی بچہ دانی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹر نے پہلے کہا کہ وہ بچہ دانی نکال دیں گے لیکن اس وقت تک میرا کینسر اتنا پھیلا نہیں تھا۔ میں نے متبادل پر غور کیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا کافی مشکل تھا کہ بیماری کے ساتھ ساتھ وہ ماں بننے کا خواب بھی پورا نہیں کر سکیں گی۔
’میں بہت پریشان تھی کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت ماں نہ بننا چاہتی ہوں، لیکن جب کوئی یہ بتاتا ہے کہ آپ بچے پیدا نہیں کر سکتیں تو آپ کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے پاس یہ راستہ تھا کہ میں علاج روک کر حاملہ ہوتی یا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتی کیوں کہ مجھے ریڈیو تھراپی کروانا تھی۔‘
ایسے میں ان کو بھی اس تجرباتی سرجری کے بارے میں علم ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے مجھے غیر یقینی تھی کیوں کہ یہ ایک بلکل نئی تحقیق تھی اور مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ ٹھیک ہو گی۔‘
اس کے باوجود انھوں نے سرجری کروا لی اور 15 دن بعد کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی سے کینسر کا علاج کروایا۔
’کیمو اور ریڈیو تھراپی کے ایک ہفتہ بعد میرا دوبارہ آپریشن ہوا اور پھر بحالی کا عمل بلکل صحیح طریقے سے مکمل ہوا۔‘
اکتوبر 2021 میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب ماں بننے کا وقت آ چکا ہے۔ اگلے سال وہ حاملہ ہو چکی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ سرجری کروانا ایک بہت اچھا فیصلہ تھا۔
،تصویر کا ذریعہANGELICA HODECKER AZAMBUJA
یوٹرائن ٹرانسپوزیشن کیا ہے؟
یہ سرجری روبوٹ ٹیکنالوجی سے کی جاتی ہے جس میں بچہ دانی، فیلوپیئن ٹیوب اور بیضہ دانی نکال کر تھوڑا اوپر رکھ دی جاتی ہیں تاکہ ریڈیو تھراپی سے ان کو نقصان نہ پہنچے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ریڈیو تھراپی حاملہ ہونے کی صلاحیت کو کم کر سکتی ہے۔
اس تکنیک کے موجد برازیلین سرجن ریبیرو کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں خطرات نہیں ہیں اور ایک سے دو دن میں مریض کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد درد یا تکلیف کا احساس رہتا ہے لیکن مریض عام زندگی بسر کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ آپریشن کے بعد بھی بچہ دانی کام رہتی رہتی ہے اگرچہ کہ وہ اصلی جگہ پر نہیں ہوتی۔ تاہم علاج کے بعد اسے واپس اصلی جگہ پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
یہ طریقہ ان مریضوں کے لیے مناسب ہے جن کی آنتوں، مثانے، جنسی اعضا میں سرطان ہو یا پھر جن کو سارکوما ہو جو پٹھوں میں ہوتا ہے اور جن کے علاج کے دوران ریڈیو تھراپی کے چند سیشن حاملہ ہونے کی صلاحیت کم کر سکتے ہیں۔
ریناٹو موریٹی روبوٹک سرجری پروگرام کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند حالات میں یہ سرجری نہیں کروانی چاہیے۔
’یہ ضروری ہے کہ بیماری سے بیضہ دانی یا ٹیوب متاثر نہ ہوئی ہو۔ اگر ایسے مریضوں میں بیضہ دانی کام نہیں کر رہی تو بچہ دانی نکالی نہیں جا سکتی۔ اگر کوئی پہلے ہی ریڈیو تھراپی کروا چکا ہے تب بھی یہ سرجری کرنا ممکن نہیں۔‘
معیار زندگی
ریبیرو کا کہنا ہے کہ سرطان کے علاج کا مقصد مریض کو ٹھیک کرنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا بھی ہے کہ ان کا معیار زندگی ویسا ہی ہو جیسا علاج شروع ہونے سے پہلے تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کی ٹانگ میں سرطان ہے تو ہم ٹانگ نہیں کاٹ دیں گے بلکہ ہم کوشش کریں گے کہ یہ ٹھیک ہو اور مریض صحتیاب ہو کر چلنے کے قابل رہے۔‘
اگرچہ اس تکنیک کے ذریعے کافی آپریشن کیے جا چکے ہیں تاہم اب تک یہ تجرباتی تکنیک ہے۔
2016 میں اسے ایک بین الاقوامی کانگریس برائے گائناکولوجی میں پیش کیا گیا اور اب سے شائع کیا جائے گا۔
اس تکنیک کے تحت پہلا آپریشن 2015 میں ہوا جس کے بعد سے جرمنی، روس، ارجنٹائن، کولمبیا، امریکہ اور اسرائیل سمیت کئی ممالک میں اس کا استعمال کیا جا چکا ہے۔
،تصویر کا ذریعہCarem Dos Santos
صرف برازیل میں 20 مریضوں نے یہ آپریشن کروایا ہے۔ تاہم ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو سکا۔
ریبیرو کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم تیسرے مرحلے میں ہیں جہاں مریضوں کی بڑی تعداد کو زیادہ عرصے کے لیے جانچا جائے گا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے مریض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ابھی تک حاملہ ہونے کی کوشش نہیں کی۔
برازیل میں اس صرف چار ہسپتالوں کو یہ سرجری کرنے کی اجازت ہے۔
ریبیرو کہتے ہیں کہ ’یہ سرجری نیشنل ریسرچ ایتھکس کمیٹی کی منظوری سے صرف بڑے ہسپتالوں میں ہی کی جاتی ہے کیوں کہ اکثر لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے تو ہاں، میں یہ کر سکتا ہوں۔‘
Comments are closed.