منگل16؍ذیقعد 1444ھ6؍جون2023ء

ایگزیکٹیو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کریں: چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ہے کہ ایگزیکٹیو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کریں، چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر ان کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے، بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جا سکتا، انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔

مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے آڈیو لیکس کے خلاف کیس سننے والے بینچ پر وفاق کے اعتراضات پر کہا کہ کیسے مفروضے پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت 2 ججز کا مفاد وابستہ ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں، ایگزیکٹیو نے اختیارات کی تقسیم میں مداخلت کی، اب حکومت آ کر کہہ رہی ہے کہ یہ ججز کیس نہ سنیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں کابینہ کے مؤقف کا دفاع کروں گا، کسی انفرادی وزیر کا نہیں، حکومت چاہتی تھی کہ انکوائری کمیشن آڈیوز کی تمام تر تحقیقات کرے۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، توہینِ عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے، توہینِ عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ آپ کس نکتے پر دلائل دیں گے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی کیس میں ججز کے ذاتی مفاد کے ٹکراؤ سے متعلق بات کروں گا۔

’’چیف جسٹس پر الزامات لگا کر بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہہ سکتے‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ایک کمی ہے، چیف جسٹس پاکستان آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں، اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائم مقام چیف جسٹس کام کرتا ہے، توہینِ عدالت کی درخواست اعتراضات ختم ہونے کے بعد دیکھ لیں گے، جج کو توہینِ عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا، اٹارنی جنرل صاحب! چیف جسٹس پر الزامات لگا کر بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جا سکتا، چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے، چیف جسٹس صرف غیر موجودگی میں اپنا قائم مقام مقرر کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کے پہلے حصے میں بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، بینچ کی تشکیل پر حکومت نے اعتراض اٹھایا ہے، انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف کیس سننے والے بینچ پر اعتراض ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیسے مفروضے پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت 2 ججز کا مفاد وابستہ ہے؟ ایگزیکٹیو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کریں، انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ پہلے اپنی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کے بارے میں پہلے بتائیں، حکومت کا کیا یہ کیس ہے کہ آڈیوز اوریجنل ہیں؟ کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا مؤقف اپنا رہی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کو مبینہ کہا ہے اور تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک اور وزراء نے پریس کانفرنس کر کے ان آڈیو کو پبلک کیا؟ وفاقی وزیرِ داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی، کیا یہ ان سے متعلقہ معاملہ تھا؟ آڈیوز کی تحقیقات کیے بغیر کیا میڈیا پر ان کی تشہیر کی جا سکتی ہے؟

’’ججوں کو عزیزوں، دوستوں سے متعلق مقدمات نہیں سننے چاہئیں‘‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کا ضابطۂ اخلاق کا آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ ججوں کو قریبی عزیزوں اور دوستوں سے متعلق مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آڈیوز کے درست ہونے یا نہ ہونے سے پہلے ہی حکومت نے انہیں پبلک کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا، تحقیقات کے بغیر کیا پریس کانفرنسز کرنی چاہیے تھیں؟ وزیرِ اعظم کو آ کر کہنا چاہیے تھا کہ وزراء کی پریس کانفرنس سے تعلق نہیں، قانون کے مطابق کیا بغیر حقیقت جانے حکومتی عہدے دار جج پر الزام لگا سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی وزیر کی پریس کانفرنس کو کابینہ کا فیصلہ یا بیان نہیں کہہ سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر اپنی مرضی سے بات کرے تو یہ کابینہ کا بیان تصور ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ وزراء کے بیانات 9 مئی سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزراء پریس کانفرنس میں سب کہہ چکے تو درخواست کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے بعد حکومت نے انکوائری کمیشن قائم کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتہ کیا کہ آڈیوز کا ریکارڈ کہاں سے آیا ہے اور یہ ریکارڈ کیسے ہو رہی ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا، حکومت چاہتی تھی انکوائری کمیشن آڈیوز کی تمام تر تحقیقات کرے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.