جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

سعودی عرب اور انڈیا کی تیل کی قیمتوں پر آپس میں کیوں ٹھن گئی ہے؟

سعودی عرب اور انڈیا کی تیل کی قیمتوں پر آپس میں کیوں ٹھن گئی ہے؟

  • زبیر احمد
  • بی بی سی نیوز، دہلی

Petrol

،تصویر کا ذریعہReuters

گذشتہ کچھ برسوں میں سعودی عرب اور انڈیا ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ دونوں ممالک میں سیاسی، سفارتی، عسکری، سکیورٹی اور تجارتی تعلقات قائم ہوئے اور پھر کبھی انڈیا اور کبھی سعودی عرب کی قیادت ایک دوسرے کی مہمان بنی۔

چھ برسوں میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی دو بار سعودی عرب کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

مگر بین الاقوامی تعلقات میں ہمیشہ ’سب اچھا‘ کی رپورٹ نہیں ہوتی اور ہر ملک اپنے بہترین قومی مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ یہی کچھ ان دو دوست ممالک کے معاملے میں بھی ہوا ہے اور اب اس کی وجہ بنی ہے تیل کی قیمتیں۔

خبر یہ ہے کہ سعودی عرب اور انڈیا میں خام تیل کی قیمت کے تعین پر آپس میں ٹھن گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حال ہی میں انڈیا کے تیل اور گیس کے وزیر دھرمندرا پردھان نے اپنے سعودی ہم منصب عبدالعزیز بن سلمان ال سعود کے اس بیان پر اعتراض کیا ہے، جس میں انھوں نے انڈیا سے کہا کہ وہ خام تیل کی قیمتیں کم کریں۔

سعودی عرب نے انڈیا کو ہدایت کی کہ وہ تیل کے ذخائر کو استعمال میں لائے جو اس نے گذشتہ برس اس وقت خریدا تھا جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم تھیں اور اس طرح سب حساب برابر ہو جائے گا۔

سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان انڈیا کو اس قدر ناگوار گزرا کہ وزیر اعظم مودی کی کابینہ کے وزیر پٹرولیئم دھرمندرا پردھان نے سعودی وزیر پٹرولیئم کے بیان کو ہی سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ’میں ایسے طریقہ کار سے اختلاف رکھتا ہوں۔ انڈیا کی تیل کے ذخائر کو استعمال کرنے کے بارے میں ایک اپنی حکمت عملی ہے۔ ہم خود اپنے مفادات کا صیحح معنوں میں ادراک رکھتے ہیں۔‘

اس بحث سے قبل کہ یہ تنازع انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ انڈیا میں تیل کا کتنا ذخیرہ موجود ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہSharath S

انڈیا کے تیل کے ذخائر

گذشتہ ماہ انڈین پارلیمنٹ کے ایوان بالا، راجیہ سبھا، میں دھرمندرا پردھان نے اپنے ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ انڈیا نے گذشتہ سال اپریل/مئی کے مہینوں میں سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو کا خوب فائدہ اٹھایا، جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی اور پھر اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔

ان کے مطابق انڈیا کے اس بروقت اقدام کی وجہ سے سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو مکمل بھر چکا ہے اور اس بروقت اقدام سے انڈیا کو تقریباً 5000 کروڑ کی بچت بھی ہوئی۔

انڈیا میں سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو لمیٹڈ انڈیا کی حکومت کا ایک ڈیپارٹمنٹ ہے جس کا کام تیل کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ نے ابھی تک تین مختلف جگہوں پر 5.33 ملین میٹرک ٹن کے ذخائر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام تین جگہوں کی نگرانی سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو کے پاس ہے۔

یہ ذخائر انڈیا کی دس دن تک ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔

انڈیا کے وزیر تیل نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نجی کمپنیوں کے پاس تیل کے ذخائر 64.5 دن تک انڈیا کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی کچھ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر انڈیا مزید تیل درآمد نہیں کر رہا ہے۔ یوں انڈیا کے تمام ذخائر 74 دن تک انڈیا کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔

دھرمندرا پردھان کے مطابق دوسرے مرحلے پر انڈیا کے ان ذخائر میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ ان کے مطابق چار ملین میٹرک ٹن کا سٹریٹجک ذخیرہ اڑیسہ کے مقام چاندی خول اور 2.5 ملین میٹرک ٹن کا ذخیرہ کرناٹکا کے مقام پادور میں تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ نئے دو ذخائر انڈیا کی 12 دن تک تیل کی ضرورت پوری کر سکیں گے۔

انڈیا میں تیل اتنا مہنگا کیوں؟

چار ماہ قبل تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے گذشتہ سال مارچ سے بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی تیزی سے گرتی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے پیداوار میں کمی کر دی تھی۔

خود سعودی عرب نے بھی پیداوار کم کردی۔ اسی وجہ سے پٹرول کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں انڈیا میں ایک متنازع مسئلہ بن چکا ہے۔ بدھ کے روز سب سے مہنگا پیٹرول جبل پور میں دستیاب تھا اور اس کی قیمت 98.57 روپے فی لیٹر تھی۔

انڈیا میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا انحصار بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوں پر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہوتی ہے یا بڑھ جاتی ہے تو پھر انڈیا میں بھی اسی طرح کا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آنا چاہیے۔ لیکن پچھلے سال عام صارفین کو تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ حکومت نے دو بار ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا۔

آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او این جی سی) کے سابق چیئرمین آر ایس شرما کہتے ہیں کہ جب یہ حکومت سنہ 2014 میں برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت سے تیل کی قیمت 106 ڈالر فی بیرل تھی۔ تب سے قیمتوں میں کمی واقع ہوتی رہی ہے۔

ان کے مطابق ہمارے وزیر اعظم نے یہ بھی مذاق کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ جب سے میں اقتدار میں آیا ہوں، تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اس وقت پیٹرول کی قیمت 72 روپے فی لیٹر تھی۔ حکومت نے انڈیا میں قیمت کم نہیں ہونے دی۔

اس کے بجائے حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا۔

پٹرول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اب اس سال بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمت 71 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے اور اب یہ فی بیرل 64.5 کے قریب ہے۔ جنوری میں سعودی عرب کا ایک انتہائی اہم کسٹمر ہونے کی وجہ سے انڈیا کی حکومت نے سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کی درخواست کی تھی لیکن اس کا سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

اس وقت بھی دونوں ممالک کے مابین تناؤ کی فضا تھی۔

مارچ میں انڈیا نے اوپیک ممالک اور سعودی عرب سے خام تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن ایک بار پھر انڈیا نے نہیں سنا اور جب انڈیا نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا تو سعودی عرب کے وزیر نے کہا کہ انڈیا کو سستے داموں پر خریدے گئے خام تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کا استعمال کرنا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا سعودی وزیر کے بیان سے مایوس ہے تو یہ ٹھیک ہے کیونکہ جب بھی کوئی ملک اپنے سٹریٹجک تیل کے ذخائر کو استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا داخلی معاملہ ہوتا ہے۔ دوسری بات اسٹریٹجک ریزرو کے استعمال سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس کا انڈیا بھی ایک رکن ہے۔ اس معاہدے کے رکن ممالک اس تنظیم کے قواعد کے مطابق ایسے فیصلے خود کرنے کے مجاز ہیں۔

انڈیا میں پٹرولیم اور گیس بہت کم مقدار میں دستیاب ہیں، لہٰذا وہ درآمد کی جاتی ہیں۔ ملک کو بیرون ملک سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے گذشتہ سال اپنے اخراجات کا 85 فیصد استعمال کرنا پڑا، جس پر 120 بلین ڈالر کی لاگت آئی۔

انڈیا کو اپنی بہت بڑی معیشت کی ترقی کے لیے بہت زیادہ خام تیل کی ضرورت ہے۔ انڈیا کی معاشی ترقی کے لیے انڈیا کو مزید خام تیل کی ضرورت ہے کیونکہ انڈیا میں تیل کو فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس وقت انڈیا دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے اپنا 25 فیصد خام تیل سپلائی کرتا ہے۔ امریکہ اور روس بھی ان بڑے ممالک میں شامل ہیں جو انڈیا کو بڑی مقدار میں خام تیل کی فراہمی کرتے ہیں۔

توانائی کی پالیسی

حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمان گوپال کرشنا اگروال کا مؤقف ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا خلیجی ممالک پر انحصار کم کرے اور ایران اور وینزویلا سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ دونوں ممالک کی جانب سے امریکی پابندیوں کی وجہ سے انڈیا نے تیل کی درآمد روک دی ہے۔ دونوں ممالک ایک وقت میں انڈیا کو بھاری مقدار میں تیل فروخت کرتے تھے۔ سنگاپور میں انڈین نژاد توانائی سے متعلق امور کی ماہر وندنا ہری نے مشورہ دیا ہے کہ انڈیا طویل المدتی پالیسیوں پر توجہ دے اور صاف توانائی اور توانائی کے دیگر ذرائع کو بھی بروئے کار لائے۔

پٹرول اور ڈیزل کی نیپال سے انڈیا کو سمگلنگ بھی انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ انڈین حکومت طویل المدتی حل کے لیے متعدد سکیمیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 17 فروری کو تمل ناڈو میں اپنی ایک تقریر میں توانائی کے دیگر ذرائع کو بروئے کار لانے اور خام تیل پر انحصار کم کرنے پر بھی زور دیا۔

کچھ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا تیل کے سٹرٹیجک ذخائر میں اضافہ کرے یعنی اسٹاک کو 74 دن سے بڑھا کر 90 دن کردیا جائے۔ اگرچہ سٹریٹجک ریزرو ہنگامی وقت کے لیے ہوتا ہے، اگر تیل کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں تباہی یا جنگ کی وجہ سے بہت بڑھ جائے تو ذخیرہ شدہ تیل استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکہ نے دنیا میں اس طرح کے سب سے بڑے ذخائر قائم کر رکھے ہیں۔

Saudi Arabia

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ اور چین کے بعد انڈیا سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔ لہٰذا ماہرین ریزرو میں اضافے پر زور دیتے ہیں۔

تیل کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی ایک اہمیت ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب نے انڈیا کی بات بالکل ہی نہیں مانی تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں قائم ہونے والے قریبی تعلقات میں فرق پڑسکتا ہے۔

گذشتہ چھ برس میں وزیر اعظم نریندر مودی دو بار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں، تب سے اب تک، تیل فروخت کرنے والے ملک کی حیثیت سے انڈیا کی نظر میں سعودی عرب کی حیثیت ختم نہیں ہوئی ہے۔

سعودی عرب تیل کی برآمدات پر اپنی معیشت کا انحصار کم کرنے کے لئے انڈیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہا ہے۔

اس نے انڈیا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ دسمبر میں سعودی عرب نے انڈیا کو یقین دلایا کہ انڈیا میں اس کی سرمایہ کاری کے منصوبے ابھی زیر غور ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین عسکری اور سیکیورٹی امور میں گہرا تعلق پیدا ہوا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔

چین کے بعد ہندوستان سعودی عرب کا سب سے بڑا خریدار ہے اور عراق کے بعد سعودی عرب انڈیا کو خام تیل کی فراہمی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی توانائی کی صنعت اور انڈیا کی ٹیکنالوجی پر سبقت آنے والے کئی برسوں تک دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید تقویت دے گی اور یوں یہ دونوں اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے مزید قریب آ جائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.