جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

پہلے ہاں پھر نہ، کیا ووکس ویگن اپنا نام تبدیل کر رہی ہے؟

پہلے ہاں پھر نہ، کیا ووکس ویگن اپنا نام تبدیل کر رہی ہے؟

A Voltswagen ID 4

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جرمنی کی کار بنانے والی کمپنی ووکس ویگن نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنا نام تبدیل کر کے وولٹس ویگن نہیں کر رہی ہے۔

اس سے قبل خود کمپنی نے ایک پریس ریلیز میں یہ دعویٰ کیا تھا وہ اپنا نام بدلنے جا رہی ہے۔ تاہم کمپنی کے نام کی تبدیلی کے بارے میں اب واضح ہوا ہے کہ کمپنی کا اپریل فول کا مذاق غلطی سے یکم اپریل سے پہلے ہی لیک ہو گیا۔

ابتدا میں یہ کہا گیا تھا کہ وی ڈبلیو کو وی ٹی میں تبدیل کرنے کے پلان کو کمپنی میں امریکی مارکیٹ کے سربراہ سکاٹ کیوگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔

بدھ کو کمپنی ایک پریس ریلیز جاری کر کے اس بارے میں وضاحت دے گی۔

یہ بھی پڑھیے

منگل کو اس مذاق کے سلسلے میں کار ساز کمپنی امریکہ میں اپنی ویب سائٹ میں اپنا نام تبدیل کرنے کی حد تک چلی گئی اور ٹوئٹر پر وولٹس ویگن کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی بنا لیا۔

کمپنی نے ان قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی کہ جن میں کہا گیا تھا کہ یہ محض ایک مذاق تھا، جس خبر کو بی بی سی سمیت کئی میڈیا کے اداروں نے بھی چلایا۔

کے کی جگہ ٹی لگانے کا پلان

ایک پریس ریلیز میں سکاٹ کیوگ نے کہا کہ ہم اپنے کے کو ٹی کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں مگر جو چیز ہم نہیں تبدیل کر رہے وہ ہمارے برینڈ کا یہ عزم ہے کہ ہم دنیا بھر میں ڈارئیوروں اور دوسرے لوگوں کے لیے بہترین کاریں بنائیں گے۔

ان کے مطابق نام میں یہ تبدیلی اس بات کا مظہر ہے کہ اب ہماری کمپنی کو یہ یقین ہے کہ اب ہمارا مستقبل بھی لوگوں کی پسند الیکٹرک کاروں میں ہی ہے۔

اگرچہ ابھی بھی کچھ لوگ اس پر آمادہ نہیں ہیں۔

ووکس ویگن گروپ ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے کی کافی عرصے سے حمایت کرتا آیا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد سنہ 2050 تک کاربن نیوٹرل ہدف کا حصول ہے۔

وی ڈبلیو نے سنہ 2025 تک دنیا میں ایک ملین الیکٹرک کاریں فروخت کرنے کا بھی عزم کر رکھا ہے۔

مگر سنہ 2015 میں اس کا ماحول سے متعلق ریکارڈ ڈیزل امیشنز سکینڈل‘ سے خراب ہوا۔ کمپنی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس نے ایک سافٹ وئیر نصب کیا تھا جو دنیا بھر میں 11 ملین ڈیزل گاڑیوں میں ڈیزل کے اخراج کے ٹیسٹ کے نتائج کو بدل دیتا تھا۔

اس پر کمپنی کو بھاری جرمانہ بھی ہوا۔ کمپنی کے خلاف یورپ اور امریکہ میں معاوضے کے دعوے بھی کیے گئے اور کمپنی کے دو ملازمین کو امریکہ میں جیل کی سزا بھی سنائی گئی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.