’پراجیکٹ اے 119‘: امریکہ کا چاند پر جوہری دھماکہ کر کے سویت یونین کو خوفزدہ کرنے کا انوکھا منصوبہ
- مصنف, مارک پیسنگ
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
سنہ 1950 کی دہائی میں جب بظاہر سوویت یونین خلا میں کامیابیاں حاصل کرنے کی دوڑ میں آگے نکل رہا تھا تو امریکی سائنسدانوں نے ایک انوکھے منصوبے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یہ منصوبہ چاند پر جوہری دھماکہ کر کے سوویت یونین کو خوفزدہ کرنے کا تھا۔
خلاباز نیل آرمسٹرانگ کا سنہ 1969 میں چاند کی سطح پر قدم رکھنے والا لمحہ انسانی تاریخ کے سب سے یادگار لمحوں میں سے ایک ہے۔
لیکن اگر یہی چاند جس پر آرمسٹرانگ نے قدم رکھا اس پر گڑھے پڑے ہوئے ہوتے اور جوہری حملے کے باعث اس کی فضا زہریلی ہوتی تو کیا ہوتا؟
جب پہلی مرتبہ میں نے تحقیقی مقالہ ’اے سٹڈی آف لونر ریسرچ فلائٹس، فرسٹ والیم‘ پڑھنا شروع کیا تو یہ تحریر بظاہر خاصی بیورکریٹک معلوم ہوئی۔ یہ ایسا مقالہ تھا جسے آپ عنوان پڑھنے کے بعد آسانی سے نظر انداز کر سکتے تھے، اور شاید لکھنے والے بھی یہی چاہتے تھے۔
تاہم جب آپ اس کے سرورق پر بنی تصویر دیکھتے ہیں تو صورتحال مختلف ہو جاتی ہے۔
اس کے وسط میں ایک ایٹم، جوہری بم اور ایک مشروم کلاؤڈ (جوہری دھماکے کے بعد دھواں اٹھنے کی مخصوص شبیہ) دراصل کرٹلینڈ ایئرفورس بیس نیو میکسیکو میں ایئرفورس کے سپیشل ویپنز سینٹر کا مخصوص نشان یا علامت ہے جس نے جوہری ہتھیار کی ٹیسٹنگ اور ڈیویلپمنٹ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس کے نیچے منصف کا نام درج ہے یعنی ایل رائیفل یا لینرڈ رائیفل جو امریکہ کے مقبول نیوکلیئر فزسٹ سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اینریکو فرمی کے ساتھ کام کیا تھا جنھوں نے دنیا کا پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر بنایا تھا جس کے ذریعے جوہری بم بنایا گیا تھا۔
’پراجیکٹ اے 119‘ کے نام سے منسوب یہ تجویز ’ٹاپ سیکرٹ‘ یعنی ایک انتہائی خفیہ راز کے طور پر پیش کی گئی تھی جس کے تحت چاند پر ہائیڈروجن بم گرانے کے بارے منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ہائیڈروجن بموں کو اس جوہری بم سے کہیں زیادہ تباہ کن سمجھا جاتا ہے جو سنہ 1945 میں ہیروشیما پر گرایا گیا تھا اور اس وقت یہ نیوکلیئر ڈیزائن کے اعتبار سے جدید ترین تھا۔
سینیئر افسران کی جانب سے اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے احکامات کے بعد رائفل نے مئی 1958 اور جنوری 1959 کے درمیان منصوبے کے ممکن ہونے کے حوالے سے متعدد رپورٹس پیش کیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک سائنسدان جو اس انتہائی ہولناک سکیم کی منصوبہ بندی میں شامل تھے وہ مستقبل میں شہرت حاصل کرنے والے شخص کارل سیگن تھے۔
دراصل اس پراجیکٹ کی موجودگی کے بارے میں سنہ 1990 میں پہلی بار علم ہوا تھا جب سیگن نے ایک مقبول یونیورسٹی میں اپنی درخواست میں اس کے بارے میں ذکر کیا تھا۔
جہاں اس منصوبے کے ذریعے چاند کے بارے میں چند بنیادی سوالات کا جواب حاصل کرنا مقصد تھا وہیں پراجیکٹ اے 119 کا اصل مقصد طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔
یہ بم ٹرمینیٹر لائن پر پھٹنا تھا جو چاند کی روشن اور اندھیری سائیڈ کے درمیان کی سرحد کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد روشنی کی ایک ایسی چمک پیدا کرنا تھا جو انسانی آنکھ سے کہیں سے بھی اور خصوصاً کریملن (روس) میں نظر آ سکے۔ وہاں ماحول کی غیر موجودگی کے باعث مشروم کلاؤڈ بننے کا امکان نہیں تھا۔
اس انتہائی فضول منصوبے کو پیش کرنے کی شاید ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ اس دوران موجود بیتابی اور روس سے بہتر کارکردگی نہ دکھانے کے باعث تھی۔
سنہ 1950 میں بظاہر ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ امریکہ سرد جنگ جیت رہا ہے۔ امریکہ میں سیاسی اور مقبول رائے یہی تھی کہ سوویت یونین جوہری ہتھیار بنانے میں امریکہ سے آگے ہے، خاص کر اس کے جوہری ہتھیاروں کی ڈیویلپمنٹ، جوہری بموں اور میزائلوں کی تعداد امریکہ سے کہیں زیادہ تھی۔
سنہ 1952 میں امریکہ نے پہلا ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا تھا۔ تین برس بعد سوویت یونین نے واشنگٹن کو اپنے ہائیڈروجن بم کے تجربے سے حیران کر دیا۔ سنہ 1957 میں سوویت یونین نے خلائی دوڑ میں برتری حاصل کرتے ہوئے سپوتنک ون لانچ کی تھی، جو دنیا کے گرد گردش کرنے والی پہلی مصنوعی سیٹلائٹ تھی۔
سپوتنک کی لانچ سے قبل سوویت یونین کی جانب سے انٹرکانٹیننٹل بیلسٹک میزائل لانچ کیا گیا تھا اور امریکہ کی جانب سے ایک ’مصنوعی چاند‘ لانچ کرنے کا تجربہ ایک بڑے دھماکے کے ساتھ بری طرح ناکام ہو گیا تھا۔
اس دھماکے اور اس کے وینگارڈ راکٹ کو لگنے والی آگ کی ویڈیو پوری دنیا میں دکھائی گئی تھی۔
اس دوران ایک برطانوی نیوز ریل میں کہی گئی بات چبھنے والی تھی۔ ’دی وینگارڈ ناکام ہو گیا۔۔۔ یہ بلاشبہ ایک بڑا دھچکا ہے۔۔۔ خاص کر پراپیگینڈا اور وقار کے دور میں۔‘
اس دوران امریکہ سکول میں پڑھنے والے بچوں کو مشہور ’ڈک اینڈ کوّر‘ انفارمیشن فلم دکھا رہا تھا جس میں برٹ نامی اینیمیٹڈ کچھوا بچوں کو یہ معلومات دینے میں مدد کرتا ہے کہ جوہری حملے کی صورت میں انھیں کیا کرنا ہو گا۔
اسی سال کے دوران امریکی اخبارات کی جانب سے ایک سینیئر انٹیلیجنس ذرائع سے منسوب خبر لگائی تھی جس میں لکھا تھا کہ ’سوویت یونین نومبر سات کو انقلاب کی سالگرہ پر چاند پر ہائیڈروجن بم گرانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔‘
یہ خبر اخبار دی ڈیلی ٹائمز نیو فلاڈیلفیا اوہایو میں چھپی تھی۔ اس کے بعد یہ خبر بھی رپورٹ ہوئی کہ سوویت یونین ہمارے قریبی ہمسائیوں پر جوہری ہتھیاروں سے لیس راکٹ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
سرد جنگ سے متعلق اکثر افواہوں کی طرح یہ کیسے پھیلیں اور ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی کسی کو معلوم نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس خوف نے سوویت یونین کو بھی اس حوالے سے منصوبے تیار کرنے پر مجبور کیا۔
اس کا کوڈ نیم ’ای فور‘ رکھا گیا تھا اور یہ منصوبہ امریکہ کے منصوبے کی کاربن کاپی تھی اور بعد میں اس منصوبے کو سوویت یونین نے بھی انہی وجوہات کی بنا پر ترک کر دیا تھا کہ اس کے ناکام ہونے کی صورت میں بم سوویت سرزمین پر بھی گر سکتا ہے۔
انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے باعث ’انتہائی نامناسب بین الاقوامی حادثہ‘ ہونے کا خطرہ ہے۔
شاید انھیں اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ چاند پر لینڈ کرنا اصل کارنامہ ہے۔ تاہم پراجیکٹ اے 119 بھی کامیاب ہو سکتا تھا۔
سنہ 2000 میں رائفل نے اس بارے میں بات کی۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ منصوبہ ’تکنیکی طور پر ممکن‘ ہے اور یہ دھماکہ زمین پر بھی واضح طور پر دیکھا جاتا۔
سائنسدانوں کے خدشات کے باوجود امریکی ایئرفورس کے لیے چاند کی صاف ستھری آب و ہوا کا زہریلا ہونا کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا تھا۔
سائنس اور جوہری ٹیکنالوجی کی تاریخ پر کام کرنے والے ایلکس ویلرسٹین کا کہنا ہے کہ ’پراجیکٹ اے 119 سپوتنک کے لانچ کے خلاف سامنے آنے والے متعدد آئیڈیاز میں سے ایک تھا۔ ان میں سپوتنک کو شوٹ کرنے کا بھی منصوبہ تھا جو سننے میں خاصا نفرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ وہ انھیں ایسے مفروضوں کے طور پر دیکھ رہے تھے جو لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال ہوں۔‘
’انھوں نے آخر میں اپنی سیٹلائٹ بنانے کا سوچا اور اس میں کچھ وقت لگایا تاہم انھوں نے اس پراجیکٹ کو قدرے سنجیدگی کے ساتھ سنہ 1950 کے آخر تک جاری رکھا۔‘
’یہ آپ کو اس وقت امریکی خیالات کے بارے میں جاننے میں مدد دیتا ہے۔ یہ دراصل ایک ایسی چیز بنانے کی کوشش کرنا تھا جو بظاہر متاثر کن ہو۔‘
’میرے خیال میں اس کیس میں نہ صرف متاثرکن ہی نہیں بلکہ خوفناک بھی۔‘
وہ یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا کمینوسٹ مخالف سوچ نے جوہری فزسٹس کو اس پراجیکٹ پر کام کرنے پر مرعوب کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جو بھی ان رولز میں ہوتا ہے وہ عام طور پر اپنی مرضی سے یہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ انھیں یہ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر انھیں خوف ہوتا تو وہ لاکھوں دیگر کام بھی کر سکتے تھے۔ متعدد سائنسدانوں نے سرد جنگ کے دوران کیا اور پھر کہا کہ فزکس بہت زیادہ سیاسی ہو گئی ہے۔‘
تاہم اس رویے پر ویتنام جنگ کے بعد خود احتسابی کی گئی ہو گی۔
خلا کے پسِ منظر میں بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلیڈین بوون کہتے ہیں کہ ’پراجیکٹ اے 119 مجھے کارٹون دی سمپسنز کی اس قسط کی جانب سے توجہ دلواتا ہے جس میں لیسا نیلسن کے کمرے کی دیوار پر ’نیوک دی وہیلز‘ پوسٹر دیکھتی ہیں اور اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ نے کسی چیز پر جوہری بم گرانا ہی ہے تو۔۔۔‘
’اس حوالے سے مقالے بھی لکھے گئے لیکن تفصیل سے تحقیق کے لیے انھیں فنڈنگ نہیں ملی، نہ ہی انتی توجہ دی گئی جب انھوں نے سپیس کمیونٹی کو چھوڑا۔ یہ سنہ 1950 کے اواخر اور سنہ 1960 کے آغاز میں خلا سے متعلق ہیجان کا ایک حصہ تھا کیونکہ اس وقت کسی کو یہ نہیں پتا تھا کہ سپیس ایج کا مستقبل کیا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر دوبارہ کبھی چاند تک پہنچنے کے حوالے سے اس قسم کا ہیجان پایا گیا تو یہ عالمی لیگل آرڈر کی خلاف ورزی قرار پائے گا اور اس پر دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک اتفاق کر چکے ہیں۔‘
بین الاقوامی اتفاقِ رائے کے باوجود کیا اس طرح کے منصوبے دوبارہ سامنے آ سکتے ہیں؟
بووین کہتے ہیں کہ ’میں نے اس قسم کی کچھ باتیں سنیں ہیں جیسے پینٹاگون وغیرہ سے جن میں امریکی سپیس فورس کے مشنز کا جائزہ لینے کی بات کی گئی ہے تاکہ چاند کی آب و ہوا پر تحقیق کی جا سکے۔‘
اگر اس قسم کے مفروضوں کو امریکہ میں اہمیت نہیں بھی دی جاتی تو یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے چین میں بھی اہمیت نہیں ملے گی۔ بووین کہتے ہیں کہ ’مجھے بالکل بھی حیرت نہیں ہو گی اگر چین میں ایک طبقہ اس طرح کے آئیڈیاز کو ہوا دیتا ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ چاند ایک پرکشش چیز ہے اور وہ (یہ سوچ رکھنے والے افراد) فوج میں کام کرتے ہیں۔‘
پراجیکٹ اے 119 کی اکثر تفصیلات آج بھی ایک معمہ ہیں۔ ان میں سے اکثر ریکارڈ ختم کر دیے گئے تھے۔
شاید اس سے واحد سبق یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ کبھی بھی کسی ایسے ریسرچ پیپر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس کا پھیکا سا عنوان، بلکہ اسے پہلے پڑھ لینا ضروری ہے۔
Comments are closed.