روس کا یوکرینی شہروں پر تین دنوں میں دوسرا میزائل حملہ
روس نے تین دن میں دوسری مرتبہ یوکرینی شہروں پر علی الصبح میزائل حملے کیے ہیں۔
مرکزی شہر ڈنپرو کے علاقے پولوہراڈ میں جنگی ساز و سامان کے مقام پر حملہ کیا گیا۔ اس مقام پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یوکرین جوابی حملوں کی تیاری کر رہا ہے۔
اس حملے سے بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی، درجنوں گھر تباہ ہوگئے اور 34 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اس حملے کے کئی گھنٹوں بعد ملک میں فضائی حملوں کے الرٹ سنائی دیتے رہے جن میں دارالحکومت کیئو بھی شامل تھا۔
یوکرینی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے 15 سے 18 میزائل مار گرائے ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان پولوہراڈ شہر میں ہوا جو جنگ کے محاذ سے 110 کلومیٹر دور ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں حملے کے بعد بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی۔
ایک شہری نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ باہر جانے کے لیے کپڑے بدل رہی تھیں جب ’دونوں دروازے دھماکے سے پیدا ہونے والی لہر سے ٹوٹ گئے‘۔
وہ بتاتی ہیں ’میں نے باہر جا کر دیکھا کہ گیراج تباہ ہو چکا ہے۔ ہر طرف آگ تھی اور شیشہ بکھرا ہوا تھا۔ آگر ہم باہر ہوتے تو ہلاک ہو جاتے۔‘
یوکرین کی ملٹری انتطامیہ نے بتایا کہ ایک صنعتی علاقے پر حملہ ہوا ہے اور کہا کہ یہ ایک ’افسوسناک رات اور صبح تھی‘۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ 19 اونچی رہائشی عمارتیں، 25 گھر، چھ سکول اور پانچ دکانیں تباہ ہوئی ہیں۔
روسی اہلکار ولادیمیر روگوو نے ٹیلی گرام پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ حملے کا مقصد ریلوے نظام اور ایندھن کے ذخائر کو نشانہ بنانا تھا۔
اس حملے کے گھنٹوں بعد مقامی وقت کے مطابق صبح چار بچے کیئو میں حملے کے سائرن سنے گئے جو تین گھنٹوں تک بجتے رہے۔
ملٹری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دارالحکومت کی جانب آنے والے تمام میزائل مار گرائے ہیں۔
روس کے جزوی کنٹرول میں خیرسوں خطے کے یوکرینی اہلکاروں کا کہنا ہےکہ وہاں 39 مرتبہ شیلنگ کی گئی۔ انتظامیہ کہ مطابق یہ شیلنگ زمین سے مار کرنے والے اسلحے، ڈرون اور طیاروں سے کی گئی جن میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
حالیہ دنوں میں یوکرین پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں اگلے محاذ سے دور علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کی مغربی ممالک سے حاصل کیے گئے ہتھیاروں کی مدد سے روس کے خلاف جوابی کارروائیوں کی منصوبہ بندی حتمی مراحل میں ہے۔
روس بھی اپنے زیر قبضہ علاقوں میں یوکرین کی جانب سے جوابی کارروائیوں کی تیاری کر رہا ہے۔
روسی ملٹری لیڈرشپ میں ہونے والی حالیہ تبدیلی روس کے نائب وزیر دفاع جنرل میخائل کی برطرفی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انھیں گذشہ ستمبر اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور وہ ملٹری ساز و سامان کے بھی انچارج تھے۔
ایک عرصے سے یہ شکایات سامنے آتی رہی ہیں کہ اگلے محاذ پر لڑ رہے روسی فوجیوں کو ملٹری ساز و سامان کی کمی اور خوراک اور یونیفارم کی قلت کا سامنا ہے۔
پیر کو ایک یوکرینی اہلکار کا کہنا تھا کہ فوج نے کئی ماہ سے زیر محاصرہ علاقے باخمت میں بعض علاقوں سے روسی فوجوں کو نکال دیا ہے۔
زمینی افواج کے کمانڈر جنرل الیکزینڈر سریسکی نے ٹیلی گرام پر کہا ہے کہ صورتحال ’کافی مشکل‘ ہے لیکن ’دشمن شہر کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہے‘۔
Comments are closed.