ہالی وُوڈ کے لکھاریوں کی ہڑتال کے بعد ڈراموں، ٹاک شوز اور فلموں کی صنعت افراتفری کا شکار

ہالی وُوڈ لکھاریوں کی ہڑتال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, پال گِلن
  • عہدہ, فلموں اور تفریحی امور کے رپورٹر

دنیا کی سب سے بڑی اور امریکہ کی فلمی اور فنکاروں کی صنعت کے مرکز ہالی وُوڈ کے بڑے اسٹوڈیوز کے ساتھ اجرتوں پر آخری لمحات میں ہونے والی بات چیت معطل ہوجانے کے بعد ٹیلی ویژن اور فلم کی کہانیاں اور مکالمے لکھنے والے منگل کو ہڑتال کر رہے ہیں۔

رائٹرز گلڈ آف امیریکہ (WGA) کی ہڑتال 15 سالوں کے عرصے میں پہلی مرتبہ ہو رہی ہے جس میں 9,000 سے زیادہ لکھاری آدھی رات سے واک آؤٹ کریں گے، جو کہ اس گِلڈ کے 98 فیصد ووٹنگ ممبران بنتے ہیں۔

رات گئے لائیو چیٹ شوز کے سب سے پہلے بند ہونے کی توقع ہے، جبکہ اُس کے بعد نشر ہونے والے شوز اور فلموں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گلڈ نے یہ بھی کہا کہ منگل کی سہ پہر کو دفتروں کے باہر مظاہرے بھی ہوں گے جنھیں یہاں ’پکٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔

سنہ2007 میں ہالی وُوڈ کے لکھاریوں نے 100 دنوں کے لیے ہڑتال کی تھی، جس پر انڈسٹری کو تقریباً 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

اس مرتبہ لکھاریوں اور کہانی نگاروں کی ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) کے خلاف ٹکر ہے، جو کہ ڈزنی (Disney) اور نیٹفلِکس (Netflix) سمیت اسٹوڈیوز کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہڑتال کرنے والے زیادہ تنخواہیں اور جدید اسٹریمنگ سے زیادہ منافع میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔

پیر کی شام رائٹرز گلڈ آف امیریکہ (WGA) نے کہا کہ ہڑتال کا فیصلہ چھ ہفتوں کے مذاکرات کے بعد کیا گیا جب ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) کی جانب سے لکھاریوں کے مطالبات پر ’مکمل طور پر ناکافی‘ ردعمل ظاہر کیا۔ لکھاریوں کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اب ان کے وجود کو خطرہ لاحق پے۔‘

بات چیت میں کلیدی مسائل یہ رہے کہ لکھاریوں کو اُن شوز کی ادائیگی کیسے کی جاتی ہے جو اکثر سالوں تک اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر موجود رہتے ہیں، اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی زیرِ غور ہے کہ لکھاریوں اور کہانی نگاروں کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مستقبل کیسے متاثر ہو گا۔

’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) نے کہا کہ اس نے لکھاریوں کے لیے زیادہ تنخواہ سمیت ’جامع پیکیج کی تجویز‘ پیش کی ہے۔

لیکن وہ اس پیشکش کو مزید بہتر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ’کیونکہ دیگر تجاویز ابھی بھی زیرِ غور ہیں جن پر گلڈ اصرار کر رہا ہے۔‘

ہالی وُوڈ لکھاریوں کی ہڑتال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رات گئے سب سے پہلے ٹی وی کی نشریات متاثر ہو سکتی ہیں۔

اتوار کی شام ایک جریدے ’ڈیڈ لائن ہالی ووڈ‘ نے اطلاع دی کہ رات گئے نشر ہونے والے شوز کی پروڈکشن بشمول ’دی لیٹ شو ود سٹیفن کولبرٹ‘، ’جمی کامل لائیو!‘ اور ’ ’ٹونائٹ شو جمی فالن سٹارِنگ‘ (اوپر کی تصویر) سب بند ہوجائیں گے۔

پیر کی رات تک فالن نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ہڑتال نہیں ہو گی، لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ لکھاریوں کے لیے ’منصفانہ ڈیل‘ پر اتفاق بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

’مجھے اپنے لکھاریوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے، میرا اپنے لکھاریوں کے بغیر کوئی شو کامیاب نہیں ہوا ہے۔‘ لیٹ نائیٹ شو کے میزبان سیٹھ میئرز نے جمعہ کو اپنے شو کے اصلاحی حصے پر ہڑتال کی حمایت کا اظہار کیا۔

میئرز نے کہا کہ ’میں یہ بھی بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ لکھاری جو کچھ مانگ رہے ہیں وہ غیر معقول نہیں ہے۔ گلڈ کے ایک قابل فخر رکن کے طور پر میں بہت شکر گزار ہوں کہ ایک ایسی تنظیم موجود ہے جو لکھاریوں کے بہترین مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔‘

‘مشکل نکات‘

پیر کی شام رائٹرز گلڈ آف امیریکہ (WGA)نے اسٹوڈیوز کو ایک ’گِگ اکانومی‘ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کا مقصد تحریر کو ’مکمل طور پر فری لانس‘ پیشے میں تبدیل کرنا ہے۔ گلڈ نے ایک طویل دستاویز میں کہا کہ ’ہمارے حال اور مستقبل کی خاطر ہمیں (ہڑتال کے علاوہ) کوئی دوسرا راستہ دیا ہی نہیں گیا ہے۔‘

پیر کی شام رائٹرز گلڈ آف امیریکہ (WGA)نے ٹی وی کے عملے کو کم سے کم، ہر شو میں چھ سے 12 لکھاریوں کے ساتھ ساتھ ہر سیزن میں کم سے کم ملازمت کے ہفتوں کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا۔

منگل کو اپنے بیان میں ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) نے ان دو کو ’بنیادی مشکل نکات‘ قرار دیا۔

ان کی طرف سے، اسٹوڈیوز کی تنظیم نے پہلے کہا تھا کہ انہیں مالی دباؤ کی وجہ سے اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی دہرایا کہ لکھاریوں کو مجموعی طور پر ’بقایاجات‘ میں کی گئی ادائیگیاں 2021 میں ساڑھے انچاس کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (AMPTP) نے گلڈ کے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) بوٹس کے استعمال پر مواد کو لکھنے یا دوبارہ لکھنے پر پابندی لگا دی جائے، اس کی جگہ مالکان کی تنظیم نے یہ پیش کش کی کہ ’ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی پر بات کرنے کے لیے سالانہ اجلاس‘ منعقد کیے جائیں۔‘

ہالی وُوڈ لکھاریوں کی ہڑتال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹی وی سیریز ’دی بیئر‘ کے اداکار، بشمول جیریمی ایلن وائٹ (سامنے کی قطار میں بائی جانب دوسرے نمبر پر)۔

کامیڈی ڈرامہ سیریز ’دی بیئر‘ کے لکھاری اور اس یونین کے ایک رکن الیکس اوکیف نے پیر کو بی بی سی کو بتایا کہ تمام لکھاریوں میں سے نصف کو اسٹوڈیوز کی طرف سے کم سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے اور یہ کہ ’اس وقت ہالی ووڈ میں ایک بہت بڑا نچلا طبقہ بھی ہے (جس کا ذکر ہی نہیں ہوتا ہے)‘۔

انہوں نے کہا کہ ان کے لکھاری ساتھیوں کی تخلیقات پہلے سے کہیں بہتر تھیں، جو کہ اسٹریمنگ کے دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہیں، لیکن لکھاریوں کو پہلے سے بھی کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

’اور میرے جیسے لکھاری، خاص طور پر نوجوان، سیاہ فام لکھاریوں، مقامی لکھاریوں، غیر سفید فام لکھاریوں نے اس عمل میں تخلیقی صلاحیتوں کی ایک بالکل نئی لہر پیدا کی ہے۔‘

اوکیف نے کہا کہ ’لیکن ہم خود کو نیویارک سٹی اور لاس اینجلس جیسی جگہوں پر زندہ رہنے کے قابل نہیں دیکھ رہے ہیں، جہاں ہمیں لکھاریوں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہنا پڑتا ہے۔‘

اوکیف نے اس بات پر زور دیا کہ جب کہ کچھ لکھاری ایسے ہیں جو ’بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن بڑے شوز میں کام کرنے والے لکھاریوں سمیت بہت سے لکھاریوں کے حالات بہت خراب ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں تمام لکھاریوں کی غریب یا معاشی دیوالیہ جیسی درجہ بندی نہیں کروں گا، لیکن میں خود کہہ سکتا ہوں کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں صرف 6 ڈالر ہیں۔‘

اوکیف نے کہا کہ جب وہ اور ان کے ساتھیوں نے رائٹرز گلڈ آف امریکہ ایوارڈز میں بہترین کامیڈی سیریز کا انعام حاصل کیا تھا تو وہ اپنے دوستوں اور خاندان والوں کی طرف سے ان کے لیے خریدے گئے سوٹ پہن کر تقریب میں گئے تھے۔

اس نے وضاحت کی کہ ’بو ٹائی ادھار پر حاصل کی تھی، میرے پاس پیسے نہیں تھے، میرا بینک اکاؤنٹ منفی تھا۔

امریکی اداکاروں کی یونین ’ایس اے جی اے ایف ٹی آر اے‘ اور ہدایت کاروں کی تنظیم ’ڈائریکٹرز گلڈ آف امیریکہ‘ نے ہڑتالی لکھاریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا اعلان کیا ہے۔

لکھاریوں کی پچھلی ہڑتال کے دوران کیا ہوا تھا؟

بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ سخت حفاظتی پروٹوکولز کی وجہ سے کووڈ لاک ڈاؤن کے دور میں ٹی وی اور فلم پروڈکشنز انھیں کیسی لگتی تھی اور اس دوران پہلے کے حالات سے کیا مختلف لگتا تھا، لیکن کچھ لوگوں کو 2007 کے موسم سرما میں ہالی ووڈ کے لکھاریوں کی بڑی ہڑتال کے اثرات یاد نہیں ہوں گے۔

اس ہڑتال کے نتیجے میں لکھاریوں نے اسٹوڈیوز کے مالکان سے نئے معاہدوں کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ڈی وی ڈیز سے ہونے والی آمدن میں بھی ان کا کچھ حصہ ہو۔ اور اسی طرح ڈاؤن لوڈ کیے گئے کانٹنٹ سے ہونے والی آمدن میں سے انھیں کچھ رقم ملے۔ نئے معاہدوں کے بعد یہ ہڑتال ختم ہوئی تھی۔

ناظرین کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ رات گئے نشر ہونے والے معروف ٹاک شوز، جو اپنے اسکرپٹ اور لطیفوں کے لیے لکھاریوں کی تخلیقات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، آف ائیر ہو گئے تھے۔

بڑے مشہور اور مقبول ٹاک شوز، سِٹ کامز اور پرائم ٹائم ڈراموں کی بھی پروڈکشن رک گئی تھی، جن میں ’اگلی بیٹی‘، ’ڈیسپیریٹ ہاؤس وائفز‘اور ’دی آفس‘ جیسے شوز بھی شامل تھے۔ اس ہڑتال نے ’بریکنگ بیڈ‘ کے شائقین کو اپنے پہلے سیزن کی دو اقساط سے محروم کردیا تھا۔

ہالی وُوڈ لکھاریوں کی ہڑتال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’بریکنگ بیڈ‘ سے برائن کرینسٹن اور آرون پال (دائیں) عرف والٹر اور جیسی

دیگر پروڈکشنز اکثر مطلوبہ اثرات سے کم اپنے لکھاریوں کے بغیر نشر ہوتی رہیں۔ ’ہیروز‘ کا دوسرا سیزن، جو ان کے کام کے پہلے ڈرافٹ کا استعمال کرتے ہوئے ہڑتال کے دوران شوٹ کیا گیا تھا، بہت سے لوگوں کے لیے پرانے سکرپٹ کا چربہ تھا۔

اگرچہ اس کی بہترین مثال شاید جیمز بانڈ کی فلم، ’کوانٹم آف سولس‘ تھی، جیسا کہ اسٹار ڈینیئل کریگ نے ایک انٹرویو میں خود کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اسکرپٹ کے خاکے تھے اور پھر لکھاریوں کی ہڑتال تھی اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ’ہم اسے ختم کرنے کے لیے کسی لکھاری کو ملازمت نہیں دے سکے۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، ‘دوبارہ کبھی نہیں’، لیکن کون جانتا ہے؟ میں سین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا – اور میں ایسا مکالمہ نگار نہیں ہوں‘۔

ہالی وُوڈ لکھاریوں کی ہڑتال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جیمز بانڈ اسٹار ڈینیئل کریگ کو ’کوانٹم آف سولس‘ بنانے کے دوران سین کو دوبارہ لکھنے میں مدد کرنی پڑی۔

لکھاریوں کی ہڑتال نے نادانستہ طور پر صدارت کا امیدوار بننے سے پہلے کے دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑا اسٹار بنانے میں مدد کی۔ ٹی وی شو ’اپرنٹس‘ کا ٹرمپ کا ورژن بند ہونے کے قریب تھا لیکن لکھاریوں کی ہڑتال نے اسے ایک نئی زندگی دے دی۔ اسکرپٹس نہ ہونے کی وجہ سے، ریلیٹی ٹی وی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ ’پروجیکٹ رن وے‘ اور ’دی بگسٹ لوزر‘ جیسے شوز کو زیادہ جگہ ملی اور انھیں نئے نئے سامعین ملے۔ اور ہر ایک نے ’ای‘ پر کارداشیئن کے شو کو دیکھنا شروع کردیا تھا!

’امریکن آئڈول‘ کا 2008 کا فائنل تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا، جس نے فوکس (Fox) کو پہلی بار امریکہ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل بننے میں مدد دی۔

ایک سمجھوتہ طے پانے کے بعد، جس میں لکھاریوں سے مستقبل میں حاصل ہونے والے منافع کا ایک فیصد وعدہ کیا گیا تھا، ٹی وی کو معمول پر آنے میں مہینوں لگے تھے۔

تازہ ترین ہڑتال کم از کم موسم گرما کے وقت تک جاری رہ سکتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ