’مجھے یقین ہے میری گرل فرینڈ کی موت اس کے جنسی اعضا کاٹنے کی وجہ سے ہوئی‘
خواتین کے جنسی اعضا کاٹنے کے معاملے میں افریقی ممالک میں سیرالیون سر فہرست ہے جہاں اس کی وجہ سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ بی بی سی افریقہ آئی نے ایک ایسے شخص کی کہانی سنی ہے جس کا خیال ہے کہ اس کی گرل فرینڈ کی موت اس کے جنسی اعضا کے کاٹنے سے ہوئی۔
فاطمتہ تورے کو جب ان کی والدہ نے گاؤں آنے کے لیے کہا تو وہ اس وقت 19 سال کی تھیں۔ انھیں بونڈو معاشرے کے بالغ افراد میں شامل کیا جانا تھا۔ یہ وہاں صدیوں پرانی روایت ہے، جس میں موسیقی اور رقص کے ساتھ نوجوان خواتین کو بالغ ہونے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
چھتیس گھنٹے بعد فاطمتہ کی جان جا چکی تھی۔
18 اگست سنہ 2016 کو فاطمتہ کے جنازے کے دن سے ان کے بوائے فرینڈ اور صحافی ٹائسن کونٹے نے اپنا کیمرا نکالا اور فلم بندی شروع کر دی۔
بعد کی ریکارڈنگ میں انھوں نے لینز میں سیدھے جھانکتے ہوئے یہ وضاحت پیش کی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، آخر انھوں نے اس کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش کیوں کی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنی اس جذباتی فلم کو اس کے متعلق بحث و مباحثہ شروع کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ فاطمتہ کسی دوسری لڑکی یا عورت کو (اس وجہ سے) مرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہی اس کی خواہش تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ فاطمتہ تورے خوابوں میں ان سے بات کرتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کی موت کی حقیقت کو بے نقاب کروں اور جنسی اعضا کاٹنے جیسی روایت کو ختم کر دوں۔
جنسی اعضا کاٹنے (ایف جی ایم) کا عمل دراصل خواتین کے جنسی اعضا بالخصوص کلائیٹورس کو مکمل یا جزوی طور پر ہٹانے کے عمل کا نام ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے 92 ممالک میں اس روایت کی موجودگی کو دستاویزی شکل دی ہے لیکن یہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں سب سے زیادہ رائج ہے۔
ٹائیسن کونٹے اپنی فلم میں اپنی گرل فرینڈ فاطمتہ تورے کو دکھاتے ہیں
ایک دوسری ’خطرناک‘ رسم
صومالیہ، سوڈان اور جبوتی جیسے ممالک میں ایف جی ایم کی ایک شکل جسے انفیولیشن کہا جاتا ہے رائج ہے۔ اس میں لبیا کو ہٹا دیا جاتا ہے اور پھر اندام نہانی کے سوراخ کو تقریباً مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے اور صرف پیشاب اور ماہواری کے خون کے لیے ایک چھوٹا سا سوراخ رہنے دیا جاتا ہے۔ عورت کے شادی کرنے کے بعد جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔
اس سے صحت کے کوئی فوائد نہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ یہ پیشاب، اندام نہانی اور ماہواری کے مسائل کے ساتھ ساتھ بچے کی پیدائش کے دوران پیچیدگیوں اور موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سیرالیون میں 15 سے 49 سال کی عمر کی 83 فیصد خواتین اور لڑکیاں اس عمل سے گزر چکی ہیں۔
اس عمل ایک اہم وجہ خواتین کی جنسی خواہش پر قابو پانا ہے۔ اگر ان کے جنسی اعضا ’کاٹ‘ دیے جاتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ان کے کنوارپن کی حفاظت کرے گا اور ایک بار جب ان کی شادی ہو گی تو وہ اپنے شوہر کی وفادار رہیں گی۔
سیرالیون میں خواتین کے ختنے کرنے والی عورت کو ’سویس‘ کہا جاتا ہے۔ امیناتا سنکوہ ایک سویس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جس خاتون کا ختنہ نہیں ہوتا، ان میں ختنہ شدہ خاتون سے زیادہ جنسی خواہش ہوتی ہے اور اسی لیے (اس کے ذریعے) ہم ان کی خواہش کو کم کر دیتے ہیں۔‘
سویس انگیما کمارا ایف جی ایم کو اپنی راویت کا اہم حصہ مانتی ہیں
’مجھے پیشاب کرنے میں ایک ہفتہ لگا‘
کونٹے کو بونڈو سوسائٹی کی خواتین پر فلم بندی کے لیے نایاب رسائی ملی۔ یہ معاشرہ خوبصورتی، فن اور ثقافت کا ایک قدیم گہوارہ ہے۔
جب بونڈو بزرگوں کی جانب سے نوجوان خواتین کو بیوی اور ماں کا روایتی کردار دیا جاتا ہے تو اس معاشرے میں جشن منایا جاتا ہے۔ اسے ایک سے دوسرے کردار میں جانے کے لیے ایک متوقع اور ضروری رسم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بہرحال اس کے ابتدائی عمل کا ایک حصہ ایف جی ایم کے مرحلے سے گزرنا بھی ہے۔ کونٹے کو اس عمل کی فلمبندی کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایک سویس انگیما کمارا نے کہا کہ ’ہماری ثقافت میں ہمارے لوگوں کو ایک طویل عرصے سے معاشرے میں داخل کرنے کی روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اپنی دستاویزی فلم میں کونٹے نے بونڈو معاشرے کی تقریب میں شرکت کے صرف ایک دن بعد فاطمتہ کے ساتھ کیا ہوا اس کا ذکر کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اس کی لاش گھر کے باہر فرش پر ایک چٹائی پر پڑی دیکھی۔ اسے سفید رنگ کے کپڑے میں لپیٹا گیا تھا۔
’آپ دیکھ سکتے تھے کہ خون نکل رہا ہے۔ آپ دیکھے سکتے تھے کہ وہاں خون ہے اور ہم نے محسوس کیا کہ وہ بوندو معاشرے میں داخل ہونے کے عمل میں مر گئی۔‘
پولیس پہنچی اور فاطمتہ کی لاش کو مردہ خانہ پہنچا دیا گیا۔ ان کی والدہ اور سویس کو گرفتار کر لیا گیا۔
روگیاتو تورے خواتین کے ختنوں کی مخالف ہیں
چھ دن بعد سیرالیون کے اس وقت کے اکلوتے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر سائمیون اوویز کوروما نے پوسٹ مارٹم کیا۔ اس وقت کی سماجی بہبود، صنفی اور بچوں کے امور کی وزیر ڈاکٹر سلویا بلائیڈن بھی وہاں موجود تھیں۔
ڈاکٹر بلائیڈن اس معاملے میں بالغ خواتین کی رضامندی کے حق کی حامی ہیں لیکن وہ نابالغ اور زبردستی ختنوں کے سخت خلاف ہیں۔
ایک عوامی بیان میں انھوں نے پوسٹ مارٹم کی تفصیلات جاری کیں اور کہا کہ ایف جی ایم کا فاطمتہ کی موت سے کوئی تعلق نہیں۔ سویس اور فاطمتہ کی ماں کو رہا کر دیا گیا۔
کونٹے نے چھان بین کی کہ آیا فاطمتہ کی موت کو بونڈو معاشرے کے تحفظ کے لیے چھپایا تو نہیں گیا۔ ڈاکٹر بلائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ بونڈو سوسائٹی کی ساکھ کو کبھی بھی سچائی پر فوقیت نہیں دیں گی۔
روگیاتو تورے کا فاطمتہ تورے سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اس وقت ڈاکٹر بلائیڈن کی نائب وزیر تھی اور وہ ایف جی ایم کے خلاف ایک طویل عرصے سے مہم چلانے والوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے سیرالیون میں ’ایمازونین انیشی ایٹو موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو ایف جی ایم کے خاتمے کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت تھیں کہ وہ 11 سال کی عمر میں ختنے کے بعد بچ گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگ مر چکے ہیں ہم جانتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ ہمیں ایماندار ہونا چاہیے۔‘
’میں تقریباً مر ہی گئی تھی۔ اگر میں پیشاب کرنا چاہتی تو تقریباً مر جاتی۔ مجھے پیشاب کرنے میں ایک ہفتہ لگا۔ ایک ہفتہ۔ کئی دن تک میری اندام نہانی میں سوجن رہی۔‘
بلیڈ سے خواتین کے جنسی عضو کو کاٹا جاتا ہے
‘بونڈو ختم ہو جائے گا’
روگیاتو تورے پوچھتی ہیں کہ آخر پوسٹ مارٹم کے وقت ڈاکٹر بلائیڈن کیوں موجود تھیں۔
’آخر آپ اپنے وزیر کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے جانے کی اجازت کیوں دیں گے؟ اگرچہ وہ ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کا وہاں کوئی کام نہیں تھا۔‘
’وہ سویس کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ہمیں یقین ہے کہ نتیجہ، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھا، بدل دیا گیا۔ ہمیں اس کا یقین ہے۔ ہم ووٹ کے لیے خواتین کی زندگی کا سودا نہیں کر سکتے۔‘
ڈاکٹر بلائیڈن نے فاطمتہ کی موت کی وجہ کے بارے میں عوامی طور پر بات کرنے سے انکار کیا لیکن وہ اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ فاطمتہ کی موت ایف جی ایم کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے نتائج فاطمتہ کی طبی تاریخ سے مماثلت رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پردہ پوشی کی کوئی بھی بات غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پوسٹ مارٹم خاندان، انسانی حقوق کی تنظیموں، پولیس اور طبی عملے کے سامنے کیا گیا۔
انھوں نے دلیل دی کہ پوسٹ مارٹم میں شرکت کرنا بطور وزیر ان کا فرض تھا اور اس بات سے انکار کیا کہ وہ کسی سیاسی فائدے کے لیے وہاں موجود تھیں۔
بی بی سی افریقہ آئی نے فلم میں لگائے جانے والے الزامات کے ساتھ ڈاکٹر اوویز سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔
چار سال پہلے روگیاتو تورے نے ایف جی ایم کے بغیر پہلی بونڈو سوسائٹی قائم کی، جسے ’خون کے بغیر بونڈو‘ کہا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین ایف جی ایم پر عمل کرنا بند نہیں کرتی ہیں تو بونڈو معاشرہ خود ہی ختم ہو جائے گا۔
’اگر خواتین یا کوئی اور بونڈو معاشرے میں ختنے کی وکالت جاری رکھیں گے تو یہ اس مقام پر پہنچ جائے گا جب بونڈو معاشرہ خود ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ اس مقام پر پہنچے گا جہاں بونڈو رک جائے گا۔‘
Comments are closed.