’کنیفے‘: ترکی کا وہ قدیم پکوان جس کی چاشنی میں ’امید کی کرن‘ بھی موجود ہے

کنیفے

  • مصنف, گونجا ٹوکیول
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

شام کی سرحد سے متصل ترکی کے جنوبی صوبے ہاتائی کے اندرون شہر میں نومبر کے اوائل کی ایک شام تھی۔ موسم گرم تھا مگر خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔

اپنا کام ختم کرنے کے بعد میں نے پرانے شہر میں اپنے ایک صحافی دوست سے کھانے پر ملاقات کی۔ کچھ کباب، میزے اور دیگر بہت سے پکوان کھانے کے بعد میٹھا کھانے کے لیے مشرقی بحیرۂ روم کی مزیدار اور پسندیدہ مٹھائی کنیفے کی دکان پر رُکنا بہترین آپشن تھا۔

کنیفے کی سوجی کے آٹے سے بنی پتلی تاریں جنھیں ’ٹیل کدافی‘ کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہاتائی کے نمکین پنیر کا امتزاج: ایک مثالی ذائقہ دیتا ہے۔ جبکہ اس پر ڈالے گئے چینی اور لیموں سے بنے شربت کی چاشنی دیر تک ہمارے منھ میں رہی۔

اس سے ملتی جلتی ایک ڈش ’کنافہ‘ پورے مشرق وسطیٰ میں پائی جاتی ہے، مگر کنیفے واضح طور پر ترکی کی مٹھائی ہے اور اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا ہاتائی سے ہوئی ہے اور اسی لیے خاص طور پر اسے اسی علاقے میں بننے والی پنیر سے بنایا جاتا ہے، جو کہ تازہ موزاریلا پنیر کی طرح ہے۔

روایتی طور پر رمضان کے دوران کھائی جانے والی مٹھائی اب سال کے کسی بھی وقت دکانوں پر مل سکتی ہے۔ ہاتائی کی سڑکوں پر 30 سے زیادہ کنیفے کی دکانیں اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ میٹھے کا ذائقہ اور بناوٹ کا مرکب صوبے کے لیے ایک استعارہ ہے۔ ایک تاریخی تجارتی مرکز اور مختلف نسلی اور مذہبی پس منظر کے لوگوں کے لیے قریب آنے کا جواز۔ اور کھانے کے شوقین افراد کی یہ جگہ جہاں لوگ آپ سے آپ کا نام پوچھنے سے قبل یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو بھوک لگی ہے۔ یہاں کنیفے جیسے پکوان ان کا فخر ہیں۔

کنیفے

دکان کا مالک دروازے سے ٹیک لگا کر ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ ’جو لوگ ایک بار ہمارے کھانے کا ذائقہ چکھ لیتے ہیں وہ اسے بھول نہیں سکتے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’ایک بات یاد رکھیں۔ آپ نے ہمارے کھانے کا مزہ چکھ لیا، اس کی عادت ہو گئی، اور اب آپ [اسے] ترک نہیں کر سکتے۔ اب اگلی بار جب آپ انتاکیہ آئیں گے تو آپ کو میری دکان پر واپس آنا پڑے گا۔‘

میں نے انتاکیا کا اگلا دورہ تین سال بعد کیا، لیکن تب منظر بالکل مختلف تھا۔

وہ چوک جہاں میں نے پہلی بار کنیفے کھایا تھا وہ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ یہاں جاری کھدائی کے کام کی وجہ سے فضا دھول سے بھری ہوئی تھی۔ اور ایک کنیفے ماسٹر کا مجسمہ، جو اس چوک کی علامت ہے، اس تباہی کے درمیان تنہا کھڑا تھا۔

ترکی اور ہمسایہ ملک شام میں چھ فروری کی علی الصبح دو بڑے زلزلے آئے تھے جن کی شدت 7.8 اور 7.5 تھی۔ اس زلزلے میں 50,000 سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 20 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔

ہاتائی خطے کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں سے ایک تھا جہاں تقریباً شہر کا مرکز اور اس کے بہت سے گاؤں تباہ ہو گئے تھے۔ دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بہت سے لوگوں کو صاف پانی کے ساتھ ساتھ خوراک، کپڑے اور دیگر ضروریات کی اشد ضرورت ہے۔

کنیفے

پھر بھی، ایک ایسے شہر میں جہاں تقریباً ہر کسی نے اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں کو کھو دیا ہے، زندگی جاری ہے۔

کنیفے کی دکانوں کی ایک محدود تعداد دوبارہ کھلنے میں کامیاب ہو گئیں ہیں۔ اور بہادری سے مشکل کا سامنے کرنے والے اپنے لوگوں کو اس تعمیر نو کے وقت کے دوران زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں اور انھیں ایک بار پھر صدیوں سے یہاں کے بسنے والوں کے روائتی میٹھے کا ذائقہ دے رہی ہیں۔

یہ حالیہ زلزلے اس علاقے پر ٹوٹنے والی پہلی آفت نہیں تھے جسے مقامی طور پر انطاکیہ یا انتاکیا (اس کے تاریخی نام کی وجہ سے) کہا جاتا ہے، جو سکندر اعظم کی موت کے بعد سے کئی سلطنتوں کا دارالحکومت تھا۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اے آسا ایگر اور فلوریڈا سٹیٹ یونیورسٹی میں کلاسیکل سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آندریا یو ڈی جیورجی نے 2021 میں لکھی جانے والی کتاب میں شہر کی مشکل سے ابھر کر آگے بڑھنے کی صلاحیت کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب انطاکیہ کی ایک تاریخ کے بارے میں بتاتی ہے جس نے تقریباً 10 شدید زلزلے دیکھے ہیں جن میں انتہائی مالی و جانی نقصان ہوا۔

ایگر اور ڈی جیورجی نے اپنی کتاب ’انطاکیہ ایک مطالعہ‘ میں لکھا ’اس کے باوجود یہ شہر ہر صدمے اور وقت سے بچ کر ابھرا، اپنی تمام تاریخ کے دوران بحرانوں اور تبدیلیوں سے بھرا ہوا یہ شہر اور اس کے شہریوں کی تعمیر نو اور مشکل سے نکل کر آگے بڑھنے کی صلاحیت کے بارے میں ایک قیمتی سبق سکھاتا ہے۔‘

کتاب کے مطابق، اگرچہ آفات نے آبادی پر گہرے جسمانی اور نفسیاتی اثرات مرتب کیے، لیکن انھوں نے کسی نہ کسی طرح انطاکیہ کو بھی نئی شکل دینے کا موقع فراہم کیا۔

کنیفے

انگن ایک کنیفے ماسٹر ہیں اور جنھوں نے حالیہ زلزلوں کے کئی ہفتوں بعد ہاتائی کے ایک عارضی بازار میں اپنی تباہ شدہ دکان کو دوبارہ کھولا ہے۔ ان کو یہ تجربہ پہلی بار ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہماری پرانی دکان سے چھوٹی ہے۔ پھر بھی یہ اچھی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس یہ ہے۔ شاید یہ وہ جگہ ہو گی جہاں سے ہم پھر سے اوپر اٹھیں گے۔‘

گوزدے کنیفے کی اصل دکان ہاتائی کے پوش علاقے میں واقع تھی۔ گاہکوں کو یاد تھا کہ زلزلے سے کچھ رات پہلے، وہ اپنی گاڑیوں میں سڑک پر گھومتے ہوئے اپنے آرڈر کا انتظار کرتے تھے کیونکہ وہاں بیٹھنے کے لیے کوئی میز یا رکنے کے لیے پارکنگ کی جگہ نہیں تھی۔

اب یہ نئی اور عارضی دکان بمشکل 10 مربع میٹر سے بڑی ہے اور عملے کو محدود جگہ میں رش کو روکنے کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنا پڑتا ہے۔

کنیفے بنانے کے لیے استعمال ہونے والے تابنے کے ایک بڑے سے گول برتن میں مکھن اور شیرے کو ملاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برسوں تک دوسروں کے لیے کام کرنے کے بعد وہ زلزلے سے قبل ’غلہ پر بیٹھ کر باس بننے‘ کے احساس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

’لیکن ہمارے ماسٹر (کنیفے بنانے والے شیف) اپنے پورے خاندان کے ساتھ زلزلے میں ہلاک ہو گئے۔ اس لیے میں اب خود یہ کنیفے تیار کر رہا ہوں۔‘

تاہم اس بار ان کے پاس ایک نیا مددگار لامیا ڈنچ، ان کی بیوی تھیں۔ یہ دیکھنے کے بعد کہ ان کا شوہر بیک وقت باورچی خانے اور گاہکوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، انھوں نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور دکان کے عملے کی نئی رکن بن گئیں۔

ترکی

لامیا بتاتی ہیں کہ آغاز میں ان کے شوہر ان پر اعتماد نہیں کرتے تھے لیکن جلد ہی ’انھیں معلوم ہوا کہ ہمیں نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہو گا اور اب ہم وہی کر رہے ہیں۔‘

ان کے شوہر کے لیے کچن میں واپس آ کر کنیفے کی پہلی ٹرے تیار کرنا زلزلے کے بعد پہلی بار ایک اچھا لمحہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اسے چکھا اور زلزلے کے بعد پہلی بار میں نے کنیفے کھایا تھا۔ میں نے کہا ہاں میں زندہ ہوں۔‘

پنیر تیار کرنے والی لالے بتاتی ہیں کہ انتاکیا میں زندگی کیسے کھانے کے گرد گھومتی ہے خاص کر مقامی پکوانوں کے گرد جیسا کہ کنیفے۔ انھوں نے کہا کہ ’انتاکیا میں جو سوال سب سے اہم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کیا کھائیں گے۔‘

لالے استنبول میں پیدا ہوئیں اور پھر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2014 میں انتاکیہ چلی آئیں۔ اب وہ مقامی ہاتے پنیر بناتی ہیں جو بکری یا کبھی کبھار گائے کے دودھ سے تیار ہوتا ہے۔ شروع میں اس شہر کا کھانوں سے تعلق اور لوگوں کا گھنٹوں کھانے کی میز کے گرد بیٹھے رہنا ان کے لیے حیران کن تھا۔

کنیفے

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے شہر کے بارے میں اور جاننے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ انتاکیہ کی قدیم تصاویر بھی کھانے کی دعوتوں پر بنی تھیں۔‘

’خوراک انتاکیہ کے لوگوں کے لیے محبت کی زبان ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شام میں سب اکھٹے ہوں، مختلف پکوانوں کی میز سجائی جائے اور گھنٹوں باتیں کرتے ہوئے گزاریں۔‘

کنیفے کسی بھی کھانے کا اختتام کرنے کا سب سے میٹھا ذریعہ ہے۔ لالے کہتی ہیں کہ ’ترکی کے مشہور مشروب راکی کے ساتھ میٹھا نہیں کھایا جا سکتا لیکن کیوں کہ کنیفے میں پنیر ہوتا ہے تو یہ راکی کے ساتھ اچھا لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یوں رات کا شاندار اختتام ہوتا ہے۔‘

لالے کنیفے کے ایک اور معاشرتی پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کیوںکہ کنیفے کو زیادہ تر مرد بناتے ہیں تو یہ ان کی بہادری کے لیے بھی اہم ہوتا ہے کیوںکہ پھر بات چیت میں اس بات پر بھی بحث ہوتی ہے کہ سب سے اچھا کنیفے کون بناتا ہے۔‘

گوزدے کنیفے میں بیٹھے ایک مقامی صارف نے کہا ’یہ تو پرانے دنوں کی خوشبو جیسا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کنیفے

یہاں کے زیادہ تر صارفین مقامی سکیورٹی فورسز کے یونیفارم میں ہیں جو اب اس شہر میں کنیفے خرید سکتے ہیں کیوںکہ زیادہ تر لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے اور وہ امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ جو اپنے گھروں سے سامان لینے آتے ہیں، وہ بھی اس کیفے پر آ کر کنیفے چکھتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں۔

انگن نے ہاتے پنیر کے ٹکڑے اٹھائے اور ایک اور تہہ لگائی۔ پھر انھوں نے کنیفے کو الٹایا اور اس کی نچلی سطح کو ایک نئی ٹرے میں اوپر رکھ کر دوبارہ چولہے میں ڈال دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ جو لوگ زلزلے کے بعد شہر چھوڑ کر گئے ہیں ان کی وجہ سے کنیفے دوسرے شہروں میں اور بھی مقبول ہو گا۔‘

’شاید یہ ایک موقع ہے کہ کنیفے پورے ترکی میں پھیل جائے۔ اور جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں، جیسا کہ میں، تو ہم نئے لوگوں کو اس روایت کو زندہ رکھنے کی تربیت دے سکتے ہیں۔‘

زلزلے سے قبل ہاتے میں 30 سے زیادہ کنیفے کی دکانیں تھیں۔ اب ان میں سے صرف تین باقی ہیں۔

کنیفے

انگن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مدد چاہیے۔‘ کنیفے کی تازہ ڈش کو باہر لا کر سجاتے ہوئے انھوں نے گرما گرم پکوان پر ٹھنڈا شربت انڈیلا اور کہا ’انتاکیا کے لوگ باہر نہیں رہ سکتے۔ حالات کی وجہ سے بہت سے لوگ شہر چھوڑ گئے ہیں لیکن ہم یہیں رہیں گے، وہ بھی واپس آئیں گے اور ہم اپنی زندگی کا دوبارہ سے آغاز کریں گے۔‘

تقریبا آدھے گھنٹے بعد کنیفے کھانے کے لیے تیار تھا۔ یہ کچھ زیادہ میٹھا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں کچھ کھٹاس بھی تھی۔ یہ نرم لیکن خستہ تھا۔ اس کا ذائقہ انتاکیا کے پرانے دنوں جیسا ہی تھا اور اس میں آنے والے دنوں کے لیے امید بھی موجود تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ