’موت کا پھندا‘: آبدوزوں کے ذریعے کوکین یورپ سمگل کی جا رہی ہے

کوکین

  • مصنف, نک بیک
  • عہدہ, بی بی سی نیوز یورپ نامہ نگار

میں اس نارکو آبدوز میں سوار ہونے لگا ہوں جس کے ذریعے جنوبی امریکہ سے یورپ کوکین سمگل کی گئی۔

20 میٹر طویل فائبر گلاس سے بنی یہ آبدوز مکمل طور پر دیسی ساختہ ہے۔

آبدوز پر چڑھنے کے بعد میں نے اس کا ڈھکن اٹھایا اور اندر اتر گیا جہاں تین افراد طوفانی لہروں کے نیچے 27 دن کے پرخطر سفر کے بعد یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

اس تنگ سی جگہ میں دم گھٹتا ہے جس کی دیواروں سے سورج کی روشنی آ رہی تھی۔ اندر ایک سٹیرنگ وہیل، چند بنیادی سے ڈائل اور اگنیشن میں اب تک چابی لگی ہوئی ہے۔

یہاں آ کر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ایک کپتان نے اسے دیکھتے ہی ’موت کا پھندا‘ کیوں قرار دیا تھا۔

کوکین

سفر کے دوران شدید گرمی اور شور ہو گا کیوں کہ آبدوز میں موجود انجن کو رواں رکھنے کے لیے تقریبا 20 ہزار لیٹر تیل رکھا گیا تھا۔

اس آبدوز کے سفر پر ایکواڈور کے دو کزن اور ایک سابق ہسپانوی باکسر برازیل سے ایمازون دریا کے ذریعے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے پاس کچھ انرجی بارز اور محدود خوارک کے علاوہ حاجت رفع کرنے کے لیے شاپر موجود تھے۔

ان کے پاس یہی کچھ تھا۔ ہاں، ڈیڑھ سو ملین ڈالر مالیت کی تین ٹن کوکین اس کے علاوہ تھی۔

لیکن یہ کوئی بہت خوشگوار سفر نہیں تھا جس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا۔ 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کا سراغ لگا لیا تھا۔

گلیشیا کے ساحل کے قریب آبدوز ڈوب جانے کے بعد اس میں موجود افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

کوکین

بین الاقوامی منشیات کی سمگلنگ میں کام آنے والی یہ تاریخی آبدوز اب سپین کی پولیس اکیڈمی میں بطور ٹرافی سجائی گئی ہے۔

تاہم اپنی نوعیت کی یہ واحد آبدوز نہیں بلکہ خفیہ طور پر تیزی سے بڑھنے والے کاروبار کی علامت ہے۔

گذشتہ ماہ سپین کے ساحل کے قریب ایک اور آبدوز دریافت ہوئی۔

انتونیو مارٹینیز ہسپانوی پولیس میں نارکو بریگیڈ کے چیف کمشنر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 20 سال سے سمگلر افریقہ اور یورپ پہنچنے کے لیے آبدوزوں کا استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ پہلی دو آبدوزیں ہیں جو پکڑی گئیں۔

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’ان کو پکڑنا بہت مشکل ہے۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ ایسی سینکڑوں دیسی ساختہ آبدوزیں یورپ روانہ کی جا چکی ہیں جو امریکہ کے بعد کوکین کی سب سے بڑی منڈی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اٹلانٹک سمندر میں، کنیری جزائر کے قریب، کوکین آبدوزوں کا ایک وسیع قبرستان موجود ہے جن کو سامان کامیابی سے پہنچانے کے بعد جان بوجھ کر ڈبو دیا گیا۔

ہر خفیہ مشن آبدوز میں موجود میکینکوں کے لیے ایک بڑی فتح ہوتی ہو گی لیکن سپین میں عالمی منشیات سمگلنگ کی جنگ میں پولیس اپنی فتح منا رہی ہے۔

چیف کمشنر کہتے ہیں کہ ’یہ بہت اہم آپریشن ہے۔ یورپ میں پہلی بار ہم نے اتنی کوکین پیسٹ پکڑی۔‘

اس آپریشن میں پکڑی جانے والی کوکین ہی نہیں بلکہ ایک اور چیز بھی اہم ہے۔ چیف کمشنر کہتے ہیں کہ اس آپریشن نے کولمبیا اور میکسیکو کے مجرموں کے ہسپانوی گینگ سے روابط کو بھی ظاہر کیا۔

ہسپانوی پولیس نے پکڑا جانے والا سامان مقامی صحافیوں کو بھی دکھایا جہاں فضا میں کوکوا پیسٹ کی بو پھیل گئی۔

ایک میز پر درجنوں بھورے پارسل پڑے تھے۔ ہر ایک اینٹ جتنا تھا جن پر سپر مین کا نشان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ نشان سمگلروں نے اس لیے چنا کہ ان کو ناقابل تسخیر ہونے کا احساس دلاتا ہو۔

کوکین

ایک افسر نے جھک کر کہا کہ ہر پارسل کے لیے 27 سے 32 ہزار یورو ملتے ہیں۔ جب اسے بیچا جاتا ہے تو قیمت دگنی کر دی جاتی ہے۔

یہ منافع اصل سودے میں ملاوٹ سے اور بڑھا لیا جاتا ہے۔

گلیشیا کے علاقے میں جو لیبارٹری پکڑی گئی اس میں روزانہ 200 کلو کوکین تیار کرنے کی صلاحیت تھی۔

آبدوز کے ساتھ یہ لیبارٹری منشیات کی ایک ایسی خفیہ دنیا کا پتہ دیتی ہے جو تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ڈرگ ایجنسی کے مطابق کوکین کی پیداوار 2020 سے 2021 کے درمیان تین گنا بڑھی جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔

بیلجیئم کا اینٹورپ ایک ایسا مقام ہے جہاں یہ ایجنسی منشیات کی سپلائی میں بہت اضافہ دیکھ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اینٹورپ

2020 میں یہاں سے ایک 110 ٹن کوکین پکڑی گئی۔ حکام کے پاس اتنی زیادہ کوکین کو جلانے کے لیے بھی صلاحیت موجود نہیں تھی۔

چند اندازوں کے مطابق اس بندرگاہ پر آنے والی کوکین کا 10 فیصد پکڑا جاتا ہے جبکہ باقی نیدرلینڈ پہنچ جاتی ہے جہاں سے اسے برطانیہ سمیت یورپ بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔

بندرگاہ پر موجود کسٹم کے سربراہ نے مجھ سے کہا کہ کوک کی اس سونامی کی وجہ سے وہ یہ جنگ کبھی نہیں جیت پائیں گے۔

اور یہ جنگ اب اینٹورپ کی گلیوں میں بھی ہو رہی ہے جہاں جنوری میں ایک 11 سالہ لڑکی کے قتل کو کوکین کی تجارت کرنے والے گینگ کی شوٹنگ سے منسلک کیا گیا۔

بیلجیئم کے وزیر انصاف ونسنٹ وان کوئکینبورن گذشتہ ایک سال سے چھپ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس کو مقامی مجرموں کے ایک ایسے منصوبے کا علم ہوا تھا کہ وہ وزیر انصاف کو اغوا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے گھر کے باہر سے اسلحہ سے بھری گاڑی ملی تھی۔

بیلجیئم کے جج مائیکل کلیز کے مطابق منشیات کی انڈسٹری بے قابو ہو چکی ہے۔ برسلز میں جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’نارکو ٹریفیکر بہت کما رہے ہیں۔‘

’دولت کے ساتھ ان کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ منی لانڈرنگ اور کرپشن کی مدد سے اب پولیس اور دیگر افراد کو بے پناہ پیسے کی آفر کی جا سکتی ہے تو ہم کیسے ان تنظیموں پر کنٹرول کریں؟‘

بیلجیئم میں کوکین کا بحران یورپ کا بحران بن چکا ہے اور اب اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ متحارب بین الاقوامی گروہ مل کر کام کر رہے ہیں جو ایک خطرہ ہے۔

ایجنسی کے مطابق یورپ میں کامیابی کے بعد جلد ہی یہ گروپ ایشیا اور افریقہ کا رخ کرنے والے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ