فرانس میں بحر ہند کی جنت جہاں مسلم تارکین وطن پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں

A family photo of Christian in a pink vest
،تصویر کا کیپشن

گلابی شرٹ میں کرسچن اپنے خاندان کے ہمراہ

  • مصنف, مارینا دارس
  • عہدہ, بی بی سی، افریقہ

42 سال کے کرسچن ایلی موسیٰ اپنی فرانسیسی شہریت کی سماعت کے لیے تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے کئی سال پیسے جمع کیے تاکہ وکلا کی فیس ادا کر سکیں اور وہ یورپی پاسپورٹ حاصل کر سکیں جو کہ ان کا پیدائشی حق بھی ہے۔

ان کے والد کا تعلق بحر ہند کے جزیرے مایوٹ سے تھا اور وہ فرانسیسی شہری تھے۔ اس جزیرے کو فرانس کے خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

تاہم کرسچن کی پیدائش قریب 350 کلو میٹر دور مڈغاسکر جزیرے پر ہوئی اور انھوں نے وہیں پرورش پائی۔ اس وجہ سے انھیں فرانسیسی شہریت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

کرسچن کئی برسوں سے فرانسیسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور غیر رسمی طور پر یہاں کام کاج بھی کرتے آئے ہیں۔ شہریت کی سماعت سے کچھ ہفتے قبل انھیں فرانس کی بارڈر پولیس نے اچانک گرفتار کر لیا اور واپس مڈغاسکر ڈی پورٹ کر دیا۔ انھوں نے کشتی پر سوار ہو کر عدالتی سماعت کے لیے لوٹنے کی بھرپور جدوجہد کی۔

بڑھتے چھاپے

مایوٹ جزیرے میں قریب تین لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ یہ اپنی مرجان کی چٹانوں اور ساحلی جھیل کے لیے مشہور ہے۔ یہ فرانس کا سب سے غریب علاقہ ہے مگر جنوب مشرق میں افریقی ساحل کے قریب ہمسایہ جزیروں مڈغاسکر اور کمروز کے مقابلے میں پھر بھی ’امیر‘ ہے۔

دیگر کئی غیر رجسٹرڈ ملازمین کی طرح کرسچن مڈغاسکر میں اپنی بیوی اور بچوں کی مالی مدد کے لیے یہاں کام کر رہے تھے۔

The sea and lagoon surrounding Mayotte

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مایوٹ میں سورج، ریت اور پانی کسی جنت سے کم نہیں مگر یہ نظارے حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں

ان کے ایک رشتہ دار، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے، نے بتایا کہ ’وہ (بارڈر پولیس) اندر آئی اور وہ کرسچن کو لے جانے آئی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرے جوتے لاؤ اور جب تک میں واپس آیا، وہ انھیں لے جا چکے تھے۔‘

وہ کرسچن کو علاقے کے واحد حراستی مرکز لے گئے تھے۔ ’ہم نے فون پر بات کی۔ وہ بہت رو رہے تھے اور انھوں نے کہا وہ واپس مڈغاسکر جانا نہیں چاہتے۔‘

ان کے رشتہ دار نے ایک وکیل سے رابطہ کیا جس نے انھیں ڈی پورٹ کرنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اپیل دائر کی۔ کرسچن کو اگلے روز صبح 11 بجے جج کے سامنے پیش ہونا تھا مگر اس وقت تک انھیں مڈغاسکر کے لیے روانہ کر دیا گیا تھا۔ حراست کے بعد واپسی کی پرواز کا انتظام 48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں کر لیا گیا۔

کرسچن کی بیوی اور بچے مڈغاسکر میں تھے مگر وہ جانتے تھے کہ وہاں وہ ان کی مالی مدد کے لیے اتنے پیسے کما نہیں سکیں گے۔

ورلڈ بینک کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مڈغاسکر میں ہر پانچ میں سے چار لوگ یومیہ 2.15 ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ جبکہ فرانس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مایوٹ کے 42 فیصد رہائشی 160 یورو سے کم میں مہینہ گزارتے ہیں۔

کرسچن کو معلوم تھا کہ فرانسیسی پاسپورٹ سے وہ قانونی طور پر فرانس کے شہری بن جائیں گے اور انھیں مزید مواقع مل سکیں گے۔ اسی لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس جا کر سماعت میں پیش ہوں گے مگر اس بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔

ان کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ واپس مایوٹ آنے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے مجھ سے یا اپنے دوستوں سے کچھ نہیں کہا تھا۔ انھوں نے صرف پیسے مانگے تھے کہ وہ بیمار ہیں اور کچھ دوا خریدنی ہے۔ کیونکہ گاؤں میں پینے کا صاف پانی نہیں تھا۔‘

’جب حکام نے بتایا کہ انھیں ان کی لاش ملی ہے تو میں نے ان سے کہا ’نہیں، یہ وہ نہیں ہوسکتے۔‘ انھوں نے تصاویر بھیجیں تو میں نے چہرہ پہچان لیا۔‘

’ایک کھلا قبرستان‘

کرسچن کا شمار ان کم از کم 34 لوگوں میں کیا گیا جن کی لاشیں 12 مارچ کو مڈغاسکر کے ساحل پر پائی گئیں۔ وہ تیسری بار مچھلیاں پکڑنے کی کشتی پر یہ سفر طے کر رہے تھے جسے مقامی زبان میں ’کواسا کواسا‘ کہا جاتا ہے۔

مایوٹ میں غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس لیگ کے ڈینیئل گروس کہتے ہیں کہ ’ساحل کے گرد سمندری جھیل ایک کھلا قبرستان ہے۔‘

’جب میں 2012 میں یہاں آیا تھا تو حکام بتاتے تھے کہ یہاں قریب 10 ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اور آج بھی وہ یہی اعداد و شمار دیتے ہیں۔ کسی نے آج تک ان لوگوں کو گننے کی کوشش بھی نہیں کی جنھوں نے اس جھیل کو عبور کرنے کی کوشش کی۔‘

مایوٹ حال ہی میں مظاہروں اور بدنظمی کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے جس کی وجہ ہمسایہ کمروز جزیروں سے تارکین وطن کی آمد میں اضافہ ہے اور اس سے سرکاری وسائل پر بوجھ بڑھا ہے۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ جزیروں پر ہر دو میں سے ایک شخص ’غیر ملکی‘ ہے اور اس نے کریک ڈاؤن کا وعدہ کر رکھا ہے۔ یہاں سے سالانہ 24 ہزار لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔

مایوٹ سے رکن پارلیمان ایسٹیل یوسفہ نے پیرس سے کمروز جزیروں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے جنوری میں کہا تھا کہ ’ہم قومی بحریہ کے مستقل اڈے کا مطالبہ کرتے ہیں جو جزیرے پر غیر قانونی نقل مکانی کے خلاف لڑے گی۔‘

A man in front of a dention centre who says his teenager daughter is being held inside

،تصویر کا کیپشن

ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس کی کم عمر بیٹی حراستی مرکز میں قید ہے

مگر فلاحی تنظیموں کے مطابق اس سے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک نوجوان باپ، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، بتاتے ہیں کہ حراستی مرکز میں ان کی 13 سال کی بیٹی کو خاندان کے ایک فرد کے ہمراہ قید کیا گیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ کم عمر ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں کہ سکول جانے کے بجائے ایک بچی قید میں بند ہو جائے۔ ہم ان کے بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘

مسلم کچی آبادیوں کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاری

فرانس کی حکومت ماہ رمضان کے بعد اس مسلم اکثریتی جزیرے میں قائم کچی بستیاں گرانے کے بڑے منصوبے کی تیاری کر رہی ہے۔ ’آپریشن وامبوکو‘ کے تحت جزیرے پر پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد 1300 تک جا پہنچی ہے۔

Fatima pointing at a 'tag' sprayed on her home

،تصویر کا کیپشن

فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان کے گھر کو مسمار کر دیا جائے گا، جس کے لیے حکام اس کی نشاندہی کر کے گئے ہیں

شمال میں قائم کچی آبادی ’ماجیکاوو‘ میں مقامی اہلکار ابھی سے لوہے کی تعمیرات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ 15 سال سے یہاں مقیم فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ہم پر مسلسل خطرہ منڈلا رہا ہے۔ آپ اسے قبول کریں یا نہیں، یہ جگہ تباہ ہوجائے گی۔‘

فاطمہ کے پاس رہائشی پرمٹ ہے جس سے وہ جزیرے پر رہ تو سکتی ہیں مگر مرکزی فرانس تک سفر نہیں کرسکتیں۔

فرانسیسی قانون کے تحت حکومت ان لوگوں کو ’مناسب متبادل رہائش‘ دینے کی پابند ہے جن کے گھر تباہ ہوں گے۔ مگر اب تک رہائشی انتظامات کا کوئی واضح منصوبہ نہیں دیا گیا۔ کچھ رہائشی کہتے ہیں کہ انھیں چھ ماہ تک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر رہائش کی پیشکش کی گئی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے اس تحریر کے سلسلے میں جواب دینے سے گریز کیا ہے۔

ڈینیئل گروس اس اقدام کے سخت مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانسیسی ریاست ’جارحانہ منصوبہ‘ بنا چکی ہے۔ ’اگر آپ لوگوں کو دور بھگائیں گے تو آپ پھر حیران نہ ہوں جب وہ واپس آئیں۔

’ہم روزانہ سینکڑوں لوگوں کو ڈی پورٹ کر رہے ہیں مگر اسی دوران اسی تعداد میں لوگوں کی کشتیاں یہاں پہنچ رہی ہیں۔ ریاست فرانسیسی شہریوں کو بتانا چاہتی ہے کہ وہ امیگریشن کے خلاف کچھ کر رہی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ