کینیڈا میں ڈکیتی کی بڑی واردات لیکن یہ پہلی ڈکیتی تو نہیں ہے

کینیڈا کے ایئرپورٹ بڑی بڑی چوریوں کے مقامات رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کینیڈا کے ایئرپورٹس پر بڑی بڑی چوریاں ہو چکی ہیں۔

  • مصنف, ندائن یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ٹورانٹو

کینیڈا کی پولیس رواں ہفتے ٹورنٹو ہوائی اڈے سے ڈیڑھ کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کی مالیت کی قیمتی دھات اور دیگر قیمتی سامان کی چوری سے متعلق تفتیش کر رہی ہے۔ یہ ڈکیتی ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتیوں میں سے ایک بتائی جا رہی ہے۔

لیکن یہ کینیڈا میں اپنی نوعیت کی پہلی ڈکیتی نہیں ہے اور نہ ہی کسی ہوائی اڈے پر ہونے والا کوئی پہلا واقعہ ہے۔

رواں ہفتے دیدہ دلیری کے ساتھ یہ چوری اس وقت ہوئی جب ایک ‘انتہائی قیمتی کنٹینر’ کینیڈا کے مصروف ترین ہوائی اڈے کے قریب کارگو ہولڈنگ کی سہولت میں لے جانے کے دوران غائب کر دیا گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ چوروں نے ٹورنٹو پیئرسن بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک گودام کے عوامی حصے تک رسائی حاصل کی جہاں ہوائی اڈے کی سکیورٹی عام طور پر نہیں ہوتی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ چوری، جس کی ابھی تفتیش جاری ہے، ایک انوکھا اور ‘بہت نایاب’ چوری کا واقعہ ہے۔ اگرچہ اس پیمانے کی ڈکیتی واقعی نایاب ہے لیکن کینیڈا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اس قسم کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

سونے کی اینٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سونے کے اینٹوں کی ایک پراسرار ڈکیتی جو اب تک حل طلب ہے

ٹورنٹو پیئرسن بین الاقوامی ہوائی اڈہ اکثر اونٹاریو صوبے میں ہونے والے سونے کی کان کنی کے لیے ایک مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور ستمبر سنہ 1952 میں وہاں ایک ڈکیتی کا ایک پراسرار واقعہ ہوا تھا۔

اس وقت پیئرسن کو دوسرے مالٹن ایئرپورٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اور وہیں سے چور اس وقت تقریباً 215،000 کینیڈین ڈالر کی مالیت کی سونے کی سلاخیں یا اینٹیں چرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ (آج ان کی قیمت 25 لاکھ کینیڈین ڈالر لگائی جاتی ہے)۔

یہ سونے کی اینٹیں مونٹریال جانے والے ہوائی جہاز میں لوڈ کیے جانے سے پہلے سٹیل سے بنے بکسے میں محفوظ تھیں۔ وہاں سے، اسے برطانیہ بھیجنا مقصود تھا۔

لیکن جب طیارہ مونٹریال پہنچا تو وہاں سونے کی اینٹوں کے 10 میں سے صرف چار بکس تھے یعنی چھ غائب ہو چکے تھے۔

اس وقت ٹورنٹو سٹار میں شائع ہونے والے مضامین کے مطابق ڈاکوؤں کو کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ 70 سال قبل ہونے والی ڈکیتی کے بعد سے اب تک کسی بھی مشتبہ شخص کا نام سامنے نہیں آیا۔

ایک پولیس افسر نے اس وقت نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ سونا ‘کہیں اچانک غائب ہو گیا۔’

ہوائی اڈوں کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینے والے ایک خود مختار سکیورٹی کنسلٹنٹ سٹیسی پورٹر کا کہنا ہے کہ ‘ہوائی اڈوں پر چوری ہمیشہ ہوتی ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ہوائی اڈے بڑی سہولیات ہیں جن میں بہت سے ممکنہ حفاظتی کمزوریاں ہوتی ہیں، خاص طور پر ان حصوں میں جہاں بیگ اور سامان رکھے جاتے ہیں۔

کیمرے ایئرپورٹ کے ہر اس لمحے کو قید کرتے ہیں جہاں مسافر ہوتے ہیں، لیکن تجارتی ایئر لائن کارگو کے سامان اور کاروباری اداروں کے ذریعہ کی جانے والی بڑی کھیپیں اکثر تاریک گوداموں میں رکھی جاتی ہیں جن کی زیادہ ویڈیو نگرانی نہیں کی جاتی ہے۔

سونے کے سکے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ونی پیگ میں ایک فلائنگ ڈاکو اور اوٹاوا میں ایک سٹاپ واچ گینگ

تقریبا 50 سال قبل کینیڈا کی تاریخ کی ‘سب سے بڑی سونے کی ڈکیتی’ ہوئی تھی اور یہ کام کین لیش مین نے کیا جب انھوں نے سنہ 1966 میں وینی پیگ ہوائی اڈے سے تین لاکھ 85 ہزار کینیڈین ڈالر کی مالیت کے سونے کی دلیرانہ چوری کی۔ آج اس کی قمیت 33 لاکھ کینیڈین ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

لِش مین ایک ایک ایسا چور تھا جے ‘فلائنگ ڈاکو’ کا نام دیا گیا تھا۔ اس سے کہیں سے یہ پتہ چل گیا کہ ونی پیگ شمال مغربی اونٹاریو میں ہونے والی سونے کی کان کنی کے لیے ایک ٹرانزٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور وہاں سے سونے کو اوٹاوا بھیج دیا جائے گا۔

ڈکیتی کو انجام دینے کے لیے لیش مین نے مجرموں کی ایک ٹیم تیار کی جو کہ خود کو سونے کے فروخت کنندگان اور ایئر لائن کے ملازمین کے طور پر پیش کرنے ل‍گے اور پھر وہ آنے والی کھیپ کے وقت کا تعین کرنے اور ہوائی اڈے کی سکیورٹی میں دراندازی کرنے میں کامیاب رہے۔

جعلی کاغذی کارروائی کی مدد سے لیش مین اور اس کے ساتھی کھیپ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور سونا لے کر ٹارمیک سے فرار ہو گئے۔

لیکن وہ کچھ دنوں بعد پکڑے گئے اور لیش مین کو جیل بھیج دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے بعد سے لیش مین نے خاص طور پر اپنی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ تربیت یافتہ پائلٹ نے جیل سے رہائی کے بعد مریضوں کو دور دراز کے علاقوں سے شہر کے ہسپتالوں تک پہنچانا شروع کر دیا اور سنہ 1979 میں ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ان کی المناک موت ہوگئی۔

مسٹر پورٹر کا کہنا ہے کہ اندر سے کسی ملازم کی جانب سے چوروں کی مدد کرنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹورانٹو میں سونے کی ڈکیتی کی تحقیقات میں جاسوس کسی ایسے کارکن کو قریب سے دیکھ رہے ہوں گے جن کے پاس ان علاقوں تک حفاظتی رسائی تھی جہاں قیمتی سامان رکھے تھے۔

اور دوکروڑ کینڈین ڈالر جیسی خطیر رقم کے لیے تو ہوائی جہاز کے کپتان بھی شک کی زد میں آ سکتے ہیں۔

ونی پیگ ڈکیتی کے آٹھ سال بعد سنہ 1974 میں اس سے بھی زیادہ مقدار میں سونے کی ڈکیتی ہوئی اور اس بار یہ ڈکیتی اوٹاوا بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہوئی۔

تین مجرموں کا گروپ ‘سٹاپ واچ گینگ’ امریکہ اور کینیڈا دونوں ممالک میں بینک ڈکیتیوں میں شامل تھا۔ اس گروپ نے ساڑھے سات لاکھ کینیڈین ڈالر مالیت کی چھ غیر صاف شدہ سونے کی سلاخیں چرا لیں جن کی قیمت آج 43 لاکھ کینڈین ڈالر ہے۔

گینگ نے آدھی رات کو بندوق کی نوک پر وہاں موجود تنہا سیکیورٹی گارڈ کو پکڑ لیا اور سونا چرانے سے پہلے اسے ایک پائپ کے ساتھ ہتھکڑی لگا دیا۔ یہ سونا ایک چھوٹے تالے سے محفوظ فریٹ ٹرمینل پر پنجرے کے اندر محفوظ کیا گیا تھا۔

یہ تینوں بالآخر پکڑے گئے لیکن صرف جیل سے فرار ہونے کے لیے اور پھر انھوں نے ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے پہلے امریکہ میں مزید ڈکیتیاں کیں۔

ہیتھرو کے پاس برنک کا میٹ ڈپو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہیتھرو کے پاس برنک کا میٹ ڈپو

صدی کی سب سے بڑی چوری

اگرچہ کینیڈا میں سونے کی چوری کی متاثر کن تاریخ ہے لیکن کوئی بھی چوری اس کے قریب نہیں آتا جسے برطانیہ میں ‘صدی کا جرم’ کہا جاتا ہے۔ سونے کی اینٹوں کی یہ چوری نومبر سنہ 1983 میں ہوئی اور اس کی مالیت تقریبا دو کروڑ 60 لاکھ برطانوی پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔

آج کی کرنسی میں، اس کی مالیت تقریباً سوا 11 کروڑ پاؤنڈ یا تقریبا 19 کروڑ کینیڈین ڈالر ہوگی۔

ڈکیتی اس وقت ہوئی جب چھ مسلح افراد لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے کے قریب برنکز میٹ کے ڈپو میں داخل ہوئے اور ایک سکیورٹی گارڈ ان کے ساتھ ڈکیتی میں شامل تھا۔

انھوں نے غیر ملکی کرنسی کی بڑی رقم ملنے کی امید میں ڈاکہ ڈالا تھا لیکن اس کے بجائے انھیں قیمتی سونا، ہیرے اور نقدی ہاتھ لگیں۔

چوری میں شامل تمام لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کی طویل تعاقب کرنا پڑا کیونکہ مجرموں نے سونے کو نقدی میں تبدیل کرنے کے لیے بہت سے دوسرے مجرموں کی مدد لی تھی۔

گزشتہ برسوں میں ہونے والے بہت سے قتل کا تعلق اس ڈکیتی سے ہے جبکہ چند خودکشیاں بھی اس سے منسلک کی جاتی ہیں۔ زیادہ تر سونا کبھی برآمد نہیں کیا جا سکتا جبکہ چھ اصلی ڈاکوؤں میں سے چار کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔

یہ ڈکیتی اس وقت کی عالمی تاریخ کی سب سے بڑی وارداتوں میں سے ایک تھی اور اس کا برطانوی عوام اور پولیس دونوں پر دیرپا اثر پڑا۔

بی بی سی کے ایک ٹی وی ڈرامے میں ڈکیتی اور اس کے بعد کے واقعات کو دکھایا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ‘اگر آپ نے 1984 کے بعد برطانیہ میں سونے کے زیورات خریدے ہیں، تو اس میں برنک میٹ سونے کے نشانات ہونے کا امکان ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ