خرطوم سے ہزاروں لوگ ہجرت پر مجبور: ’جب میزائل ہمارے گھر سے ٹکرایا تو ہمیں لگا کہ اب ہمیں یہاں سے جانا ہی ہوگا‘

نون ابراہیم اپنے کتے کے ساتھ
،تصویر کا کیپشن

نون ابراہیم اپنے کتے کے ساتھ بس میں

سوڈان کے دسیوں ہزار لوگ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد سے نقل مکانی پرمجبور ہو رہے ہیں اور وہ چاڈ، مصر اور جنوبی سوڈان جیسے پڑوسی ممالک میں حفاظت کی تلاش میں پہنچ رہے ہیں۔ میڈیکل کی 21 سالہ طالبہ نون عبدالباسط ابراہیم ان میں سے ایک ہیں۔

سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کےدرمیان لڑائی شروع ہونےکےکچھ دنوں کےبعد بھی ان کا خاندان نقل مکانی کے متعلق ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔

نون ابراہیم نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم نے سوچا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدیں بند ہوں گی، اور ہم کہیں پھنس سکتے ہیں۔’

بال بال بچے

جنگ شروع ہونے کے چار دنوں بعد ہی 18 اپریل یعنی منگل کو سب کچھ اس وقت بدل گیا جب خرطوم میں ان کے خاندانی گھر کو میزائل کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ برری میں رہتی ہیں اور یہ جگہ اسی ضلع میں ہے جہاں فوج کا ہیڈکوارٹر ہے۔

نون کہتی ہیں: ‘ہر کوئی دادی کے کمرے میں چھپ گیا، ہم اتنے ڈر گئے تھے کہ ہم سوچنے لگے کہ دوبارہ ہم شاید نہ بچ سکیں۔۔۔ہم سب جان چکے تھے کہ اس کے بعد ہم وہاں نہیں رہ سکتے۔’

نون کی گلیوں میں واقع گھر اور کاروبار سمت گولیوں کی زد میں آ رہے تھے۔ ان کی ماں کے جاننے والوں میں سے ایک کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گيا تھا۔ بجلی اور پانی کی فراہمی بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ خوراک کی کمی بھی ہونے لگی تھی۔

نون کا گھراسی ضلع میں ہے جہاں فوج کا ہیڈکوارٹر ہے

،تصویر کا کیپشن

نون کا گھراسی ضلع میں ہے جہاں فوج کا ہیڈکوارٹر ہے

نون ابراہیم اور ان کے خاندان کے نو افراد دو دن کے خطرناک سفر کے بعد اب قاہرہ میں محفوظ ہیں۔ انھوں نے ایک کھچاکھچ بھری بس میں سفر کیا۔ یہ بس 20 اپریل کی صبح خرطوم سے روانہ ہوئی۔ اس بس کو ان لوگوں نے پانچ ہزار ڈالر میں بک کیا تھا اور اس میں نون کے اہل خانہ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ البتہ نون کے کتے ماریو کا سفر مفت تھا۔

نوجوان خاتون کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے پاس بس اتنی ہی رقم تھی لیکن پھر بھی ہم لوگ خوش قسمت تھے۔ میرے ایک دوست نے 8,000 ڈالر میں بس کرایہ پر لینے کا بندوبست کیا تھا، لیکن آخری وقت بس کے مالک نے قیمت دگنی کر دی تھی۔’

یہ بھی پڑھیے

موت اور تباہی

نون ابراہیم مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک رشتہ دار کے گھر میں قیام پذیر ہیں اور وہ سفر کی صعبتوں اور صدمے سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں جو کہ انھیں خرطوم سے نکلتے ہوئے سڑکوں پر تباہ شدہ ٹینکوں اور لاشوں کو دیکھ پہنچے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ بس میں موجود بچوں اور بوڑھوں کی وجہ سے انھیں دارالحکومت کے گرد موجود فوجی اور نیم فوجی چوکیوں سے آسانی سے نکلنے میں مدد ملی۔

میڈیکل کی طالبہ نے اعتراف کیا کہ ‘میں بہت مطمئن ہوں کہ ہم وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم ایسا کر بھی سکیں گے۔’

ان کے خوف میں سفر کے آغاز کے بعد بھی کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ جب ان کے خاندان والے جہاں ان کے لیے بس کھڑی تھی وہاں جانے کے لیے نکل ہی تھے کہ ان کے پڑوس والی گلی میں ایک راکٹ عمارت سے جا ٹکرائی۔

وہ بتاتی ہیں؛ ‘ہم اپنی جان کے ڈر سے واپس گھر کے اندر بھاگے۔ لیکن پھر چند منٹ بعد ہم نے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔’

چلی ہوئی گولی

،تصویر کا کیپشن

چلی ہوئی گولی

یونیورسٹی کا خواب

مصری سرحد پر نون کے ایک بھائی اور دو چچا کو ویزے کا بندوبست کرنے کے لیے پیچھے رک جانا پڑا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘مجھے اور میرے خاندان کو زندہ رہنے پر خوشی ہے لیکن یہ ایک تلخ شیریں لمحہ ہے۔’

سوڈان کی خواتین، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو مصر میں داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے اور اس سے مستثنی ہیں۔

جب لڑائی شروع ہوئی اس وقت تک نون نے میڈیکل سکول میں اپنا آخری سال شروع کر دیا تھا۔ وہ کسی وقت اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرنے اور ڈاکٹر بننے کے لیے پر امید ہیں۔ ابھی وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ ان کا ملک کسی طرح معمول کی طرف لوٹ آئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے ‘ملک کی صورتحال افراتفری کا شکار ہے۔ لوگوں کے پاس سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔’

ان کے پاس سوڈان میں جاری تصادم کو چلانے والے دونوں فوجی رہنماؤں کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘انھوں نے کافی معصوم جانیں لے لی ہیں۔ ان کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے اور بھی طریقے ہیں اور انھیں اس جنگ کو فوری طور پر روک دینا چاہیے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ