سعودی عرب اور ایران کے معاہدے پر ’پریشان‘ اسرائیل کن ممالک سے قربت بڑھانے پر مجبور ہو رہا ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سعودی عرب اور ایران نے چین کی ثالثی میں گذشتہ ماہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے

ایک ایسے وقت میں جب چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی ممکن ہوتی نظر آ رہی ہے وہیں دوسری جانب اس معاہدے سے پریشان اسرائیلی حکومت نے ایران کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی تھی اور مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرنے والے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل نے 2020 میں سعودی عرب کے ہمسایہ ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ساتھ ابراہام معاہدے کے نتیجے میں تعلقات بحال کر لیے تھے۔ اسرائیل نے بارہا سعودی عرب سے قربت قائم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کے دن اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے مستقبل قریب میں سعودی عرب کے دورے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں برس ایک اور عرب ملک اسرائیل سے تعلقات بحال کر لے گا۔ تاہم انھوں نے اس ملک کا نام نہیں لیا۔

یہ بات انھوں نے آذربائیجان کے دورے کے دوران کہی۔ کوہن نے یہ بھی کہا کہ ’سعودی عرب کا دشمن اسرائیل نہیں، ایران ہے۔‘

جب ان سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ایسی پیش رفت اسرائیل کے لیے بہتر ثابت ہو گی۔‘

لیکن ایران اور سعودی عرب کے درمیان اس پیش رفت نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی ان کوششوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے جن کے تحت وہ خطے میں ایران کو سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتے تھے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے مستقبل قریب میں سعودی عرب کے دورے کا عندیہ دیا ہے

شاید اسی لیے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے گذشتہ رات امریکی ٹی وی چینل سی این بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو میں سعودی عرب کو خبردار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ کے 95 فیصد مسائل ایران کے پیدا کردہ ہیں۔ لبنان کو دیکھیں، یمن کو دیکھیں، شام اور عراق کو دیکھیں۔‘

واضح رہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے حال ہی میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو دورے کی دعوت دی ہے جبکہ دوسری جانب بدھ ہی کے دن شہزادہ محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس سے جدہ میں ملاقات کی۔

ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ترکمانستان اور آذربائیجان سے تعلقات کو بہت بنانے کی کوششوں کو اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کا کہنا ہے کہ رواں برس ایک اور خلیجی ملک اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لے گا تاہم اس ملک کا نام نہیں بتایا گیا

آذربائیجان اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات

19 اپریل کو اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں صدر الہام علیئیف سے ملاقات کی جہاں دونوں ممالک کے درمیان، اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق، باہمی تعلقات، خطے کے چیلنجز اور تجارتی تعلقات پر بات چیت ہوئی۔

اس بیان میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ آذربائیجان ایک مسلم ملک ہے اور اس کی خصوصی جیوگرافک پوزیشن کی وجہ سے ہمارے تعلقات نہایت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

آذربائیجان کے لیے ایسے الفاظ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے متعدد بار استعمال کیے جا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ آذربائیجان نے حال ہی میں اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ بھی کھولا ہے اور اس وقت اسرائیلی میڈیا میں کہا گیا کہ آذربائیجان پہلا شیعہ ملک ہے جس نے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ کھولا ہے۔

ہاریٹز اخبار نے لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خطے میں ایرانی اثرورسوخ کے بارے میں مشترکہ تحفظات کی وجہ سے ہیں جبکہ آذربائیجان اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

اس سے قبل گذشتہ سال مارچ میں ہاریٹز اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیل نے آذربائیجان کو اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کیا جس کے بدلے میں آذربائیجان سے اسرائیل کو تیل ملا۔

اس تحقیقی رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ آذربائیجان نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو ایران پر نظر رکھنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت بھی دی ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای

واضح رہے کہ اسرائیل نے 2020 میں آرمینیا کے ساتھ تنازع کے دوران آذربائیجان کی مدد کی تھی۔

اس سے قبل 2012 میں امریکی میگزین فارن پالیسی نے کہا تھا کہ آذربائیجان اور اسرائیل لوگوں کی اُمیدوں سے زیادہ قریب آ چکے ہیں۔ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کوئی جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسرائیل آذربائیجان کے ساتھ اس کی فضائی حدود سے متعلق ایک معاہدہ کر چکا ہے۔

ترکمانستان میں اسرائیلی سفارت خانہ

اسرائیل ایران کے ایک اور ہمسایہ ملک ترکمانستان سے بھی قربت بڑھا رہا ہے جس کا ایک ثبوت ترکمانستان میں اسرائیل کے سفارت خانے کا کھلنا ہے۔

19 اپریل کو اسرائیلی اخبار نے ایک خبر شائع کی جس کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ 20 اپریل کو اشک آباد میں اسرائیلی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔ اس دورے کے دوران اسرائیلی وزیر خارجہ ترکمانستان کے صدر اور وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کریں گے۔

واضح رہے کہ اشک آباد، جو ترکمانستان کا دارالحکومت ہے، ایران کی سرحد سے صرف 20 کلومیٹر دور ہے۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق سفارت خانے کے مقام کا انتخاب بھی ایران کے لیے ایک پیغام ہے۔

تاہم اب تک ایرانی میڈیا میں سرحد کے اتنا قریب، ترکمانستان کے دارالحکومت میں، اسرائیلی سفارت خانے کے افتتاح پر کوئی خبر شائع نہیں ہوئی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن 1994 کے بعد ترکمانستان کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر ہوں گے جب اس وقت کے وزیر خارجہ شمون پریز نے ترکمانستان کا دورہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایران اور اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی لڑائی

ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع دہائیوں پرانا ہے۔ ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسری جانب اسرائیل متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کو قبول نہیں کرے گا۔

اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر خدشات عالمی سطح پر اٹھاتا رہا ہے اور اس کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے جس کا دعوی ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور مغربی دنیا کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔ تاہم نئے صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اس معاہدے کو ازسرنو زندہ کرنے کی کوشش کی جار رہی ہے۔

ایران نے متعدد بار یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اسرائیل نے اس کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے ہیں اور ایران کے جوہری سائنس دانوں کو ہلاک کیا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کی تردید یا تصدیق نہیں کرتا۔

دونوں ممالک کے درمیان محاذ آرائی کا ایک میدان سمندر بھی ہے جہاں ماضی میں بحری جہازوں پر غیر اعلانیہ اور پراسرار حملے ہوتے رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ