مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اقصیٰ اتنی متنازع کیوں ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رواں ہفتے اسرائیلی پولیس کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں کے بعد تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد جمعرات کی شب اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی اور لبنان میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے کی گئی بمباری میں ہونے والے نقصانات کی تفصیل فی الحال معلوم نہیں ہے۔

اسرائیلی فورسز کا دعویٰ ہے کہ اس سے قبل لبنان سے اسرائیل پر راکٹ حملے کیے گئے تھے۔

اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں بدھ کے روز گرفتاریوں کی مسلم دنیا کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی۔

مسجد اقصیٰ اتنی اہم کیوں ہے؟

مسجد اقصیٰ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے پرانے شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جسے مسلمان ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

واضح رہےکہ یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے جبکہ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

الحرم الشریف کمپاوئنڈ میں مسلمانوں کے دو مقدس مقامات موجود ہیں جن میں ’ڈوم آف دی راک‘ اور اقصیٰ مسجد شامل ہیں جسے آٹھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

اس پورے کمپاونڈ کو ’الاقصی مسجد‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً 35 ایکڑ رقبے پر محیط اس مقام کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں جبکہ ’ڈوم آف دی راک‘ کو بھی یہودی مذہب میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے۔

مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں کئی پیغمبروں نے عبادت کی جن میں حضرت ابراہیم، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس اور حضرت عیسیٰ شامل تھے۔

مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلام کو سنہ 620 میں ایک ہی رات کے دوران مکہ سے الاقصی مسجد لایا گیا جہاں سے انھوں نے معراج کا سفر کیا۔ اسی لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب یہودیوں کا ماننا ہے کہ شاہ سلیمان نے تین ہزار سال قبل پہلی یہودی عبادت گاہ اسی مقام پر تعمیر کیا تھا۔

ان کے مطابق اس مقام پر تعمیر ہونے والی دوسری یہودی عبادت گاہ کو رومیوں نے 70 قبل از مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔

مسجد کا نظام کون چلاتا ہے؟

مسجد اقصیٰ

،تصویر کا ذریعہReuters

واضح رہے کہ سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اقصیٰ مسجد پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا اور مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک کے ساتھ ساتھ اسے اسرائیل میں ضم کر لیا تھا۔

اس سے قبل یہ علاقہ مصر اور اردن کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا تاہم اسرائیل کے اس قبضے کو بین الاقوامی سطح پر کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

الاقصیٰ کمپلیکس کے حوالے سے اسرائیل اور اردن کے درمیان 1967 کے معاہدے کے مطابق اردن کے وقف بورڈ کو مسجد کے اندر کے انتظام کی ذمہ داری ملی جبکہ اسرائیل کو بیرونی سکیورٹی کے انتظامات کی ذمہ داری ملی۔

الاقصی میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سرکاری طور پر اردن کے ہاشمی بادشاہ ناظم الامور ہیں اور وہی آج بھی اسلامی وقف کے اراکین کو نامزد کرتے ہیں جن کے ذریعے یہاں کا نظام چلایا جاتا ہے۔

ایک معاہدے کے مطابق غیر مسلم افراد بھی اس مقام پر آ سکتے ہیں لیکن مسجد کے احاطے میں صرف مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ہے۔

اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے یہودیوں پر ٹیمپل ماؤنٹ میں داخلے کی پابندی عائد کر رکھی ہے کیوںکہ یہودیت کے عقائد کے مطابق یہ جگہ اتنی مقدس ہے کہ لوگوں کو یہاں داخل نہیں ہونا چاہیے۔

اسرائیلی حکومت کے قواعد کے تحت مسیحی اور یہودی اس مقام کا دورہ بطور سیاح کر سکتے ہیں اور وہ بھی ہفتے میں صرف پانچ دن کے دوران چار گھنٹوں کے لیے۔

اس کمپلیکس کی مغربی دیوار کو ’ویلنگ دیوار‘ یا دیوار گریہ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شاہ سلمان کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا ایک یہی اصلی حصہ باقی بچا ہے۔

مسلمان اسے ’دیوار البراق‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام نے ’البراق‘ کو باندھا تھا۔

تنازع

مسجد اقصیٰ

،تصویر کا ذریعہReuters

سنہ 2000 میں اس وقت اسرائیل کی مرکزی حزب اختلاف جماعت کے سربراہ ایرل شیرون دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ کے اراکین کے ہمراہ اس مقام پر آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’ٹیمپل ماؤنٹ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہمارے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔ یہ یہودیت کا سب سے مقدس مقام ہے اور ہر یہودی کو حق ہے کہ وہ یہاں آ سکے۔‘

اس پر فلسطین میں احتجاج ہوا جس کے بعد پرتشدد جھڑپیں ہوئیں اور الاقصی انتفادا کا آغاز ہوا جس میں تین ہزار فلسطینی اور ایک ہزار اسرائیلی ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

مئِی 2021 میں فلسطینی شہریوں کی بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان اقصیٰ مسجد کے احاطے میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 163 فلسطینی اور 17 اسرائیلی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

اس کے ردعمل میں حماس تنظیم نے غزہ کی پٹی کی جانب سے یروشلم پر راکٹ داغے اور اسرائیل سے 11 دن تک تناؤ رہا۔

گذشتہ سال 30 سال بعد اسلامی ماہ رمضان اور یہودیت میں پاس اوور کی ایک ہفتہ طویل چھٹی ایک ساتھ شروع ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے احاطے کو زبردستی یہودیوں کے لیے خالی کروانے کی کوشش کی جس پر پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

حالیہ واقعے میں اسرائیلی پولیس یہ کہتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی کہ چند شر پسند عناصر نے خود کو مسجد میں بند کر رکھا ہے اور پتھر اور آتشیں مواد بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے ربڑ کی گولیاں اور سٹن گرینیڈ استعمال کیے اور 50 افراد زخمی ہوئے۔

یہ احتجاج اس لیے شروع ہوا تھا کیوں کہ ایسی خبریں پھیل رہی تھیں کہ یہودی انتہا پسند اس کمپاؤنڈ میں بکرا ذبح کرنے کی کوشش کریں گے جسے یہودی خود ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔

ہر سال یہودی انتہا پسند گروہ اس حوالے سے لابی کرتے ہیں کہ انھیں ٹیمپل ماؤنٹ میں پاس اوورکے تہوار سے پہلے بکرا ذبح کرنے کی اجازت دی جائے۔

تاہم اسرائیلی پولیس اور مذہبی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایسے عمل کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ پولیس نے امن بحال کرنے اور تمام مذاہب کے لیے راستہ کھولنے کے لیے کارروائی کی جبکہ اسلامی وقف کا کہنا ہے کہ پولیس نے مسجد کی بے حرمتی کی۔

BBCUrdu.com بشکریہ