انا اوبریگن: ’کرائے کی کوکھ سے پیدا ہونے والی بچی کا والد تین سال قبل وفات پانے والا میرا بیٹا ہے‘

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

68 سالہ ٹی وی اداکارہ اینا اوبریگن نے امریکہ میں سروگیسی (کرائے کی کوکھ سے جنم لینے) سے بچی کی پیدائش کا انکشاف کر کے سپین بھر میں لوگوں کو دنگ کر دیا تھا، تاہم اب انھوں نے وضاحت کی ہے کہ اس بچی کا والد ان کا وفات پا جانے والا بیٹا ہے۔

میامی میں قیام کے دوران انھوں نے ہولا میگزین کو بتایا کہ یہ بچی میری بیٹی نہیں ہے بلکہ میری پوتی ہے۔

سپین میں سروگیسی کے ذریعے بچے کی پیدائش غیر قانونی ہے، لیکن بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے کو گود لینا جائز ہے۔

ان کا بیٹا 27 سال کی عمر میں کینسر سے وفات پا گیا تھا اور اوبریگن سمجھتی ہیں کہ بچی نے ان کی زندگی کو مکمل کیا ہے۔

انھوں نے بیٹے کی موت سے ایک ہفتہ قبل اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ ’یہ ایلس کی آخری خواہش تھی، وہ اپنے ایک بچے کو دنیا میں لانا چاہتا تھا۔‘

2020 میں ایلس لیکیو کی موت سے قبل ان کے سپرم کا ایک نمونہ نیویارک میں منجمد کر کے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بچی کو جنم دینے والی ماں فلوریڈا میں رہنے والی کیوبن نژاد خاتون بتائی جاتی ہیں۔

ana

،تصویر کا ذریعہReuters

اینا اوبریگن کی جانب سے یہ انکشاف کہ انھوں نے امریکہ میں سروگیسی کے لیے ادائیگی کی تھی، بائیں بازو کی حکومت کے وزرا میں غصے کا سبب بنا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک قومی بحث کو جنم دیا۔

ایکویلٹی منسٹر (مساوات کی وزیر) آئرین مونٹیرو نے اس عمل کو ’خواتین کے خلاف تشدد کی ایک شکل‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

تاہم ڈراموں میں اپنے کرداروں سے شہرت حاصل کرنے والی، اینا بچی کی پیدائش پر تنقید کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہیں۔ وہ اس کا دفاع کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سروگیسی تولید کی ہی ایک شکل ہے جو سپین کے باہر زیادہ تر ممالک میں قانونی ہے۔

سروگیسی کا مطلب ہے جب کوئی عورت کسی اور کا بچہ اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھنے اور اسے جنم دینے پر رضامندی ظاہر کرتی ہے۔ عموماً ایسا پیسے کے بدلے میں کیا جاتا ہے تاہم ضروری نہیں کہ ہمیشہ یہی وجہ ہو۔

انا اوبریگن کے مطابق بچی جس کا نام اینا سینڈرا رکھا گیا ہے اور اسے میڈرڈ لے جانے سے قبل ہسپانوی قونصل خانے میں رجسٹر کرایا جائے گا۔ تاہم انھوں نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ آیا وہ اس بچی کے بہن یا بھائی کو بھی دنیا میں لانے کا ارادہ رکھتی ہیں یا نہیں۔

ہولا میگزین کے صفحہ اول پر ٹی وی اداکارہ اور نئے بچے کی تصویر شائع ہوئی، ایک اور ہسپانوی میگزین لیکچر نے اس سروگیٹ ماں کو دکھایا جس نے اینا سینڈرا کو جنم دیا ہے۔

BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہBBC NEWS

اخلاقی طور پر دادی کی طرف سے گود لینا سپین کے سول کوڈ کے تحت ممکنہ طور پر ایک مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ آرٹیکل 175 کے تحت آپ ’اپنے بچوں کی اولاد‘ کو گود لینے کے حقدار نہیں ہیں، تاہم اینا واضح کرتی ہیں کہ قانونی طور پر وہ بچے کی ماں ہیں چاہے وہ بائیولوجیکلی اس کی دادی ہی کیوں نہ ہوں۔

اگرچہ سپین میں وفات پانے والے مرد کے سپرم کو حمل کے لیے باقاعدگی سے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کی اجازت مرد کی وفات کے 12 ماہ کے اندر اندر ہے اور ایسے بچے کو جنم صرف بیوہ ہی دے سکتی ہے۔

سماجی فلسفے کے تجزیہ کار گونزالو ویلاسکو کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ اخلاقی مسئلہ ہے۔

انھوں نے ریڈیو سٹیشن کیڈینا ایس ای آر کو بتایا کہ اینا اوبریگن نے اپنے وفات پانے والے بیٹے کی خواہشات کی تکمیل کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔

’کوئی اولاد اپنے والدین کی ملکیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وفات پا جانے والا شخص کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔ کسی ماں یا باپ کو اپنے بچے کی خواہشات کی ترجمانی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔‘

ایلیس لیکیو کے والد اور اداکارہ کے سابق ساتھی ایلیسنڈرو لیکیو نے بچے کی پیدائش پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سروگیسی کتنی طرح کی ہوتی ہے؟

سروگیسی ایک طرف انتہائی خوشی کا سبب بن سکتی ہے تو دوسری طرف غریب اور مظلوم خواتین کے استحصال کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے۔ مگر حالیہ عرصے میں سروگیسی یا کسی دوسرے کی کوکھ سے بچے کی پیدائش ہونا عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں آئی وی ایف جیسی تکنیکوں میں ہونے والی پیش رفت، روایتی رویوں میں نرمی اور دیر سے بچے پیدا کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان شامل ہیں۔

سروگیسی دو طرح کی ہو سکتی ہے: جیسٹیشنل، جہاں سروگیٹ ماں کی کوکھ میں بیضہ (ایگ) اور نطفہ (سپرم) داخل کیے جاتے ہیں، اور روایتی، جہاں سروگیٹ ماں کا اپنا بیضہ استعمال ہوتا ہے۔

سروگیسی خاص طور پر ان جوڑوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے جو قدرتی طور پر بچے پیدا نہیں کر سکتے۔ اس عمل کے ذریعے وہ گود لینے کے طویل اور مشکل عمل سے گزرے بغیر ‘اپنے’ بچوں کے والدین بن سکتے ہیں۔زیادہ تر کیسز میں یہ تمام چیزیں آرام سے ہو جاتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے سروگیسی کی مقبولیت بڑھی ہے، اس کے ساتھ ہی سروگیٹس کے ساتھ برے سلوک اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی مسائل کی کہانیاں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔

بچوں کے بارے میں تشویش کے ساتھ ساتھ ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں سروگیٹ ماؤں کو ایجنٹس ابتر حالات میں رکھتے ہیں اور ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اکثر اوقات معاشرتی اور معاشی طور پر کمزور خواتین کو سروگیسی کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں پیسوں کا لاچ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوکرین میں سروگیسی کے لیے 20000 ڈالر تک کی رقم دی جا سکتی ہے، جو کہ وہاں کی اوسط سالانہ آمدنی سے 8 گنا زیادہ ہے۔

تاہم اس طرح کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سروگیٹ ماؤں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے اور سخت قوائد نہ ماننے یا بچے ضائع ہو جانے کی صورت میں ایجنسیز انہیں پیسے دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔

اس طرح کے مسائل کی وجہ سے کئی ممالک نے سروگیسی پر پابندی لگا دی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کہہ چکا ہے کہ کمرشل سروگیسی، یعنی پیسوں کے لیے کی گئی سروگیسی بچے بیچنے کے مترادف ہے۔

زیربحث جوڑے کے پاس ’ضروریت کا سرٹیفکیٹ‘ ہونا ضروری ہے جس میں ایک یا دونوں افراد کی بانجھ پن ثابت ہونے کا سرٹیفکیٹ، سروگیٹ کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت اور اس کی تحویل سے متعلق عدالتی حکم، اور سروگیٹ ماں کے لیے انشورنس کور شامل ہے۔ 16 مہینوں کے لیے جس میں پوسٹ پارٹم ڈیلیوری کی پیچیدگیاں شامل ہیں۔

مختلف ممالک میں مختلف قوانین

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سروگیسی کے بارے میں قوانین ہر ملک میں مختلف ہیں۔ جرمنی اور فرانس جیسے ممالک میں اسے خواتین کا احترام نہ کرنے، اور کسی اور کے مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس لیے اس پر مکمل پابندی ہے۔

برطانیہ جیسے کچھ دیگر ممالک میں اسے ایک عورت کی طرف سے دوسری عورت کو دیا گیا تحفہ سمجھا جاتا ہے، اور اس کی اجازت تو ہے مگر خرچوں کو چھوڑ کر اس کے لیے کوئی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا، روس اور یوکرین میں اس کے برعکس کمرشل سروگیسی کی اجازت ہے۔ وہاں اسے ایک عورت کی خود مختاری اور اپنی مرضی سے اس عمل میں شامل ہونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن کچھ ایسے ممالک جہاں سروگیسی کی جاتی ہے، وہاں اس بارے میں کوئی ضوابط واضح نہیں۔ ان میں کینیا اور نائجیریا شامل ہیں۔

مختلف ممالک میں مختلف قوانین کے ہونے کا مطلب ہے کہ اگر ان کے اپنے ملک میں اس کی اجازت نہیں تو لوگ کسی دوسرے ملک میں جا کر ایسا کر سکتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے اسی مقصد سے انڈیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور نیپال جیسے ممالک کا رُخ کیا۔ اور پھر وہاں خواتین کے ساتھ برے سلوک کی اطلاعات کے بعد ان ممالک نے غیر ملکیوں کے لیے اپنے کلینک بند کر دیے۔

لیکن ایک ملک پابندی لگا دیتا ہے تو اس کی جگہ کوئی دوسرا ملک لے لیتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ