سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ کی سات سال بعد بیجنگ میں ملاقات، سفارتی مشن کھولنے پر بات چیت

saudi, iranian fms

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

  • مصنف, ڈیوڈ گرٹن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کی وزرائے خارجہ کی 2016 کے بعد پہلی ملاقات ہوئی ہے۔

ملاقات کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں چینی ہم منصب ایران کے وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو ہاتھ ملانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے دو ماہ کے اندر سفارتی مشنز کو دوبارہ کھولنے اور پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔

دونوں ممالک نے گزشتہ ماہ چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور خطے میں امریکہ کے کردار کے لیے چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

چین کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ قریبی سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ امریکہ کے ایران کے ساتھ چار دہائیوں سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔

امیر عبداللہیان اور شہزادہ فیصل نے تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدے پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا جس سے باہمی اعتماد اور تعاون کے شعبوں کو وسعت اور سلامتی، استحکام اور خوشحالی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے دوطرفہ دوروں کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک ایرانی عہدیدار نے کہا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے سعودی عرب کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔

سعودی عرب نے سات سال قبل تہران میں اپنے سفارت خانے پر ہجوم کے حملے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اس کے بعد سعودی عرب نے ایک ممتاز شیعہ عالم دین کو پھانسی دے دی تھی جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بہت زیادہ رہا ہے۔

سعودی عرب، جو خود کو سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر دیکھتا ہے، اور ایران جو سب سے بڑا شیعہ مسلم ملک ہے، کئی دہائیوں سے علاقائی بالادستی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں جاری کئی جنگوں کی وجہ سے ان کی دشمنی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

سعودی عرب یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں حکومت نواز افواج کی حمایت کر رہا ہے جبکہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے شہروں اور تیل کی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔

Iran protest

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

سات برس قبل سعودی عرب میں ممتاز شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے

ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ حوثیوں کو ہتھیار مہیا کر رہا ہے۔

سعودی عرب، ایران پر لبنان اور عراق میں مداخلت کا الزام بھی عائد کرتا ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا نے وسیع پیمانے پر فوجی اور سیاسی اثر و رسوخ حاصل کر رکھا ہے۔ ایرانی حمایت شیعہ ملیشیا پر خلیج فارس میں کارگو اور آئل ٹینکروں پر حملوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

ایران نے بحری جہازوں اور تیل کی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

سعودی عرب نے 2015 میں ایران کے جوہری معاہدے کی بھی مخالفت کی تھی اور صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں بحال کرنے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔

بائیڈن انتظامیہ اور ایران کے درمیان معاہدے کی بحالی کے لیے بالواسطہ مذاکرات ایک سال سے تعطل کا شکار ہیں۔

بی بی سی کے سیکورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا تجزیہ

مشرق وسطیٰ کے دو بڑے حریفوں کے درمیان یہ مفاہمت ایک غیر معمولی واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ چین کے لیے ایک سفارتی فتح بھی ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے آٹھ برس پہلے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو کچلنے کی امید میں سرحد پار یمن میں جنگ شروع کی گئی تھی لیکن اب ریاض کو حقیقت سجمھ آ گئی ہے۔

سعودی قیادت بادل نخواستہ دو حقیقتوں کو تسلیم کرنے لگی ہے، کہ ایران ایک مضبوط فوجی طاقت ہے جس کے پاس میزائیلوں کا وسیع ذخیرہ ہے اور پورے خطے میں اس کے حواری ملیشیا موجود ہیں جنہیں سعودی عرب اور اس کے اتحادی شکست دینے کے قابل نہیں ہیں۔

دوسرا یہ کہ امریکہ کے ساتھ برائے نام سٹریٹجک اتحاد کے باوجود سعودی عرب اب واشنگٹن پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔

سعودی قیادت کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ پسند تھے جو 2017 میں بطور صدر اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر ریاض گئے تھے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رو صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ روابط بڑھانے شروع کیے تھے تو سعودی عرب کی قیادت نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

آج سعودی عرب کے بائیڈن انتظامیہ سے تعلقات کشیدہ ہیں اور امریکی درخواستوں کے باوجود سعودی عرب نے تیل کی پیدوار میں اضافہ نہیں کیا ہے جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

لہذا سعودی ایران معاہدہ اس بات کی تازہ ترین علامت ہے کہ ریاض اپنا راستہ خود بنا رہا ہے اور وہ نئے اتحاد بنا رہا ہے، چاہے وہ ان ممالک کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو جنہیں امریکہ سٹریٹجک خطرات کے طور پر دیکھتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ